شوہر نہ طلاق دے ، نہ ساتھ رکھے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1677

تاریخ اجراء:08 محرم الحرام1441ھ/08 ستمبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے  کے بارےمیں کہ ایک شخص اپنی بیوی کو ساتھ رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے  اور اسے طلاق بھی نہیں دے رہا ،بس یونہی لٹکا کر رکھا ہوا ہے اور بیوی تقریبا دو سال سے اپنی والدہ کے گھر ہے،تو ایسے شخص کے بارے میں حکم شریعت کیا  ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایااورعورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا اور جس طرح عورتوں پر مردوں کے لیے حقوق مقرر کیے ،اسی طرح مردوں پر بھی  عورتوں کے لیے حقوق مقرر کیے اور  جب کوئی  شخص کسی عورت سے شادی کر تا ہے ،تو شریعت کی طرف سے  اس پر بیوی کے لیے  نان نفقہ اور  رہائش وغیرہ دیگر حقوق لازم ہوجاتے ہیں۔

 قرآن پاک میں ہے :﴿وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ ترجمۂ  کنزالایمان:’’اور عورتوں کے لیے  بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے، جیسا عورتوں پر ہے۔‘‘

(پارہ 2 ، سورۃالبقرۃ  ، آیت228)

     نیز بیو ی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے متعلق قرآن پاک میں ہے :﴿وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکْرَہُوۡا شَیْـًٔا وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا﴾ ترجمۂ  کنزالایمان:’’اور ان سے اچھا برتاؤ کرو، پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں ،تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔‘‘

         (پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت19) 

    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعلق مردوں کو ارشاد فرمایا:’’اتقوا اللہ فی النساء‘‘عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔

(مشکاۃ المصابیح ،کتاب  النکاح ،جلد6 ،صفحہ399،مطبوعہ ملتان)

    لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ جیسے مرد کو عورت کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے ،اسی طرح عورت پر بھی فرض و لازم ہے کہ وہ شوہر کے لازمی حقوق ادا کرے ،بلکہ عورت پر شوہر کے حقوق زیادہ ہیں۔

    حدیث  پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ثلثۃ لاتجاوزصلوتھم اذانھم العبدالآبق حتی یرجع وامرأۃ باتت وزوجھاعلیھاساخط وامام قوم وھم لہ کارھون‘‘ترجمہ :تین شخصوں کی نمازاُن کے کانوں سے اُوپرنہیں اُٹھتی:آقاسے بھاگاہواغلام، جب تک پلٹ کرنہ آئےاوروہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کاشوہراس سے ناراض ہواوروہ شخص جوکسی قوم کی امامت کرے اوروہ قوم(اس کے عیب کے باعث) اس کی امامت پر راضی نہ ہو ۔‘‘

 (جامع ترمذی، باب ماجاء من ام قوما۔۔،جلد1،صفحہ191،مطبوعہ لاھور)

     جوعورت شوہرکی فرمانبرداری کرتی ہے، اس کے لیے جنت کی بشارت ہے ۔حدیث پاک میں ہے :’’قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایماامرأۃ ماتت وزوجھاعنھاراض دخلت الجنۃ‘‘ ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :جو عورت اس حال میں مری کہ شوہر اس سے راضی تھا، وہ جنت میں داخل ہو گی۔

(جامع ترمذی ،کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ،جلد1،صفحہ349،مطبوعہ لاھور )

    لیکن اس تمام تر تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اگر میاں بیوی میں دوری اور اختلاف پیدا ہوجائے،تو دونوں طرف سے سمجھدار لوگوں کو چاہیے کہ معاملے کو حل کریں،لیکن اگر کسی طور پر بھی معاملہ سیدھا نہ ہو، تو بہرحال شوہر کےلیے یہ اجازت نہیں کہ وہ  بیوی کو لٹکا کر رکھے، نہ اپنے پاس بلائے اور نہ ہی نکاح سے فارغ کرے ۔

    یاد رکھیں کہ شریعت مطہرہ نے بالکل واضح فرمایا ہے کہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزاریں تو احسن طریقے سے گزاریں اور اگر کسی طرح ساتھ رہنے پر اتفاق نہ ہوسکےاور دونوں اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں،تو پھر شریعت مطہر ہ کا حکم یہ  ہے کہ طلاق کے ذریعے جدائی اختیار کرلیں، لیکن بیوی کو نہ توصحیح طریقے سے ساتھ رکھنا اور نہ ہی اسے طلاق دینا، بلکہ لٹکائے رکھنا یہ ہرگز جائز نہیں  ۔

 قرآن پاک کا حکم  ہے ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ﴾ترجمۂ  کنزالایمان:’’یہ طلاق دو بار تک ہے، پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی  کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

(پارہ 2 ، سورۃالبقرۃ  ، آیت229)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’جب نکاح باقی ہے، تو اس صورت  میں زید پرفرض ہے کہ یا تو اسے طلاق دے دے یا اس کے نان نفقہ کی خبر گیری کرے، ورنہ یو ں معلق رکھنے  میں زید بے شک گنہگار ہےاور صریح حکمِ قرآن کاخلاف کر نے والا۔قرآن پاک میں ہے﴿فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’ تو یہ تو نہ ہو کہ ایک طرف پورا جھک جاؤکہ دوسری کو اَدھرمیں لٹکتی چھوڑ دو۔‘‘                                                                                                 

(فتاوی رضویہ ،جلد13،صفحہ435، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    فتاویٰ رضویہ میں مزید ایک اور مقام پر اس سے متعلق ہے:’’بالجملہ عورت کو نان ونفقہ دینا  بھی واجب اور رہنے کو مکان دینا بھی واجب اور گاہ گاہ اس سےجماع کرنا بھی واجب ،جس میں اسے پریشان نظری نہ پیدا ہواور اسے معلقہ کردینا  حرام اور بے اس کے اذن و رضا کے چار مہینے تک ترکِ جماع بلاعذرصحیح شرعی ناجائز۔‘‘

                 (فتاوی رضویہ ،جلد13،صفحہ446 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور) 

    طلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ بیوی جب ماہواری سے پاک ہواوران ایام میں شوہرنے بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو،توان ایام میں صرف ایک طلاق رجعی دے( مثلاً ایک دفعہ یہ کہے کہ میں نے اپنی بیوی کوطلاق دی)اورچھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزرجائے۔ ایک طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس طلاق کاحکم یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے عدت کے اندررجوع کرناچاہے، توبغیرنکاح کے رجوع کرسکتاہے،اگرشوہررجوع نہیں کرتااورعورت کی عدت گزرجاتی ہے،توعدت گزرتے ہی عورت نکاح سے نکل جائے گی اوروہ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ اگردوبارہ اسی شوہرسے شادی کرناچاہے ،تونکاح کے ذریعے رجوع ہوسکتاہے ،حلالے کی ضرورت نہیں۔خیال رہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اورشوہرگنہگاربھی ہوتاہے اور پھر بلا حلالہ شرعیہ کے رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی،لہذاطلاق صرف ایک دی جائے جیساکہ مذکورہوا ۔

کتاب الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:’’احسنہ ان یطلقھاواحدۃ فی طھرلاجماع فیہ ویترکھاحتی تنقضی عدتھالماروی عن ابراھیم النخعی ان أصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کانوایستحبون ان لایطلقوا للسنۃ الاواحدۃ ثم لایطلقواغیرھاحتی تنقضی عدتھا‘‘یعنی طلاق ِاحسن یہ ہےکہ شوہرنے جس طہر میں وطی نہ کی ہو،اُس میں ایک طلاق رجعی دے اور چھوڑے رہے یہاں تک کہ عدت گزرجائے (اس کی علت یہ ہے)حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا:صحابہ کرام علیہم الرضوان(طلاق دینے میں)اس کومستحب جانتے تھے کہ بیوی کوایک ہی طلاق دی جائے ، پھرچھوڑدیاجائے یہاں تک کہ عدت گزرجائے۔

(کتاب الاختیارلتعلیل المختار،جلد2،حصہ2،صفحہ151،مطبوعہ کراچی)

    موجودہ جواب سوال میں بیان کردہ صورت  کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے۔ 

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم