Agar Kabhi To Meri Ijazat Ke Baghir Maikay Gai To Tuje 3 Talaq, Biwi Ko Ye Alfaz Boly To Hukum

’’اگرکبھی تومیری اجازت کے بغیر میکے گئی،تو تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے۔‘‘بیوی کویہ الفاظ بولے ،توحکم

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-682

تاریخ اجراء:18شوال المکرم1444ھ/09مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شادی کے بعد میری بیوی کی عادت یہ تھی کہ گھر میں بہت کم اور میکے بہت زیادہ رہتی تھی،جس پر ہمارے لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہے،مگر وہ اپنی عادت سے باز نہ آئی ۔ابھی دو دن پہلے اسی موضوع پر ہماری بات چیت چل رہی تھی اور میں اسے سمجھا رہا تھا، مگر وہ یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی،تو میں نے غصہ میں کہہ دیا کہ ’’اگرکبھی تومیری اجازت کے بغیر میکے گئی،تو تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے۔‘‘ میری طرف سے طلاق کے الفاظ بولے جانے کے بعد وہ میکے نہیں گئی۔پوچھنا یہ ہے کہ اگر وہ میری اجازت کے بغیر میکے چلی جاتی ہے ،تو کیا تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی؟نیز کوئی ایسا حل ہو سکتا ہے کہ بغیر اجازت جانے کی صورت میں بھی طلاق نہ ہو؟

   نوٹ:ابھی تک قولاً فعلا کسی طرح  رجوع نہیں کیاگیا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ کی جانب سے بیوی کے متعلق جو تعلیق  کےالفاظ بولے گئے، اس میں طلاق کے الفاظ حرف عطف سے خالی ہیں اورقوانین شرعیہ کے مطابق مدخولہ عورت کے لیے حرف عطف کے بغیر طلاق کے الفاظ بولنے کی صورت میں صرف ایک طلاق معلق ہوتی ہے،باقی منجز یعنی فوراً واقع ہو جاتی ہیں،لہذا صورت مستفسرہ میں صرف پہلی طلاق معلق ہوئی،بقیہ دو طلاقیں فوراً واقع ہوگئیں اور الفاظ چونکہ صریح ہیں ،لہذا دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں۔طلاقِ رجعی کے حکم کے مطابق آپ عورت سے اس کی عدت میں بغیر اس کی رضا مندی کے بھی رجوع کرسکتے ہیں اور عدت کے بعد عورت کی رضامندی سے دوبارہ اس سے نکاح کرسکتے ہیں۔دورانِ عدت اگر آپ رجوع کرنا چاہیں، تو اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجعت کریں ،مثلاً:زبان سے بیوی کو کہہ دیں کہ میں نے تم سے رجوع کیا،نکاح میں لیا ،تو رجوع ہوجائے گا،اس پر دو عادل شخصوں کو گواہ بھی کرلیں اور اگر عورت کے سامنے رجعت نہیں کی، تو اسے خبر بھی دے دیں ،تاکہ وہ عدت گزرنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات والا کوئی کام جیسے بوس و کنار وغیرہ کرلیں ،تو بھی رجوع ہوجائے گا،لیکن رجعت کا یہ دوسرا طریقہ خلاف سنت و مکروہ ہے۔

   یاد رہے دوران عدت رجوع کر لینے یا بعد عدت دوبارہ نکاح کر لینے کے بعد بھی معلق طلاق باقی  رہے گی اور زندگی بھر کبھی بھی آپ کی بیوی آپ کی اجازت کے بغیر میکے گئی، تو تیسری  معلق طلاق بھی واقع ہو جائے گی اور بیوی آپ پر بحرمت مغلظہ حرام ہو جائے گی اور بغیر حلالہ دوبارہ نکاح نہیں ہو سکے گا۔

   معلق طلاق واقع نہ ہو، اس کا حل یہ ہے کہ آپ دوران عدت رجوع نہ کریں ، جب آپ کی بیوی کی عدت ختم ہو جائے گی، تو وہ نکاح سے باہر ہو جائے گی،اس کے بعد وہ آپ کی اجازت کے بغیر  اپنے میکے چلی جائے ،تو اس طرح تعلیق ختم ہو جائے گی اور دوبارہ نکاح کر لینے کے بعد بالفرض بغیر اجازت میکے چلی بھی گئی، تو مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن علامہ شامی علیہ الرحمۃ کی جانب سے حرف عطف کے ساتھ تعلیق کے تفصیلی احکام بیان کیے جانے کے بعد،حرف عطف کے بغیر تین طلاق کی تعلیق کا حکم بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ھذا کلہ اذا ذکرہ بحرف العطف فان ذکرہ بغیر حرف العطف ان کان الشرط مقدماً فقال:ان دخلت الدار فانت طالق طالق طالق وھی غیر مدخولۃ فالاول معلق بالشرط والثانی یقع للحال والثالث لغو ثم اذا تزوجھا و دخلت الدار ینزل المعلق وان دخلت بعد البینونۃ قبل التروج حنث ولا یقع شئی وان کانت مدخولۃ فالاول معلق بالشرط والثانی والثالث یقعان فی الحال وان اخر الشرط فقال:انت طالق طالق طالق ان دخلت الدار وھی غیر مدخولۃ فالاول ینزل للحال و لغا الباقی وان کانت مدخولۃ ینزل الاول والثانی للحال و یتعلق الثالث بالشرط کذا فی السراج الوھاج اھ ھندیۃ‘‘یہ تمام تر تفصیل اس وقت ہے، جب اس نے تعلیق حرف عطف کے ساتھ ذکرکی ہو،پس اگر تعلیق کو حرف عطف کے بغیر ذکر کیا، تو اگر شرط مقدم ہو اور شوہر کہے:اگر تو گھر میں داخل ہوئی، تو تجھے طلاق ہے،طلا ق ہے،طلاق ہے اور عورت غیر مدخولہ ہو ،تو پہلی طلاق شرط کے ساتھ معلق ہوگی اور دوسری فوراً واقع ہو جائے گی اور تیسری لغو ہو جائے گی، پھر جب وہ اس سے شادی کرے اور عورت گھر میں داخل ہو ،تو معلق بھی واقع ہو جائے گی اور اگر وہ نکاح سے باہر ہونے کے بعد دوبارہ نکاح سے پہلے داخل ہوئی، تو قسم ختم ہوجائے گی اور کچھ بھی واقع نہیں ہوگا اور اگر عورت مدخولہ ہو، تو پہلی طلاق  شرط کے ساتھ معلق ہوگی اور دوسری ،تیسری فوراً واقع ہوجائیں گی اور اگر شرط کو مؤخر کیا اور کہا:تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے ،اگر تو گھر میں داخل ہوئی اور عورت غیر مدخولہ ہو، تو پہلی فوراً واقع ہو جائے گی اور باقی لغو ہو جائیں گی اور اگر عورت مدخولہ ہو ،تو پہلی اور دوسری فوراً واقع ہو جائیں گی اور تیسری طلاق شرط کے ساتھ  معلق ہوگی ،اسی طرح سراج الوہاج میں ہے۔ہندیہ۔(جد الممتار،ج5،ص66،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بغیر عطف تعلیق کا یہ حکم فتاوی رضویہ  کے ایک تحقیقی فتوی میں بھی  مذکور ہے۔چنانچہ سید ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سےسوال ہوا کہ’’ایک شخص نے نکاح نامہ میں بیوی کو لکھ دیا کہ میں تیری اور تیرے معتبر ولی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح نہ کروں گا، اگر کروں ،تو تیر امکمل مہر ادا شدہ ہوگا اور تجھ سے اور تیرے ولی سے اجازت کے ساتھ ہوگا ،ورنہ میری دوسری منکوحہ پر ایک طلاق،دوسری طلاق ، تیسری طلاق ہوگی،اس کے بعد اس شخص نے کوئی شرط پوری کیے بغیر دوسری عورت سے نکاح کرلیا، تو اس کی دوسری بیوی کو تین طلاق ہوں گی یانہیں؟

   دوسری عورت چونکہ غیر مدخولہ تھی ،لہذا اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے غیر مدخولہ عورت کو تعلیق کے الفاظ کے ساتھ طلاق واقع ہونے کی مختلف صورتوں کا ذکر فرمایا، اس میں ایک صورت یہ ہے کہ جب شرط مقدم ہو اور الفاظ طلاق حرف عطف کے بغیر ہوں ،تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ پہلی طلاق شرط پر معلق ہوجائے گی، جبکہ دوسری فوراً واقع ہوجائےگی اور تیسری لغو ہوجائی گی ،کیونکہ غیر مدخولہ ایک سے زائد طلاق کا محل نہیں ہے۔اس سے معلو م ہواکہ اگر عورت مدخولہ ہو،تو ایک طلاق معلق ہوگی اور بقیہ دو فورا ًواقع ہوجائیں گی۔جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیاہے۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’ اصل اینست کہ معلق ہنگام وجود شرط فرودمی آید گویا اینک بجز منجز تکلم کردہ است وزن نامدخولہ اگرچہ محل وقوع سہ طلاق بیکبار ہست ولہذا اگر اورا گوید برتو سہ طلاق یا اگر بایں خانہ در آئی سہ طلاق باشی در صورت اولٰی فوراً ودر اخری ہنگام دخولہ خانہ سہ طلاق واقع شود بلکہ اگر سہ طلاق جداگانہ تعلیق کرد اما معطوفہ بغیر حرف''ثم'' وشرط را مؤخرآورد مثلاًگفت تو طلاقی وطلاقی وطلاقی اگر چناں کنی نیز بحصول شرط سہ طلاق افتد زیرا کہ عطف بوا ویافا آنہارا موصول کردہ وتا خیر شرط اول سخن را بہ تعلیق تغییر دادہ است پس مجموع معلق شد وبوقوع شرط دفعۃً فرود آمد اما غیر مدخولہ وقوع بتفریق را صلاحیت ندارد ولہذا اگر گفت ترایک طلاق ودو طلاق وسہ طلاق یااگر اینکار کنی تو طلاقی و طلاقی و وطلاقی بتقدیم شرط یا تو طلاقی طلاقی طلاقی اگر چناں کنی بتاخیر شرط وترک عطف ہمیں بیک طلاق بائن شود وباقی لغو رود زیراکہ در صورت اولٰی چوں ترا یک طلاق گفت ایں طلاق افتد وزن از عصمت نکاح بیروں شد وعدت ہم نیست پس محلیت طلاق نماند ومعطوفات باقیہ ہنگام انعدام محلیت بر زماں آمد وبیکار رفت ودر ثانیہ چوں شرط مقدم ست گویا ہنگام وقوع شرط چناں گفت کہ تو طلاقی وطلاقی وطلاقی وبدلیلی ہمیں عہ یک وقوع یافت ودر ثالثہ مغیر کہ در آخر کلام یافتہ شد ہمیں طلاق ثالث را از تنجیز بہ تعلیق تغییر داد کہ ماسلف بجہت ترک عطف باد مربوط نبود، پس ہنگام تکلم بہ کلمہ اولٰی یک طلاق فی الحال واقع شدومحل تنجیز دوم وتعلیق سوم نماند چوں ایں مسائل حالی شد حکم مسئلہ مسئولہ رنگ وضوح یافت کہ بر منکوحہ ثانیہ ہمیں یک طلاق واقع شود وبس قاعدہ یہ ہے کہ کسی شرط کے ساتھ معلق طلاق، اس شرط کے پائے جانے پر وقوع پذیر ہوتی ہے گویا کہ اس وقت اس نے طلاق کا تکلم غیر مشروط طور پر کیا ہے اور غیر مدخولہ عورت یکبار تین طلاقوں کے وقوع کا محل ہے، لہذا اگر خاوند نے غیر مدخولہ بیوی کو کہا تجھے تین طلاق، یا کہا تو اگر اس گھر میں داخل ہوئی تو تجھے تین طلاق، تو پہلی صورت میں فوراً اور دوسری صورت میں اس کے گھر میں داخل ہونے پر تین طلاقیں ہوجائیں گی، بلکہ اگر متفرق طور پر تین طلاقیں کسی شرط سے معلق کردے بشرطیکہ ان متفرق طلاقوں کو لفظ''واؤ'' یا''فاء'' کے ساتھ بطور عطف ذکر کرے ،نہ کہ لفظ''ثم'' کے ساتھ، اور شرط کا ذکر اس کے بعد کرے، مثلاً: یوں کہے تجھے طلاق وطلاق وطلاق اگر تو فلاں کا م کرے، تو اس صورت میں بھی شرط پائے جانے پر تین طلاقیں ہوں گی، کیونکہ واؤ اور فاء کا عطف سب کو ملا دیتا ہے اور جب اس کے بعد شرط ذکر کی ،تو اس شرط نے پہلے پورے کلام کو معلق کردیا ،تو شرط کے پائے جانے پر اس سے معلق تینوں طلاقیں دفعۃً واقع ہوجائیں گی، لیکن اس کے برخلاف اگر غیر مدخولہ کوتین طلاقیں غیر مشروط طور پرمتفرق دے ،مثلاً :یوں کہے تجھے ایک طلاق اور دوسری طلاق اور تیسری یا تینوں کو متفرق طور پر ذکر کرے مگر شرط کو ان سے پہلے ذکر کرے ،مثلاً: یوں کہے، اگر تونے فلاں کام کیا، تو تجھے طلاق اور طلاق اور طلاق، یا مشروط تین طلاقیں ذکرکرے مگر طلاقوں کو بغیر عطف شرط سے پہلے ذکر کردیا ہو، مثلاً :یوں کہے تجھے طلاق طلاق طلاق اگر تو فلاں کام کرے، تو ان تینوں صورتوں میں متفرق شدہ طلاقوں میں سے ایک ہی طلاق ہوگی، جوبائنہ ہوجائے گی اور باقی دو لغو ہوجائیں گی، کیونکہ ان میں سے پہلی صورت میں جب اس نے ''تجھے ایک طلاق'' کہا تو بیوی بغیر عدت نکاح سے خارج ہوجائے گی، تو وہ اس کے بعد طلاق کا محل ہی نہ رہی ،تو باقی دوکے وقوع کے وقت بیوی طلاق کا محل نہ تھی، لہذا وہ دونوں طلاقیں بیکار (لغو) ہوگئیں، اور دوسری صورت میں چونکہ شرط مقدم ہے اس لیے شرط کے وجود پر پہلی طلاق کے بعد باقی دو طلاقوں کا محل نہ رہی، کیونکہ وہ پہلی طلاق کے ساتھ ہی بائنہ ہوگئی، لہذا باقی دونوں لغو ہوگئیں، شرط کے پائے جانے پر، گویا یوں کہا تجھے طلاق وطلاق وطلاق، تویہ پہلی صورت کی طرح ہوگئی، اور تیسری صورت میں اس لیے کہ تعلیق کا تعلق صرف آخری طلاق سے ہوا ،کیونکہ طلاقوں کے بعد اس نے شرط ذکر کی جس نے تیسری طلاق کے وقوع سے روک دیا، اور پہلی دونوں عطف نہ ہونے کی وجہ سے تیسری کے ساتھ مربوط نہ ہوسکیں، لہذا وہ دونوں ذکر کرتے ہی غیر مشروط واقع ہوگئیں، تو جب پہلی واقع ہوئی ،تو وہ بائنہ ہوگئی، تو اس کے بعد وہ دوسری غیر مشروط اور تیسری معلق اور مشروط کا محل نہ رہی، لہذا دوسری اور تیسری لغو ہوگئیں، جب یہ مذکورہ مسائل معلوم ہوگئے،تو مسئلہ مسئولہ واضح ہوگیا کہ دوسری منکوحہ کو بھی یہ ایک ہی طلاق ہوگی، اور بس۔

   فی الھندیۃ:’’ ان علق الطلاق  بالشرط ان کان الشرط مقدما فقال ان دخلت الدار فانت طالق وطالق وطالق وھی غیر مدخولۃ بانت بواحدۃ عند وجود الشرط فی قول ابی حنیفۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ولغا الباقی، وان کان الشرط مؤخرافقال انت طالق وطالق وطالق ان دخلت الدار، أوذکرہ بالفاء فدخلت الدار بانت بثلث اجماعا سواء کانت مدخولۃ اوغیر مدخولۃ، فان ذکرہ بغیر حرف العطف ان کان الشرط مقدما فقال ان دخلت الدار فانت طالق طالق طالق وھی غیر مدخولۃ فالاول معلق بالشرط والثانی یقع للحال والثالث لغو، وان اخرفالاول ینزل للحال ولغاالباقی کذافی السراج اھ۱؎ملخصا‘‘ہندیہ میں ہے: اگر کسی نے طلاق کو مشروط کیا اور شرط کو پہلے ذکر کیا، مثلاً: یوں کہا اگر تو گھر میں داخل ہوئی ،تو تجھے طلاق اور طلاق اور طلاق ،جبکہ عورت غیر مدخولہ ہو،تو شرط پائے جانے پر وہ پہلی طلاق سے بائنہ ہوجائے گی امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالی کے مسلک پر اور باقی دو لغو ہوجائیں گی،ا ور اگر شرط مؤخر ذکر کی ہو ،مثلا: یوں کہا تجھے طلاق اور طلاق اور طلاق اگر  تو گھر میں داخل ہوئی، یا فاء کے ساتھ عطف کیا، تو عورت جب گھر میں داخل ہوگئی، تو تین طلاقوں سے بائن ہوجائے گی،خواہ عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، یہ مسئلہ بالاجماع ہے، اور اگر طلاقوں کا ذکر عطف کے بغیر ہو،تو اگر شرط مقدم ہو،مثلاً: یوں کہے: اگر تو گھرمیں داخل ہوئی ،تو تجھے طلاق طلاق طلاق، جب بیوی غیر مدخولہ ہو،تو پہلی طلاق شرط سے معلق ہوگی، دوسری فی الحال واقع ہوجائے گی،جو بائنہ ہوگی اور تیسری لغوہو جائے گی، اور اگر شرط کو مؤخرذکرکیا، تو پہلی طلاق فوراً واقع ہوگی اور باقی دونوں لغو ہوں گی، سراج میں ایسے ہی مذکور ہے اھ ملخصاً۔

   وفی الدرالمختار:’’یقع بانت طالق واحدۃوواحدۃ ان دخلت الدار ثنتان لودخلت لتعلقھما بالشرط دفعۃ وتقع واحدۃ ان قدم الشرط لان المعلق کالمنجز اھ‘‘ درمختار میں ہے: اگر کسی نے یوں کہا: تجھے ایک طلاق اور ایک(عطف کے ساتھ) اگر تو گھرمیں داخل ہو، تو دونوں طلاقیں واقع ہوں گی ،کیونکہ دونوں ایک شرط سے مشروط ہیں، لہذا شرط پائے جانے پر دونوں دفعۃ واقع ہوجائیں گی۔ اور اگر شرط کو مقدم ذکر کیا ،تو ایک طلاق واقع ہوگی ،کیونکہ یہاں مشروط، غیر مشروط کی طرح ہے اھ۔فی ردالمحتار :’’قولہ لتعلقھما بالشرط دفعۃ لان الشرط مغیر للایقاع فاذا اتصل المغیر توقف صدر الکلام علیہ فیتعلق بہ کل من الطلقتین معا فیقعان عند وجود الشرط کذلک بخلاف مالوقدم الشرط فلایتوقف لعدم المغیر،مختصرا‘‘ردالمحتار میں اس پر فرمایا کہ ماتن کا قول کہ ''(پہلی صورت میں) دونوں معلق بشرط واحد ہیں'' کیونکہ شرط کے ذکرنے دونوں کو غیر مشروط سے مشروط بنادیا ،اس لیے کہ اس تبدیلی والی شرط کی وجہ سے پہلا کلام اس پر موقوف ہوگیا، لہذا دونوں طلاقوں کا معاً اس شرط سے تعلق ہوگیا ،لہذا شرط پائے جانے پر دونوں اس طرح معاً واقع ہوجائیں گی، اس کے برخلاف اگر شر ط کو مقدم ذکر کیا ہو،تو دونوں پر موقوف نہ ہوں گی ،بلکہ صرف پہلی معلق ہوگی اور دوسری غیر مشروط رہے گی، جو فی الحال فوراً واقع ہوجائیں گی، مختصراً۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج13،ص225تا228،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   طلاقِ رجعی کے بعد رجوع کا حق ہونے کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوۡفٍ اَوْ تَسْرِیۡحٌۢ بِاِحْسَانٍ ترجمۂ کنزالایمان:’’یہ طلاق دو بار تک ہے، پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نِکوئی(اچھے سلوک)کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘(القرآن،پارہ 2،سورۃ البقرۃ،آیت229)

   عالمگیری میں ہے:’’واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقۃ رجعیۃ او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا رضیت بذلک او لم ترض‘‘جب مرد اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دے دے ،تو اسے اختیار ہے کہ اس کی عدت میں رجوع کرلے،عورت اس پرر اضی ہو یا نہ ہو۔(عالمگیری ،ج1،ص470 ،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

رجوع کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فتاویٰ عالمگیری میں فرماتے ہیں:’’و ھی علی ضربین،سنی و بدعی۔(فالسنی)ان یراجعھا بالقول و یشھد علی رجعتھا شاھدین و یعلمھا بذلک،فاذا راجعھا بالقول نحو ان یقول لھا راجعتک او راجعت امراتی و لم یشھد علی ذلک او اشھد و لم یعلمھا بذلک فھو بدعی مخالف للسنۃ و الرجعۃ صحیحۃ،و ان راجعھا بالفعل مثل ان یطاھا او یقبلھا بشھوۃ او ینظر الی فرجھا بشھوۃ فانہ یصیر مراجعا عندنا الا انہ یکرہ لہ ذلک و یستحب ان یراجعھا بعد ذلک بالاشھاد،کذا فی الجوھرۃ النیرۃ‘‘رجعت کی دو قسمیں ہیں،سنت اور بدعت۔سنت یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجوع کرے اور اپنے رجوع کرنے پر دو شخصوں کو گواہ بنائے اور عورت کو بھی اس کی خبر کردے۔تو جب اس نے قول سے رجوع کیا،مثلاً :اس سے کہا:میں نے تم سے رجوع کیا یا میں نے اپنی عورت سے رجوع کیا،مگر اس پر گواہ نہ بنائے یا گواہ بنائے، مگر عورت کو اس کی خبر نہ دی،تو یہ بدعت و خلافِ سنت ہے ،مگر رجوع صحیح ہے،اور اگر فعل سے رجوع کیا ،مثلاً: اُس سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا اُس کی شرمگاہ کی طرف شہوت سے نظر کی، تو ہمارے نزدیک وہ رجوع کرنے والا ہو جائے گا، لیکن اس کے لیے ایسا کرنا، مکروہ ہے۔مستحب یہ ہے کہ اس کے بعد گواہ بنا کر دوبارہ رجوع کرے۔اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری ،ج1،ص468،مطبوعہ کوئٹہ)

   کسی شرط پر معلق طلاق شرط پائے جانے کے بعد واقع ہوجاتی ہے۔چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’اذا اضافہ الی شرط وقع عقیب الشرط مثل ان یقول لامراتہ ان دخلت الدار فانت طالق‘‘جب طلاق کو کسی شرط کی طرف مضاف کیا ،تو شرط پائے جانے کے بعد طلاق واقع ہو جائے گی، جیسے مرد اپنی عورت سے کہے کہ اگر تو گھر میں داخل ہوئی ،تو تجھے طلاق۔(ھدایہ مع نصب الرایہ،ج3،ص324،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   معلق طلاق واقع نہ ہو،اس کا حل بیان کرتے ہوئے  تنویر الابصار و درمختار میں فرماتے ہیں:’’(وتنحل)الیمین (بعد)وجود (الشرط مطلقاً)لکن ان وجد فی الملک طلقت و عتق والا لافحیلۃ من علق الثلاث بدخول الدار ان یطلقھا واحدۃ ثم بعد العدۃ تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا‘‘اور شرط پائے جانے کے بعد یمین مطلقاً ختم ہو جائے گی ،لیکن شرط اگر ملکیت میں پائی گئی ،تو طلاق اور آزادی واقع ہو جائے گی، وگرنہ نہیں، تو جس  شخص نے تین طلاق عورت کے گھر میں داخل ہونے پر معلق کر دیں ،اس کا حیلہ یہ ہے کہ وہ اسے ایک طلاق دے، پھر عدت کے بعد عورت گھر میں داخل ہو جائے ،تو یمین ختم ہو جائے گی، پھر وہ نکاح کر لے۔(تنویر الابصارودرمختار مع رد المحتار،ج4،ص600،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(مطلقا)ای:سواء وجد الشرط فی الملک اولا‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(مطلقاً) یعنی برابر ہے کہ شرط مِلک میں پائی جائے یا نہیں۔ ( رد المحتار مع الدر المختار،ج4،ص600،مطبوعہ کوئٹہ)

   تنبیہ:اوپر مذکور حل پر عمل  کر کےدوبارہ نکاح کر لینے کے بعد آپ کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا کیونکہ دو طلاقیں  پہلے واقع ہو چکیں،لہذا کبھی بھی آپ نے  تیسری طلاق دے دی ،تو بیوی  آپ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے اور بغیر حلالہ دوبارہ نکاح نہیں ہو سکے گا۔

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن دو مرتبہ طلاق رجعی دینے والے کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اگر پہلے طلاق نہ دی تھی، یہ دو دی ہیں، تو آئندہ جب کبھی ایک طلاق دے گا ،عورت بے حلالہ کے نکاح میں نہ آسکے گی۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ، ج12 ،ص367 ، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم