مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1840
تاریخ اجراء:26محرم الحرام1446ھ/02اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
حیض کی حالت میں طلاق دینا کیوں منع ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث پاک کے حکم کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دینا ممنوع و ناجائز ہے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔ نیزحالتِ حیض میں طلاق دینے سے ممانعت کی ایک عقلی وجہ یہ بھی کہ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جائے تو اس صورت میں عدت، طلاق کے بعد سے ہی شروع ہوجانے کے باوجود وہ حیض عدت میں شمار نہ ہوگا، بلکہ اس حیض کے علاوہ آئندہ کے تین مکمل حیض آکر جب ختم ہوں تو عدت مکمل ہوگی، اس صورت میں عورت کی عدت بہت طویل ہوجائے گی جو اس کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
حیض کی حالت میں طلاق ہو جانے کے متعلق بخاری شریف میں ہے :”عن أنس بن سیرین قال: سمعت ابن عمر قال: طلق ابن عمر امرأتہ وہی حائض، فذکر عمر للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: لیراجعہا قلت: تحتسب؟ قال: فمہ۔ “یعنی انس بن سیرین سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا:ابن عمر نے اپنی زوجہ کوحیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ابن عمر رجوع کر لیں ،میں (انس)نے کہا کہ کیا وہ طلاق شمار کی جائے گی ؟تو ابن عمر نے کہا کیوں نہیں ۔(صحیح البخاری مع عمدۃ القاری،جلد20،صفحہ227، داراحیاء التراث بیروت)
مذکورہ حدیث شریف کے تحت شارح مسلم علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اجمعت الامۃ علی تحریم طلاق الحائض الحائل بغیر رضا ھا فلو طلقھا اثم ووقع طلاقہ ویؤمر بالرجعۃ لحد یث ابن عمرالمذکور فی الباب “یعنی اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ حالتِ حیض میں عورت کی رضامندی کے بغیر طلاق دینا حرام ہے اگر کسی نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلا ق دی تو طلاق دینے والا گنہگار ہوگا لیکن اس کی طلاق واقع ہوجائے گی اور اس شخص کو رجوع کا حکم دیا جائے گا جیساکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اس حدیث سے ثابت ہے۔ (شرح المسلم للنووی ، کتاب الطلاق ،جلد 1،صفحہ 475،مطبوعہ: کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے:”لأن فيه تطويل العدة عليها لأن الحيضة التي صادفها الطلاق فيه غير محسوبة من العدة فتطول العدة عليها وذلك إضرار بها “یعنی اس وجہ سے کہ اس میں عورت کی عدت کو طویل کرنا ہے کیونکہ جس حیض میں طلاق دی، وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا ، تو عورت پر عدت طویل ہوجائے گی اور یہ عورت کو ضرر میں ڈالنا ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 4، صفحہ 205، مطبوعہ:بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم