مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-566
تاریخ اجراء:18ربیع الاخر1446ھ/22اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے بھائی کو اینل فسٹولا(Anal Fistula) بیماری ہے،اس میں پاخانہ کی جگہ کے قریب ایک پھوڑا سا بنتا ہے،جس سے پیپ نکلتا ہے،بعض دفعہ اس جگہ سے مسلسل پیپ بھی نکلتا رہتا ہے، ایسی صورت میں اگر دورانِ نماز اُس جگہ سے پیپ خارج ہوجائے، تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟کیا دورانِ نماز پیپ نکلنے کے باوجود نماز کو جاری رکھاجاسکتا ہے، یا پھر کپڑے تبدیل یا پاک کرکے پھر سے نماز پڑھنی ہوگی؟شرعی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر اس زخم،پھوڑے سے پیپ صرف چمکتا یا اُبھرتا ہو اور اس میں بہنے کی صلاحیت نہ ہو،تو اس صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا اور کپڑے کے اس پیپ سے تر ہونے کی وجہ سے کپڑا بھی ناپاک نہیں ہوگا،ہاں اگر زخم سے پیپ بہتا ہو، تو یہ پیپ ناپاک ہوگا ،کپڑے کو بھی ناپاک کردے گا اور وضو بھی ٹوٹ جائے گا ،لہٰذا اب اس صورت میں نماز سے متعلق دو صورتیں ہیں:
(۱) اگر پیپ کا بہنا مسلسل ہو اس طرح کہ نماز کا پوراوقت گزرجاتا ہے،لیکن وہ کوشش کرنے کے باوجود اُس پورےوقت میں وضو کرکےفرض نماز اداکرنے پرقادر نہیں ہوتے، تو ایسی صورت میں وہ شرعی معذور قرار پائیں گے،اور ان کے لیے حکم یہ ہوگا کہ وہ ہر فرض نماز کا وقت داخل ہونے پر وضو کریں اور اُس وضو سے جتنی نمازیں چاہے ادا کریں ،اس دوران پیپ کے نکلنے سے وضونہیں ٹوٹے گا،لہٰذا نماز کے دوران بھی پیپ بہے، تونماز کو جار ی رکھا جاسکتا ہے،البتہ اگرپیپ بہنے کے علاوہ وضو توڑنے والی کوئی دوسری چیز پائی جائے ، تو وضو ٹوٹ جائے گا، یونہی جب فرض نماز کاوقت نکل جائے گا،تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ایک دفعہ معذور شرعی بننے کے بعد وہ اس وقت تک شرعی معذور رہیں گے، جب تک کہ بقیہ اوقاتِ نماز میں بھی ان کو کم ازکم ایک مرتبہ یہ مرض پایا جائے، اگر بقیہ اوقاتِ نمازمیں سے کوئی وقت ایساگزرتا ہے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی پیپ بہنے والا مرض نہ پایا گیا، تو پھر وہ شرعی معذور کی تعریف سے خارج ہوجائیں گے ،اور اس صورت میں ان کوآئندہ دوبارہ نماز کا وقت شروع ہونے سے لے کر آخر وقت تک چیک کرنا ہوگا، اور باطہار ت نماز پڑھنے میں کامیاب نہ ہونے کی صورت میں آخر وقت میں نماز پڑھنی ہوگی۔ واضح رہے کہ اگر روئی وغیرہ کوئی چیزرکھ کر اس عذر کو ختم کیا جاسکتا ہو،تو ان پرروئی وغیرہ کسی چیزکورکھ کر اپنے اس عذر کو ختم کرنا لازم ہوگا۔
(۲) اگر اس طرح کی صورتحال نہ ہو یعنی پیپ کا بہنا اس تسلسل سے نہ ہو کہ جو انہیں معذور شرعی بنادے ،تو ہر بار پیپ بہنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا،لہٰذا اس صورت میں نماز کے دوران پیپ بہنے کی صورت میں نماز کو جاری نہیں رکھا جاسکتا،بلکہ وضو کرکے نئے سرے سے نماز کو پڑھنا ہوگا،نیز اگر اس پیپ سے جسم اورکپڑے بقدر مانع(درہم یا اس سے زائد) نجس ہو گئے ہوں، تو نماز سے پہلے جسم اور کپڑےپاک بھی کرنے ہوں گے۔یونہی معذور شرعی والی صورت میں بھی اگر بقدر مانع(یعنی درہم یا اس سے زائد)پیپ بہہ کر بدن اور کپڑوں پر لگ جائے ،تو اگر بدن اور کپڑوں کو پاک کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہو،اس طرح کہ نماز پڑھنے تک بدن اور کپڑے پھر سے بقدرِ مانع ناپاک نہیں ہوں گے،تو بدن اور کپڑوں کو پاک کرنا ضروری ہوگا،ورنہ ایک درہم سے زائد نجس ہونے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی،اور پاک کرکے دوبارہ نماز پڑھنا فرض ہوگا،اور درہم کے برابر ہونے کی صورت میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی اور پاک کرکے دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہوگا،ہاں اگر حالت یہ ہو کہ پیپ کا بہنا اتنا تسلسل سے ہو کہ اگر بدن اور کپڑے پاک کر بھی لئے جائیں،تو دورانِ نماز ہی دوبارہ بقدرِ مانع( یعنی درہم یا اس سے زائد) نجس ہوجائیں گے،تو اس صورت میں اصلاً بدن اور کپڑوں کوپاک کرنے کی حاجت ہی نہیں،بلکہ اُسی حالت میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہوگی۔
زخم سے پیپ بہہ کر نہ نکلے تو ناپاک نہیں ،وضو بھی نہیں ٹوٹے گا،ہاں بہہ کر نکلے تو ناپاک ہے اور وضو بھی ٹوٹ جائے گا،چنانچہ ہدایہ ، فتاوی عالمگیری میں ہے:’’فإن قشرت نقطة فسال منها ماء أو صديد أو غيره إن سال عن رأس الجرح نقض وإن لم يسل لا ينقض‘‘ ترجمہ: اگر کوئی آبلہ پھٹا اور اس سے پانی یا پیپ وغیرہ نکلا، تو اگر وہ زخم سے بہہ جائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا،اور اگر نہ بہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔(الھدایہ،جلد1،فصل فی نواقض الوضوء، صفحہ18، دار احياء التراث العربي،بيروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:’’خون یا ریم اُبھرا اور فی الحال اس میں قوتِ سیلان نہیں اُسے کپڑے سے پونچھ ڈالا، دوسرے جلسے میں پھر اُبھرا اور صاف کردیا یوں ہی مختلف جلسوں میں اتنا نکلا کہ اگر ایک بار آتا ضرور بہہ جاتا تو اب بھی نہ وضو جائے نہ کپڑا ناپاک ہو کہ ہر بار اُتنا نکلا ہے جس میں بہنے کی قوت نہ تھی۔“(فتاوٰی رضویہ ،جلد1،حصہ الف،صفحہ371،رضافاؤنڈیشن، لاھور)
عذر کی وجہ سے کوئی شخص معذور شرعی کب بنتا ہے،اس کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے :”شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله“ترجمہ: پہلی مرتبہ عذر ثابت ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ عذر پورے ایک نماز کے وقت کو گھیرلے اور یہی زیادہ ظاہر ہے،جیسا کہ عذر کا ختم ہونا بھی اسی وقت ثابت ہوتا ہے کہ جب وہ نماز کے ایک پورے وقت کو گھیرلے(یعنی پورے وقت میں وہ عذر نہ پایا جائے)۔(الفتاوی الھندیہ،جلد،1کتاب الطھارۃ، صفحہ40،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
شرعی معذور کے احکام بیان کرتے ہوئے بہارشریعت میں ہے:”ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے،اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارِج ہونا، یا دُکھتی آنکھ سے پانی گرنا، یا پھوڑے، یاناصور سے ہر وقت رطوبت بہنا، یا کان، ناف، پِستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وُضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکاتو عذر ثابت ہوگیا۔جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا، مثلاً عورت کو ایک وقت تو اِستحاضہ نے طہارت کی مہلت نہیں دی، اب اتنا موقع ملتا ہے کہ وُضو کرکے نماز پڑھ لے مگر اب بھی ایک آدھ دفعہ ہر وقت میں خون آجاتا ہے، تو اب بھی معذور ہے۔ یوں ہی تمام بیماریوں میں اور جب پورا وقت گزر گیا اور خون نہیں آیاتو اب معذورنہ رہی جب پھر کبھی پہلی حالت پیدا ہو جائے ،تو پھر معذور ہے، اس کے بعد پھر اگر پورا وقت خالی گیا، تو عذر جاتا رہا۔‘‘
مزید اسی میں ہے:’’فرض نماز کا وقت جانے سے معذور کا وُضو ٹوٹ جاتا ہے۔(نیز) معذورکا وُضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب معذور ہے،ہاں اگر کوئی دوسری چیزوُضو توڑنے والی پائی گئی تو وُضو جاتا رہا۔ مثلاً جس کو قطرے کا مرض ہے، ہوا نکلنے سے اس کا وُضو جاتا رہے گا اور جس کو ہوا نکلنے کا مرض ہے، قطرے سے وُضو جاتا رہے گا۔اگر کسی ترکیب سے عذر جاتا رہے یا اس میں کمی ہوجائے تو اس ترکیب کا کرنا فرض ہے، مثلاً کھڑے ہوکر پڑھنے سے خون بہتا ہے اور بیٹھ کر پڑھے تو نہ بہے گا تو بیٹھ کر پڑھنا فرض ہے۔“(بھار شریعت،جلد1،حصہ2،صفحہ385-387،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اگر پیپ کا بہنا تسلسل سے ہو کہ کپڑے پاک کر بھی لئے جائیں،تودوران نماز دوبارہ بقدرِ مانع ناپاک ہوجائیں گے،تو اُسی کپڑوں میں نماز پڑھنے کی رخصت ہے ،ورنہ بقدر مانع ہونے کی صورت میں پاک کرکے ہی نماز پڑھنی ہوگی،چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’اذا کان بہ جرح سائل۔۔۔ان کان بحال لو غسلہ یتنجس ثانیا قبل الفراغ من الصلاۃ جاز ان لا یغسلہ وصلی قبل ان یغسلہ والا فلا ھذا ھو المختار‘‘ترجمہ:جب بہنے والا زخم ہو،اور حالت یہ ہو کہ اگر وہ کپڑوں کو پاک کرے،تو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی دوبارہ کپڑے ناپاک ہوجائیں گے،تو جائز ہے کہ ان کپڑوں کو پاک نہ کرے اور انہیں پاک کرنے سے پہلے ہی نماز پڑھ لے،اور اگر ایسا نہ ہو(بلکہ پاک کپڑوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہو)تو اب رخصت نہیں ہوگی ،یہی مختار ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،باب النجاسۃ واحکامھا، صفحہ46،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ ایک شخص بعا رضہ بواسیر سخت مبتلا ہے اور اس کی یہ حالت ہے کہ شب وروز تمام مسّے مقعد سے باہر نکلے ہوئے رہتے ہیں اور اُن میں سے ہر وقت رطوبت جاری رہتی ہے اور پاجامہ یا تہبند کو لگتی رہتی ہے اس سے بچاؤ اُس شخص کو غیر ممکن ہے کسی صورت سے وہ اپنا کپڑا نہیں بچاسکتا۔۔۔ پس ایسا شخص بغیر پاک کیے کپڑے کے ویسی حالت میں نماز اداکرے تو یہ نماز اس کی جائز ہے یا نہیں؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’مسّوں سے اگر رطوبت بہہ کر نہ نکلے بلکہ ان کی سطح بالاتر پرتری ہوکہ کپڑ ا لگ کر چھڑا لائے جب تو اُس سے کپڑا ناپاک نہ ہوگا،بے تکلّف نماز پڑھے اور اس تقدیر پر اُس کے نکلنے سے وضو بھی نہ جائے گا لان مالیس بحدث لیس بنجس(کیونکہ جو چیز حدث نہیں وہ ناپاک بھی نہیں۔ ت) ہاں جبکہ بہہ کر نکلتی ہے تو وضو کی بھی ناقض ہے اور۔۔۔جبکہ وہ ہر وقت نکلتی ہے تو اُسے حکم معذور ہے پانچ وقت تازہ وضو کرے۔رہا کپڑا اگر سمجھتا ہے کہ پاک کپڑا بدل کر فرض پڑھے گا تو اُس کے ایک درم سے زائد بھرنے سے پیشتر فرض ادا کرلے گا جب تو اُس پر لازم ہے کہ ہر وقت پاک کپڑا بدلے اور اگر جانتا ہے کہ فرض پڑھنے کی مہلت نہ ملے گی اور کپڑا پھر اُتنا ہی ناپاک ہوجائے گا تو اُسے معافی ہے اُسی کپڑے سے پڑھے لایکلّف اللّٰہ نفساً اِلاّ وسعھا(اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا)۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ375،رضافا ؤنڈیشن،لاھور)
بہار شریعت میں ہے:’’معذور کو ایسا عذر ہے جس کے سبب کپڑے نجس ہو جاتے ہیں تو اگر ایک درم سے زِیادہ نجس ہو گیا اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اوراگر جانتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا ضروری نہیں اُسی سے پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو جائے کچھ حَرَج نہیں اور اگر درہم کے برابر ہے تو پہلی صورت میں دھونا واجب اور درہم سے کم ہے تو سنّت اور دوسری صورت(یعنی نماز پڑھنے تک پھر سے بقدر مانع ناپاک ہونے ) میں مطلقاً نہ دھونے میں کوئی حَرَج نہیں۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ2،صفحہ387،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟