Zip Wale Moze Par Masah Ka Hukum--Galti Ki Durustgi

زپ والے موزوں پر مسح کا حکم ۔۔غلطی کی درستگی

مجیب: ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: 916Mul-

تاریخ اجراء: 03رجب المرجب1445ھ/15جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ آج کل چمڑے کے جو موزے آتے ہیں،اکثر میں موزہ پہننے،اتارنے کے لیے سائیڈ پر زِپ لگی ہوتی ہے ،اگر  اس زِپ والے حصےپر پانی پڑجائے،توفوراً موزے میں داخل ہوجاتا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسے موزے پر مسح کرنا، جائز ہے یا نہیں؟اور یہ رائج بھی کافی ہے، اکثر لوگوں نے ایسا ہی موزہ پہنا ہوتا ہے۔

   نوٹ:موزہ پر جو زِپ ہوتی ہے،اس کا اکثر حصہ اگرچہ پنڈلی پر ہوتا ہے،مگر تقریباً دو انگل  کے برابر حصہ قدم کے جس حصہ کا دھونا فرض ہے ،اس پر بھی ہوتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چمڑے کے زِپ والے  موزہ پر مسح جائز و درست ہے اور اس میں زِپ کا موجود ہونا کوئی خرابی پیدا نہیں کرتا۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

   موزے کی شرائط میں سے اگرچہ  ایک شرط یہ  بیان ہوئی ہے کہ وہ پانی کو قدم تک  فوراً پہنچنے سے روکے،مگر ساتھ ہی شریعت کی جانب سے یہ رخصت بھی دی گئی ہے کہ موزہ میں پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کی بقدر پھٹن ہو، تو معاف ہے اور یہ معافی مطلقاً دی گئی ہے یعنی اس میں یہ قید نہیں لگائی کہ پھٹن والی جگہ سے بھی پانی نہ جائے ،حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ ایسی پھٹن والے موزہ پر پانی ڈالا جائے یا اسے پانی میں داخل کیا جائے، تو پانی پاؤں تک پہنچ جائے گا۔اس سے واضح ہے کہ اس  شرط کا  مفہوم یہ ہے کہ جو جگہ پھٹی  ہوئی نہ ہو،اس جگہ سے موزہ اتنا دبیز و موٹا ہو کہ پانی کے نفوذ کو روکے ۔

   یہ تفصیل بھی تب ہوگی جب زِپ والی جگہ کو پھٹن شمار کیا جائے ،حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے، کیونکہ زِپ بند کر دینے کے بعد اس میں نہایت معمولی جگہ کھلی ہوتی  ہے اور وہ اتنی نہیں ہوتی کہ اس میں ستالی (موچیوں کا چمڑا چھیدنے کا آلہ)داخل ہو سکے،لہٰذا وہ خرز یعنی سلائی کے حکم میں ہے اور جس طرح سلائی  کی وجہ سے  موزہ میں پیدا ہونے والے معمولی سوراخ معاف ہیں اور اس کی وجہ سے موزہ کو پھٹا ہوا شمار نہیں کیا جاتا،یہاں بھی یہی حکم ہوگا۔

   موزہ میں کتنی پھٹن معاف ہے اور کتنی پھٹن قابلِ شمار ہے،اس کا اصول یہ ہے کہ ایسی پھٹن یا سوراخ جس میں ستالی داخل ہو سکے وہ قابل معافی نہیں ہے، بلکہ اسے شمار کیا جائے گا اور ایک موزہ میں اس کا مجموعہ اگر پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کی بقدر ہو ، تو ایسے موزہ پر مسح درست نہیں  ہوگا  اور اگر اس سے کم پھٹن  ہو ، تو وہ سلائی کے حکم میں ہے اور سلائی کی طرح  مطلقا ًمعاف ہے ۔اس کے مطابق زِپ والے موزہ کا جائزہ لیں، تو زِپ بند کر دینے کے بعد زِپ کے بیچ کھلے رہ جانے والے  حصہ میں ستالی تو کیا سوئی بھی داخل نہیں ہو سکتی ،لہٰذازِپ والا موزہ غیر پھٹا شمار ہوگا اور اس پر مسح جائز و درست ہے۔

   اس کی ایک نظیر جاروق یعنی ایسا موزہ ہے جس کے اوپر والاحصہ کھلاہوا ہو،مگر اسے بٹن لگا کر بند کیا گیا ہو،تو بند کر دینے کی وجہ سے فقہائےکرام اسے غیر مشقوق یعنی غیر پھٹا شمار کرتے ہوئے مسح کو درست قرار دیتے ہیں،جس سے واضح ہے کہ موزہ میں پھٹن موجود ہونے کے باوجود جب اسے بند کر دیا جائے،  تو وہ غیر پھٹا شمار ہوگا۔

   اس کی دوسری نظیر  انگریزی بوٹ ہے کہ وہ بھی  قدم کی اُبھری ہوئی جگہ سے کھلا ہوتا ہے،مگر تسمہ وغیرہ سے بند کردینے کے بعد فقہائےکرام نےاس پر  مسح کو درست قرار دیا ہے اور بند ہوجانے کی وجہ سے پھٹن کو کالعدم شمار کیا ہے،لہٰذا زِپ والے موزہ کے متعلق بھی یہی تفصیل ہوگی کہ  چونکہ زِپ بند کر دینے کے بعد اس میں کھلا ہوا حصہ بہت معمولی ہوتا ہے،لہٰذا اسے بھی جاروق اور بوٹ کی طرح غیر مشقوق شمار کیا جائے گا اور مسح جائز و درست ہوگا۔

   مسح کی شرائط بیان کرتے ہوئے مراقی الفلاح میں ہے:’’والشرط السادس منعھما وصول الماء إلى الجسد فلا يشفان الماء‘‘اورچھٹی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں موزے پاؤں تک پانی پہنچنے سے مانع (رکاوٹ) ہوں ،لہٰذا پانی کو روکیں۔(مراقی الفلاح،ص128،مطبوعہ دارالخیر الاسلامیہ، بیروت)

   سید ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:’’ سُوتی  یا اُونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج ان پر مسح کسی کے نزدیک  درست نہیں کہ نہ وہ مجلد  ہیں یعنی ٹخنوں تک چمڑا منڈھے ہوئے، نہ منعل یعنی تلا چمڑے کا لگا ہوا، نہ ثخین یعنی ایسے دبیز ومحکم کہ تنہا اُنہیں کو پہن کر قطع مسافت کریں تو شق نہ ہوجائیں اور ساق پر اپنے دبیز ہونے کے سبب بے بندش کے رُکے رہیں ڈھلک نہ آئیں اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں فوراً پاؤں کی طرف چھن نہ جائے، جو پائتابے ان تینوں وصف مجلد، منعل، ثخین سے خالی ہوں اُن پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے۔ ہاں اگر اُن پر چمڑا منڈھ لیں  یا چمڑے کا تلا لگالیں، تو بالاتفاق  یا شاید کہیں اُس طرح کے دبیز بنائے جائیں، تو صاحبین کے نزدیک  مسح جائز ہوگا اور اسی پر فتویٰ ہے۔فی المنیۃ والغنیۃ (المسح علی الجوارب لایجوز عند ابی حنیفۃ الا ان یکونا مجلدین) ای استوعب الجلد مایستقر القدم الی الکعب (اومنعلین) ای جعل الجلد علی ما یلی الارض منھما خاصۃ کالنعل للرجل (وقالایجوز اذاکانا ثخینین لایشفان) فان الجورب اذاکان بحیث لایجاوز الماء منہ الی القدم فھو بمنزلۃ الادیم والصرم فی عدم جذب الماء الی نفسہ الابعد لبث اودلک بخلاف الرقیق فانہ یجذب الماء وینفذہ الی الرجل فی الحال(وعلیہ ) ای علی قول ابی یوسف ومحمد (الفتوی)‘‘منیہ اور غنیہ میں ہے (امام اعظم ابوحنیفہ رَحِمَہُ اللہُ کے نزدیک  جرابوں پر مسح جائز نہیں ،مگر یہ کہ چمڑے کی ہوں) یعنی اس تمام جگہ کو گھیر لیں جو قدم کو ٹخنوں تک ڈھانپتی ہے ( یا منعل ہوں) یعنی جرابوں کا جو حصّہ زمین سے ملتا ہے صرف وہ چمڑے کا ہو، جیسے پاؤں کی جُوتی ہوتی ہے (اور صاحبین نے فرمایا: اگر (جرابیں) ایسی دبیز ہوں باریک نہ ہوں تو مسح جائز ہے، کیونکہ اگر جراب اس طرح کی ہو کہ پانی قدم تک تجاوز نہ کرے ،تو وہ جذب کرنے کے حق میں چمڑے اور چمڑا چڑھائے ہوئے موزے کی طرح ہے، مگر کچھ د یر ٹھہرنے  یا رگڑنے سے پانی جذب کرے ،تو کوئی حرج نہیں بخلاف پتلی جراب کے، کہ وہ پانی کو جذب کرکے فوراً پاؤں تک پہنچاتی ہے۔اسی پر یعنی امام ابویوسف ومحمد علیہما الرحمہ کے قول پر فتویٰ ہے۔‘‘ملخصا (فتاوی رضویہ،ج04، ص346 ،345، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   کثیر پھٹن کی مقدار بیان کرتے ہوئے ہدایہ میں فرماتے ہیں:’’ولا یجوز المسح علی خف فیہ خرق کثیر یتبین منہ قدر ثلاث اصابع من اصابع الرجل وان کان اقل من ذلک جاز‘‘اور ایسے موزے پر مسح جائز نہیں جس میں کثیر پھٹن ہو کہ اس میں سے پاؤں کی تین انگلیوں کی مقدار ظاہر ہواور اگر اس سے کم ہو،تو جائز ہے۔ (ھدایہ مع البنایہ،ج01،ص486،مطبوعہ ملتان)

   تنویرالابصارودرمختار میں موزہ کی شرائط کے بیان میں ہے:’’(كونه ساتر) محل فرض الغسل (القدم مع الكعب) أو يكون نقصانه أقل من الخرق المانع، فيجوز على الزربول لو مشدودا إلا أن يظهر قدر ثلاثة أصابع‘‘جتنی جگہ کا دھونا فرض ہے یعنی ٹخنوں سمیت پاؤں اس کو چھپانے والا ہو یا  بقدر مانع پھٹن سے کم ہو،لہذا زربول پر مسح جائز ہے، جبکہ بندھے ہوں،ہاں اگر تین انگلیوں کی مقدار ظاہر ہو،تو مسح جائز نہیں ہے۔(تنویر الابصار ودرمختار  مع ردالمحتار،ج01،ص488،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتار میں ہے:’’قوله :(فيجوز على الزربول)وهذا تفريع على ما فهم مما قبله من أن النقصان عن القدر المانع لا يضره ط ۔ملخصا‘‘شارح علیہ الرحمۃ  کا قول:(زربول پر مسح جائز ہے)یہ اس پر تفریع ہے جو اس سے پہلے سمجھا گیا کہ بقدر مانع سے کم پھٹا ہوا ہونا نقصان دہ نہیں ہے۔طحطاوی۔(ردالمحتار مع الدر المختار،ج01، ص488، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں،اس سے زیادہ ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر دو ایک انگل کم ہو جب بھی مسح درست ہے،ایڑی نہ کھلی ہو۔‘‘(بھار شریعت،ج1،ص364،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   موزہ میں کتنی پھٹن قابل شمار ہے،اس کو بیان کرتے ہوئے مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:’’ وأقل خرق يجمع هو ما يدخل فيه مسلة ولا يعتبر ما دونه‘‘اور کم پھٹن جس کو جمع کیا جائے گا ،اس کی مقدار یہ ہے کہ اس میں سوتالی داخل ہو سکے،اس سے کم کا اعتبار نہیں ہے۔(مراقی الفلاح،ص128،مطبوعہ دارالخیر الاسلامیہ، بیروت)

   تنویر الابصار و درمختار میں ہے:’’(و اقل خرق یجمع لیمنع ما تدخل المسلۃ لا مادونہ )الحاقا لہ بمواضع الخرز‘‘اور کم پھٹن  جس کو مسح سے مانع ہونے کے لیے جمع کیا جاتا ہے،اس کی مقدار یہ ہے کہ اس میں سوتالی داخل ہوسکےنہ کہ اس سے کم،سلی ہوئی جگہوں کے ساتھ اسے لاحق کرتے ہوئے ۔(تنویر الابصارودرمختار  مع ردالمحتار،ج01،ص507 ، 508،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(المسلۃ)بکسر المیم :الابرۃ العظیمۃ،صحاح‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(المسلۃ)میم کے کسرہ کے ساتھ:اس سے مراد بڑی سوئی ہے۔(رد المحتار مع الدرالمختار،ج1،ص508،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں  قابل شمار پھٹن کی مقدار یوں بیان کی: ’’ایک موزہ چند جگہ کم سے کم اتنا پھٹ گیا ہو کہ اس میں سوتالی جا سکے اور ان سب کا مجموعہ تین انگل سے کم ہو، تو مسح جائز ہے،ورنہ نہیں۔‘‘(بھار شریعت،ج1،ص366،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   رد المحتار میں جاروق موزہ کے متعلق فرمایا:’’و فی البحر عن المعراج:ویجوز علی الجاروق المشقوق علی ظھر القدم ولہ ازرار یشدہ علیہ لانہ کغیر المشقوق وان ظھر من ظھر القدم شئی فھو کخروق الخف‘‘اور بحر میں معراج سے ہے کہ ایسے موزے پر مسح جائز ہے، جو قدم کے اوپر سے کھلا ہو اور اسےبند کرنے کے لیے  بٹن لگائے گئے ہوں، کیونکہ وہ غیر پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہوگیا اور اگر قدم کی پیٹھ سے کچھ حصہ ننگا ہو، تو وہ پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہے(اور اس میں  موزہ میں پھٹن والی تفصیلات جاری ہوں گی)۔(ردالمحتار مع الدر المختار،ج01،ص488،مطبوعہ کوئٹہ)

   بوٹ پر مسح کے جائز ہونے کے متعلق سید ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ بُوٹ جن سے ٹخنہ ڈھک جاتا ہے یعنی بُوٹ کہ پلٹن والے پہنتے ہیں وہ بُوٹ کیا چمڑے کے موزے کا حکم رکھتا ہے  یا نہیں؟؟ یعنی  اس پر مسح کرنا چاہئے  یا نہیں؟

   تو اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’درست ہے معراج الدرایہ پھر بحرالرائق پھر ردالمحتار میں ہے: ’’یجوز علی الجاروق المشقوق علی ظھر القدم ولہ ازرار یشدھا علیہ تسدہ لانہ کغیر المشقوق وان ظھر من ظھر القدم شیئ فھو کخروق الخف‘‘ایسے موزے پر مسح جائز ہے جو قدم کے اوپر سے کھلا ہو اور اسےبند کرنے کے لیے  بٹن لگائے گئے ہوں،کیونکہ وہ غیر پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہوگیا اور اگر قدم کی پیٹھ سے کچھ حصہ ننگا ہو،تو وہ پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہے(اور اس میں  موزہ میں پھٹن والی تفصیلات جاری ہوں گی)۔

(فتاوی رضویہ،ج04،ص347 ، 348 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:’’انگریزی بوٹ جوتے پر مسح جائز ہے اگر ٹخنے اس سے چھپے ہوں۔‘‘(بھار شریعت،ج01، ص367،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تنبیہ:یاد رہے موزہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو،زِپ والا ہو،یا اس کے علاوہ، یونہی اس میں پھٹن موجود ہو یا نہ ہو ،مسح کے باقی رہنے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس میں اتنا پانی نہ جائے کہ جس سے آدھے سے زیادہ پاؤں دُھل جائے ،اگر کسی بھی طرح موزہ میں اتنا  پانی داخل ہو گیا کہ جس سے آدھے سے زیادہ پاؤں دُھل گیا ،تو اب مسح ٹوٹ جائے  گا۔

   تنویر الابصارودرمختار  میں ہے:’’(وینتقض بغسل اکثر الرجل فیہ) لودخل الماء خفہ‘‘اور پاؤں کا اکثر حصہ دُھل جانے سے بھی مسح ٹوٹ جائے گا، جبکہ پانی موزے میں داخل ہوگیا ہو۔(تنویر الابصارودرمختار  مع ردالمحتار، ج01،ص512،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتارمیں ہے:’’قولہ:( لودخل الماء خفہ )فی بعض النسخ :ادخل ولا فرق بینھما فی الحکم کما افادہ ح“شارح علیہ الرحمۃ کا قول:( جبکہ پانی موزے میں داخل ہوگیا ہو) بعض نسخوں میں”ادخل “ہے، لیکن حکم کے معاملہ میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ،جیسا کہ امام حلبی علیہ الرحمۃ نے افادہ فرمایا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، ج01، ص512،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے :’’موزے پہن کر پانی میں چلا کہ ایک پاؤں کاآدھے سے زیادہ حصہ دُھل گیایااورکسی طرح سے موزے میں پانی چلاگیااورآدھے سے زیادہ پاؤں دُھل گیا،تومسح جاتارہا۔‘‘(بھارشریعت،ج1،ص368،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم