مجیب: ابو الحسن جمیل احمد
غوری عطاری
فتوی نمبر:Web-932
تاریخ اجراء:07ذوالقعدۃ الحرام1444 ھ/27مئی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مدخولہ بیوی
کو حیض میں طلاق دینا حرام ہے اگرچہ اس حالت میں
بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور
طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔اسی طرح ایک ساتھ
تین طلاقیں دینا بھی جائز نہیں، اور اگر دیں
تو تینوں طلاقیں ہو جائیں
گی اور شوہر گناہگار ہوگا۔
فتاوی رضویہ میں ہے:”حالتِ حیض میں طلاق دینا
حرام ہے کہ حکمِ الہٰی فَطَلِّقُوۡہُنَّ
لِعِدَّتِہِنَّ (ترجمۂ
کنزالایمان: تو ان کی عدت
کے وقت پر انہیں طلاق دو)مگر دے گا تو ضرور ہوجائے گی اور یہ
گناہگار ۔“(فتاوی رضویہ،جلد12، صفحہ 332،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
در مختار میں ہے:”(والبدعی
ثلاث متفرقۃ)او ثنتان بمرۃ او مرتین فی طھر واحد (لا
رجعۃ فیہ او واحدۃ
فی طھر وطئت فیہ او) واحدۃ فی ( حیض موطوءۃ)“یعنی طلاقِ بدعت یہ ہے کہ ایک
ایسے طہر میں تین متفرق طلاقیں یا دو طلاقیں
ایک مرتبہ یا دو مرتبہ
میں دے جس میں رجعت نہ کی ہو یا ایک طلاق
ایسے طہر میں دے جس میں وطی کر لی گئی ہو
یا مدخولہ کو حیض میں ایک طلاق دے۔(درمختار ، جلد4،صفحہ 423۔424،
مطبوعہ:کوئٹہ)
بیوی کو حیض
میں طلاق دینے سے شوہر گناہگار ہوگا اور طلاق بھی واقع ہوجائے
گی۔چنانچہ ہدایہ میں ہے :’’واذا
طلق الرجل امرأ تہ فی حالۃ الحیض وقع الطلاق‘‘یعنی
جب مرد نے اپنی بیوی کو
حالت ِ حیض میں طلاق د
ی تو طلاق واقع ہوگئی ۔‘‘
اس کے
تحت بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :’’ویأثم
باجماع الفقھاء‘‘اور (حیض کی حالت میں طلاق دینے
والا) باجماعِ فقہاء گناہگار ہوگا۔‘‘(البنایۃ فی شرح الھدایۃ،جلد5،صفحہ17، کوئٹہ )
سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام
احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ایک
بارتین طلاق دینےسےنہ صرف نزدحنفیہ بلکہ اجماعِ مذاہبِ اربعہ
تین طلاقیں مغلظہ ہوجاتی ہیں۔امام شافعی،امام
مالک،امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم ائمہ متبوعین
سےکوئی امام اس باب میں اصلاًمخالف
نہیں۔۔۔۔۔ایک ساتھ تین
طلاقیں دیناگناہ ہے،زیدگناہگارہوااور عورت اس کے نکاح سےایسی خارج ہوئی کہ
اب بےحلالہ ہرگزاس کےنکاح میں نہیں آسکتی،اگر
یُونہی رجوع کرلی، بلاحلالہ نکاحِ جدید باہم کرلیا
تو دونوں مبتلائے حرامکاری ہوں گے اور عمر بھر حرام کاری کریں
گے۔“(فتاوی
رضویہ، جلد12،صفحہ410،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
تنبیہ:عورت کو حیض
میں طلاق دی گئی ہو تو طلاق والاحیض عدت میں شمار نہیں ہو گا بلکہ وہ
حیض ختم ہو کر ایک طُہر گزرنے کے بعد پورے تین حیض ختم ہونے پر عدت پوری
ہوگی۔فتاوی
ہندیہ میں ہے:’’اذا طلق امرأتہ فی حالۃ الحیض کان علیھا الاعتداد
بثلاث حیض کوامل ولا تحتسب ھذہ الحیضۃ من العدۃ کذا
فی الظھیریۃ۔‘‘یعنی اگر شوہر نے اپنی بیوی کو
حیض کی حالت میں طلاق دی
تو اس پر تین کامل حیض عدت گزارنا ضروری ہے اور اس
(طلاق والے) حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا
اسی طرح ظہیریہ میں ہے۔‘‘(الفتاوی الھندیۃ،جلد1، صفحہ527،کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم