Jahez Ke Samaan Ka Hukum

جہیز کے سامان کا حکم

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میری عزیزہ کو طلاق ہوئی۔ اس کے پاس دو طرح کا سامان تھا۔ ایک وہ سامان (فرنیچر، کپڑے، زیورات وغیرہ) جو اس کے والدین نے دیا اور دوسرا وہ سامان (کپڑے، زیورات وغیرہ) جو شوہر اور اس کے والدین نے دیا۔ شرعی رہنمائی فرمائیں! اس صورت  میں کونسا سامان عورت کا ہے اور کونسا شوہر کاہے؟

سائل:غلام دستگیر (خانقاہ چوک،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     عورت کو جو سامان مَیکے کی  طرف سے بطورِ جہیز ملا وہ عورت  ہی کی  مِلْکِیَّت  ہے۔ اس میں کسی اور کا حق نہیں۔

     شوہر یا اس کے گھر والوں کی طرف سے جو سامان اور زیورات وغیرہ عورت کو دئیے جاتے ہیں اس کی تین صورتیں ہوتی  ہیں:

     (1)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً (واضح طور پر) عورت کو سامان اور زیورات دیتے وقت مالک بناتے ہوئے قبضہ دیا تھا۔ (2)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً  عورت کو سامان اور زیورات عاریتاً (یعنی عارضی استعمال کیلئے) دئیے تھے۔ (3)شوہر یا اس کے گھر والوں نے دیتے وقت کچھ بھی نہیں کہا۔پہلی صورت میں عورت سامان اور زیورات کے ہِبہ (Gift)  کیے جانے کی وجہ سے مالکہ ہے، اسی کو یہ سب دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں جس نے دیا وہی مالک ہے۔ وہ واپس لے سکتا ہے اور تیسری صورت میں شوہر کے خاندان کا رواج دیکھا جائے گا۔ اگر وہ عورت کو ان اشیاء کا مالک بناتے ہیں تو عورت کو دیا جائے گا ورنہ وہ حقدارنہیں اس سے واپس لیا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم