تین طلاقیں دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں

مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2332

تاریخ اجراء: 15 جمادی الاولی 1443ھ/20 دسمبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ تین طلاقیں جب بھی دی جائیں تین ہی ہوتی ہیں ،چاہے ایک مجلس میں ہوں یا الگ الگ مجلس میں۔مگر کچھ لوگوں نے یہ دو احادیث ہمیں بتائی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں ایک ہوتی ہے ،اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ان احادیث کا کیا جواب ہے؟

   پہلی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ کو تین طلاقیں دی تھیں تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان تین طلاقوں کو ایک شمارکیا اوران کی زوجہ کو لوٹا دیا تھا،اور زوجہ دوبارہ ان کے پاس چلی گئی  تھیں۔

    دوسری حدیث مسلم شریف کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت کے پہلے دو سال تک تین طلاقیں ایک ہوتی تھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن وحدیث ،ائمہ اربعہ امام اعظم ابوحنیفہ،امام مالک ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعیناور اجماع اہلسنت سے یہ ثابت ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں چاہے ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ دی جائیں،اس کے دلائل پردارالافتاء اہلسنت کاالگ سے تفصیلی فتوی موجود ہے۔یہاں ہم صرف سوال میں مذکور دونوں  احادیث کے جواب لکھیں گے۔

پہلی حدیث کے جوابات:

   حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طلاق دینے والی جو احادیث ہیں ،ان میں اصح احادیث وہ ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی ،تین طلاقیں نہیں دی تھیں،طلاق بتّہ میں ایک طلاق کا بھی احتمال ہے اورتین طلاقوں کا بھی احتمال ہے ،احادیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایک طلاق دی ہے یا تین،تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے ایک طلاق ہی کی نیت کی تھی،اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طلاق شمارفرمائی تھی،مگربعض راویوں نے تین طلاق والے احتمال کو لے کرمعنوی طورپریہ روایت کردی کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں ،حالانکہ معاملہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا،نیز حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعے میں جو تین طلاق کی روایت ہے ،اس کےراوی مجہول ہیں،اس روایت سے استدلال ہو ہی نہیں سکتا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:”عن عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ: انہ طلق امرأتہ البتّۃ ،فأتی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ،فقال: ما أردت ؟ قال: واحدۃ، قال آللہ ؟ قال: آللہ ،قال:ھو علی ما أردت“ ترجمہ:عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دی تھی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری کتنی طلاق دینے کی نیت تھی؟ عرض کی : ایک طلاق کی نیت تھی ،فرمایا :کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں اللہ کی قسم ہے۔فرمایا :پھراتنی ہی طلاقیں ہیں جتنی کی تمہاری نیت تھی۔ (سنن ابی داؤد، جلد1،صفحہ318،مطبوعہ لاھور)

   جس حدیث میں طلاق بتّہ کے الفاظ ہیں، وہ حدیث اصح ہے ،اس حدیث سے جس میں تین طلاق کے الفاظ ہیں۔چنانچہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”قال ابوداؤد:وھذا اصح من حدیث ابن جریج :ان رکانة طلق امراتہ ثلاثا،لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ“ یعنی امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث اصح ہے اس حدیث سے جو ابن جریج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اور جس میں یہ ذکرہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں۔اصح کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہی روایت ہے اور اہل وعیال اپنے گھرکے واقعے کو زیادہ بہترطریقے سے جانتے ہیں۔(سنن ابی داؤد ،جلد1،صفحہ318،مطبوعہ لاھور)

   معالم السنن شرح سنن ابی داؤد میں علامہ محدث ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں جس میں حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تین طلاق دینے کا ذکرہے۔”قال الشیخ :فی اسناد ھذا الحدیث مقال لان ابن جریج انما رواہ عن بعض بنی ابی رافع والمجھول لایقوم بہ الحجۃ،وقد روی ابوداؤد ھذا الحدیث باسناد اجود منہ ان رکانۃ طلق امراتہ البتۃ۔۔۔۔۔۔قال الشیخ :قد یحتمل ان یکون حدیث ابن جریج انما رواہ الراوی علی المعنی دون اللفظ ،وذلک ان الناس قد اختلفوا فی البتۃ ،فقال بعضھم ھی ثلاثۃ ،وقال بعضھم ھی واحدۃ ،وکأن الراوی لہ ممن یذھب مذھب الثلاث ،فحکی انہ قال:انی طلقتھا ثلاثا،یرید البتۃ التی حکمھا عندہ حکم الثلاث ،واللہ اعلم“ ترجمہ:شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا :اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے ،کیونکہ ابن جریج رحمہ اللہ نے اسے بنی ابی رافع کے بعض لوگوں سے روایت کیا ،(اور وہ بعض لوگ مجہول ہیں) اور مجہول سے دلیل نہیں لائی جاسکتی۔ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو بہترین اسناد کے ساتھ ان الفاظ سے ذکرکیا ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ کو طلاق بتہ دی تھی۔۔۔۔۔۔شیخ رحمہ اللہ نے فرمایااس بات کا احتمال ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ سے جو حدیث روایت ہے وہ الفاظ میں روایت نہ ہو بلکہ معنی کے اعتبارسے روایت کی گئی ہو،کیونکہ طلاق بتّہ میں لوگوں کا اختلاف ہے ،بعض کے نزدیک یہ تین طلاقیں ہیں اوربعض کے نزدیک یہ ایک طلاق ہے،جس راوی نے اس کو تین طلاق کے الفاظ سے روایت کیااس کا موقف گویا کہ وہی تھا کہ جو طلاق بتّہ کو تین طلاقیں شمارکرتے تھے،تو اس نے الفاظ تین طلاق کے روایت کیے ،مگراس کی مراد وہی طلاق بتّہ تھی جس کا حکم اس کے نزدیک تین طلاقوں والا تھا۔(معالم السنن شرح سنن ابی داؤد ،جلد2،صفحہ448،مطبوعہ بیروت)

   امام محی الدین ابوزکریایحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”أما الروایۃ التی رواھا المخالفون ان رکانۃ طلق ثلاثا فجعلھا واحدۃ ،فروایۃ ضعیفۃ  عن قوم مجھولین ،وانما الصحیح منھا ما قدمناہ انہ طلقھا البتۃ ،ولفظ البتۃ محتمل للواحدۃ وللثلاث ،ولعل صاحب ھذہ الروایۃ الضعیفۃ اعتقد ان لفظ البتۃ یقتضی الثلاث فرواہ بالمعنی الذی فھمہ وغلط فی ذلک“ ترجمہ:وہ روایت جو مخالفین نے ذکرکی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے ایک شمارکیا ،یہ ضعیف روایت ہے ،مجہول لوگوں سے روایت ہے۔اس میں صحیح روایت وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کی کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی اور بتّہ کا لفظ ایک طلاق کا احتمال بھی رکھتا ہے اور تین کا بھی احتمال رکھتا ہے،جس راوی نے تین طلاق کا لفظ ذکرکیا اس کے گمان کے مطابق لفظ بتّہ تین کا تقاضا کرتا تھا ،اس لیے اس نے معنوی طورپرتین طلاق کا ذکرکردیا جو کہ غلط ہے۔ (شرح صحیح مسلم، جلد10،صفحہ64،مطبوعہ قاھرہ)

   وقارالفتاوی میں ہے:”صحیح یہی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں ،بلکہ طلاق بتہ دی تھی ،راوی نے اپنی روایت میں بتہ کے معنی تین سمجھ کرثلاث کا لفظ بڑھا دیا ،کیونکہ بتہ کا لفظ ایک اورتین دونوں کا تھا،لیکن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت رکانہ سے پوچھا، تو انہوں نے عرض کیا کہ میری نیت ایک کی ہے ،جیساکہ اوپرصحیح روایت میں نقل کیا گیا۔“ (وقارالفتاوی، جلد3،صفحہ170،مطبوعہ کراچی)

دوسری حدیث کے جوابات:

   محدثین وفقہاء نے اس حدیث پاک کے بارے میں فرمایا کہ اول زمانہ میں جب طلاق دی جاتی تھی، توالفاظ اگرچہ تین مرتبہ طلاق کے بولے جاتے تھے ،مگر پہلی مرتبہ طلاق کے الفاظ طلاق کے لیے  ہوتے تھے اور دوسری اورتیسری مرتبہ کے الفاظ طلاق کے لیے نہیں، بلکہ تاکید کے طورپربولے جاتے تھے،اس لیے ایک طلاق شمارہوتی تھی ،کیونکہ طلاق دی ہی ایک جاتی تھی،پھربعد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ  لوگوں نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ تین طلاقوں کے لیے  ہی بولنا شروع کردیا، تو انہوں نے تین طلاقیں ہی شمارکیں ۔نیز ”تین طلاقیں ایک شمارکی جاتی تھیں“ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا کہ اب جو نتیجہ لوگ تین طلاقوں سے حاصل کرتے ہیں(کہ نکاح ختم ہوجائے) ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں وہی نتیجہ ایک طلاق سے حاصل کیا جاتا تھا۔

   شیخ الاسلام ،امام ،محدث محی الدین ابوزکریا یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اما حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ ،فالاصح ان معناہ ،انہ کان فی اول الامر اذا قال لھا انت طالق انت طالق انت طالق لم ینو تاکیداولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ ارادتھم الاستئناف بذلک ،فحمل علی الغالب الذی ھو ارادۃ التاکید،فلما کان فی زمن عمررضی اللہ تعالٰی عنہ وکثر استعمال الناس بھذہ الصیغۃ وغلب منھم ارادۃ الاستئناف بھا حملت عند الاطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق الی الفھم منھا فی ذلک العصر“ ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے بارے میں علماء نے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ،صحیح یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اول زمانہ میں جب شوہر،زوجہ سے کہتا کہ تجھے طلاق، تجھے طلاق ،تجھے طلاق،جس میں وہ تاکید یا نئی طلاق کے واقع ہونے کی نیت نہ بھی کرتا، تب بھی ایک طلاق واقع ہوتی ،کیونکہ دوسرے اورتیسرے الفاظ سے نئی طلاق دینے کی نیت کم ہی ہوتی تھی،غالب طورپرتاکید کا ارادہ ہوتا تھا ۔جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے کثرت سے طلاق کے صیغے بولنا شروع کردئیے اور ان سے غالب طورپرنئی طلاق ہی کا ارادہ ہوتا تھا،تو پھران تین صیغوں کو تین طلاقیں ہی شمارکیا جانے لگا،کیونکہ اس زمانے میں غالب طورپریہی سمجھا جاتا تھا کہ تین صیغوں سے تین الگ الگ طلاقیں دی گئی ہیں۔(شرح صحیح مسلم، جلد10،صفحہ64،مطبوعہ قاھرہ)

   فتح القدیرجلد3،صفحہ 453،مطبوعہ کوئٹہ اورتبیین الحقائق میں ہے:”واللفظ للتبیین :والجواب عن الحدیث الاول من وجھین:احدھما انہ انکار علی من یخرج عن سنۃ الطلاق بایقاع الثلاث واخبار عن تساھل الناس فی مخالفۃ السنۃ فی الزمان المتاخر عن العصرین کانہ قال :الطلاق الموقع الآن ثلاثا کان فی ذینک العصرین واحدۃ کما یقال کان الشجاع الآن جبانا فی عصر الصحابۃ اجمعین۔والثانی ان قول الزوج انت طالق انت طالق انت طلاق ،کانت طلقۃ واحدۃ فی العصرین لقصدھم التاکید والاخبار ،وصار الناس بعدھم یقصدون بہ التجدید والانشاء فالزمھم عمر ذلک لعلمہ بقصدھم“ترجمہ:پہلی حدیث(یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث) کا جواب دو طریقے سے دیا گیا ہے،ایک جواب یہ ہے کہ یہاں اس شخص کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو طلاق کے سنت طریقے کو چھوڑکرتینوں طلاقیں ایک ساتھ واقع کرتا ہے،اورخبردی گئی ہے کہ پہلے دو زمانوں کے بعد لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہوئے تساہل میں مبتلا ہوگئے تھے تو ان کے لیے  کہا گیا کہ آج جو تین طلاقیں دی جاتی ہیں ، پہلے دو زمانوں میں یہ ایک طلاق دی جاتی تھی۔جیسے کہاجاتا ہے کہ جو شخص آج بہادرسمجھا جاتا ہے وہ صحابہ کے زمانہ میں بزدل سمجھا جاتا تھا۔دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے دو زمانے میں جب شوہرتین مرتبہ تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے،کہتا تھا تو وہ ایک طلاق ہی دیتا تھا کیونکہ باقی دومرتبہ طلاق کے الفاظ سے وہ تاکید اورخبرکا ارادہ کرتا تھا،بعد میں لوگ تینوں الفاظ سے الگ الگ طلاق دینے کا قصد کرنے لگے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ارادے کو جانتے ہوئے تین لازم کردیں۔(تبیین الحقائق ،جلد3،صفحہ26،مطبوعہ کراچی)

   یاد رہے کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور زمانہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کے درمیان عرف وعادت کا اختلاف صرف اسی طلاق کے مسئلے میں نہیں تھا، بلکہ احادیث سے دیگرمسائل میں بھی ان زمانوں میں عرف وعادت کا اختلاف ثابت ہے،جیساکہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتیں مسجد میں آکرنماز پڑھتی تھیں، بلکہ احادیث میں فرمایا گیا کہ انہیں مسجد میں آنے سے منع نہ کرو،مگرجب عادتیں بدل گئیں ،لوگوں میں فساد کی ابتدا ہوئی ،تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے ان کی تائید فرمائی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی اگراس زمانے میں ہوتے ،تو وہ بھی منع فرما دیتے۔

   صحیح بخاری شریف میں ہے:”عن عمرۃ عن  عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ،قالت: لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قلت لعمرۃ :أو منعن ؟ قالت:نعم“ترجمہ: حضرت عمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا:اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس زمانے کو پاتے جس میں عورتوں نے فساد پیدا کرلیے ہیں، تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا،راوی کہتے ہیں میں نے حضرت عمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا :ہاں۔ (الصحیح لبخاری، جلد1،صفحہ190،مطبوعہ لاھور)

   اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ  عبدالرحمن بن احمد بن رجب بغدادی حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:”تشیر عائشۃ رضی اللہ عنھا الی ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یرخص فی بعض ما یرخص فیہ حیث لم یکن فی زمنہ فساد ،ثم یطرء الفساد ویحدث بعدہ ،فلو أدرک ما حدث بعدہ لما استمر علی الرخصۃ ،بل نھی عنہ ،فانہ انما یأمر بالصلاح وینھی عن الفساد“ ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اس طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بعض چیزوں میں اس لیے رخصت عطا فرماتے تھے کہ ان کے زمانے میں فساد نہیں تھا ،پھرفساد طاری ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے بعد پیدا ہوا، تو اگرآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی اس فساد کے زمانے کو پاتے، تو رخصت برقرار نہ رکھتے، بلکہ اس سے منع فرما دیتے کیونکہ آپ اصلاح  والا حکم ارشاد فرماتے اور فساد سے منع فرماتےتھے۔(فتح الباری لابن رجب حنبلی ،جلد5،صفحہ308،مطبوعہ ریاض )

   محیط برہانی میں ہے:”عن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ :انہ نھی النساء عن الخروج الی المساجد ،فشکون الی عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنھا ،فقالت عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنھا : لو علم النبی علیہ السلام ما علم عمر ما أذن لکم فی الخروج“ ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا، تو عورتوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے شکایت کی ،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا : جو عمرجانتے ہیں اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دیکھتے، تو تمہیں مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ (محیط برھانی، جلد2،صفحہ102،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم