Islam Mein Khula Ka Haqeeqi Concept Kya Hai?

اسلام میں خلع کا حقیقی Conceptکیا ہے؟

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:JTL-0546

تاریخ اجراء:23ربیع الثانی1444ھ/19نومبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ہم شعبہ وکالت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام میں خلع کا حقیقی Conceptکیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلام ایک ایسا کامل اور  مکمل دین ہے کہ جس میں زندگی کےہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی موجود ہے اور اسلام کے قوانین انصاف  و اعتدال پر مبنی ہیں  اور اگر ان قوانین کا مکمل اور صحیح طریقے سے نفاذ کیا جائے ،تومعاشرے میں فساد ختم ہوتا ہے اور ان قوانین کی خوبی واضح ہوتی ہے۔

   اسلام کے خوبصورت  قوانین  میں سے ایک قانون خلع بھی ہے۔ جس کا حقیقی تصور یہ ہے کہ  میاں اور بیوی  میں سے ہر ایک کے کچھ حقوق ایک دوسرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں،لیکن ظاہر ہےبہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دوسرے کے  حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ۔ حق تلفی کبھی بیوی کی طرف سے ہوتی ہے او رکبھی شوہر کی طرف سے ۔بہر حال اسلام نے حتی الامکان درگزر کرنے اور صلح کی ترغیب دلائی ہے، لیکن   اگر معاملہ اس حد تک خراب ہو جائے کہ شرعی احکام و حدود کی پیروی کرتے ہوئے  باہم  اکٹھے زندگی گزارنا مشکل ہو جائے ،تو پھر شریعت نے اجازت دی ہے کہ  لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ کے بجائے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔

   علیحدگی اختیار کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق دے دے۔ (اس صورت کو خلع نہیں کہا جائے گا ۔)

   اور دوسری صورت یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو یہ خوف ہو کہ آپس کے شرعی حقوق ادا کرتے ہوئے وہ زندگی نہیں گزار سکتے ،اس لیے وہ دونوں علیحدہ ہونے کے لیے باہم  یوں معاہدہ / ڈیل (Deal)کرتے ہیں کہ عورت طلاق کے بدلے میں کچھ  معاوضہ  شوہر کو دیتی ہے اورشوہر معاوضہ  لے کر بدلے  میں عورت کو  طلاق دے دیتا ہے۔ علیحدگی کی اس صورت کو اسلام میں”خلع“ کہتے ہیں اور یہ باہم تصفیہ کی ایک  صورت ہے۔

   اللہ عزوجل سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے: ” وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ “ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیااس میں سے کچھ واپس لو،مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے  پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے، تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے ،تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (القرآن ،سورہ بقرہ، آیت 229)

   یہ وہ آیت مبارکہ ہے جس میں خلع کا حکم بیان ہوا ہے اور یہ آیت مبارکہ جس موقع پر نازل ہوئی اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ثا بت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ثابت بن قیس کے اخلاق و دین کی نسبت مجھے کچھ کلام نہیں (یعنی اُن کے اخلاق بھی اچھے ہیں اور دیندار بھی ہیں) مگر اسلام میں کفران نعمت کو میں پسند نہیں کرتی (یعنی بوجہ خوبصورت نہ ہونے کے میر ی طبیعت ان کی طرف مائل نہیں) ارشار فرمايا:” أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟“یعنی اُس کا باغ (جو مہر میں تجھ کو دیا ہے) تو واپس کر دےگی؟ عرض کی:ہاں۔ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ثابت بن قیس سے فرمايا:” اَقْبَلِ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً “ترجمہ: باغ لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔(صحیح البخاری، کتاب الطلاق، الحدیث5273،جلد 7، صفحہ 47، دار طوق النجاۃ)

   مذکورہ بالا واقعہ  میں ہونے والا خلع اسلام میں سب سے پہلا خلع  تھا۔ خلع کے متعلق شریعت کے مزید احکام بھی ہیں اور ان میں سے چند  درج ذیل ہیں:

   خلع سے متعلق مزید چند احکام:

   (۱)جو کچھ مال بطور فدیہ عورت شوہر کو دے کر اپنی جان چُھڑا لے، تو اس میں زوجین میں سے کسی پر کچھ گناہ نہیں۔یہ حکم  مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا ۔(ماخوذ از تفسیر نعیمی ، جلد 2، صفحہ 445، نعیمی کتب خانہ)

   (۲) علماء فرماتے ہیں کہ اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو ،تو خلع پر معاوضہ لینا مکروہ ہے،  چاہے تھوڑا لے یا زیادہ ۔ اور اگرزیادتی  عورت کی طرف سے ہو،تو پھر شوہر کو چاہیے کہ جتنا مہر میں دیا ہے صرف اتنا ہی لے ،  اُس سے زیا دہ لینا مکروہ ہے۔ پھر بھی اگر زیادہ طے ہوا، تو زیادہ ہی دینا پڑے گا۔

   (۳)مذکورہ بالا حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عورت کا مال دے دینا ہی کافی نہیں، بلکہ عورت مال کے بدلے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے گی اور شوہر طلاق دے گا، پھر خلع مکمل ہوگا۔

   (۴)اسی حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قاضی یا حاکم وغیرہ عورت کے مطالبے پر خود طلاق نہیں دے گا ،بلکہ عورت اگر قاضی کے پاس مطالبہ لے کر پہنچی ہے اور اس کا  عذر معقول ہے اور صلح کی بھی کوئی صورت نہیں بن رہی ،تو اب قاضی یا حاکم شوہر کو حکم دے گا کہ وہ معاوضہ قبول کر کے عورت کو طلاق دے ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو خود سے طلاق نہیں دی تھی، بلکہ اس کے شوہر کو مال لے کر  طلاق دینے کا حکم دیا تھا۔اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طلاق دینے کا مالک شوہر کو بنایا گیا ہے۔

   (۵)خلع ہونے سے ایک بائن طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

   مذکورہ بالامسائل سے متعلق چند جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

   فتاوی ہندیہ میں خلع کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ” إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير “ترجمہ: ملکیتِ نکاح کو کسی معاوضے کے بدلے لفظ خلع کے ذریعے ختم کرنے کا نام خلع ہے۔ ایسا ہی فتح القدیر میں ہے۔(الفتاوى الهنديہ،جلد1، صفحہ 488، دار الفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے :” مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ عورت کا قبول کرنا شرط ہے ،بغیر اُس کے قبول کیے خلع نہیں ہو سکتا ۔ “(بھار شریعت ، جلد2، صفحہ194، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   حضرت عطاء رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا:” لا يأخذ من المختلعة أكثر مما أعطاها “ترجمہ: شوہر نے جتنا مال دیا تھا اس سے زیادہ  خلع لینے والی خاتون سے نہ لے۔(السنن الكبرى للبيهقی ، جلد 7، صفحہ  514، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے: ”إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع. وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان“ترجمہ: اگرقصور شوہر کی طرف سے ہے  ،تو اسے خلع پر کچھ بھی معاوضہ لینا جائز نہیں اور یہ دیانت کا حکم ہے، بہر حال اگر وہ لے گا تو قضاءً یہ جائز ہے اور یہ مال لازم ہوگا ،حتی کہ عورت یہ مال شوہر سے واپس لینے کا حق نہیں رکھتی۔ ایسا ہی بدائع میں ہے۔ اور اگر قصور عورت کی طرف سے ہے، تو ہمارےنزدیک یہ مکروہ ہے کہ وہ دیئے ہوئے مہر سے زیادہ مال اس عورت سے لےلیکن حکمِ قضا کے طور پر اگر وہ لیتا ہے، تو یہ درست ہوگا۔ایسا ہی غایۃ البیان میں ہے۔(الفتاوى الهندية ،جلد1، صفحہ 488، دار الفکر، بیروت)

   اسی میں ہے: ” إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود اللہ فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية “ترجمہ: اگر میاں بیوی  میں لڑائی جھگڑا ہے اور انہیں  خوف ہے کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے، تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت اپنی جان کے بدلے شوہر کو کچھ مال بطور فدیہ دے کر اس سے خلع حاصل کر لےاور پھر جب وہ دونوں یہ کر لیں گے، تو ان کے مابین ایک بائن طلاق واقع ہو گی اور مال دینا عورت پر لازم ہوگا۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔    (الفتاوى الهندية ،جلد1، صفحہ 488، دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم