Wazu Mein Ungliyan Choom Kar Sar Ka Masah Karne Ka Hukum

وضو کرتے ہوئے انگلیوں کو چوم کر سر کا مسح کرنے کا شرعی حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12847

تاریخ اجراء: 08 ذیقعدۃ الحرام1444 ھ/29مئی 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگ سر کا مسح کرنے سے پہلے ہاتھوں پر پانی ڈال کر انگلیاں چومتے ہیں، بعض تو آنکھوں سے بھی لگاتے ہیں،پھر   اُسی استعمال شدہ ہاتھ کی تری سے مسح کرتے ہیں۔ کیا اس طرح کرنے سے سر کا مسح درست ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھے گئے مسئلے کی دو صورتیں ہیں:

   پہلی صورت یہ ہے کہ سر کا مسح کرنے کے لیے ہاتھ کا تر  ہونا ضروری ہے، اب خواہ یہ تری اعضائے وضو دھونے کے بعد ہاتھ میں رہ گئی ہو یا پھر نئے سرے سے ہاتھ کو تر کیا ہو، بہر صورت وہ تری مسح کے لیے کافی ہوگی۔ اگر کسی شخص نے مسح سے پہلے اس تر ہاتھ سے عمامے کو چھولیا یا  جسم کے کسی ایسے حصے پر وہ ہاتھ پھیرا جسے وضو میں دھویا جاتا ہے اور  اب بھی اس کے  ہاتھ میں تری باقی ہے، تو سر کا مسح ہوجائے گا،  اس طرح کرنے سے اس کے مسح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

   دوسری صورت یہ ہے کہ اس شخص نے ہاتھ کی اس تری سے موزوں پر مسح کرلیا، تو چونکہ یہ تری ایک فرض کو ساقط کرنے کے کام آچکی ہے، لہذا اب اس مستعمل تری سے سر کا مسح نہیں ہوگا۔

   خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہاتھ تر کرنے کے بعد انگلیوں کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا ہے ، تو یہ پہلی صورت میں داخل ہے۔   اگراس کے  ہاتھ میں تری باقی ہے،تو سر کا مسح ہوجائے گا ، اس طرح کرنے سے اس کے مسح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن یہ ضرور یاد رہے کہ مسح کرنے سے پہلے یوں انگلیاں چومنا اور آنکھوں سے لگانا شرعاً ثابت نہیں،  نہ ہی ایسا کرنے میں کوئی دنیوی فائدہ ہے، لہذایہ  ایک عبث اور لغو فعل ہے ، اس سے بچنا ضروری ہے ۔

   مسح درست ہونے کے لیے ہاتھ کا تر  ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:”ولو کان فی کفہ بلل فمسح بہ اجزأہ سواء کان اخذ الماء من الاناء او غسل ذراعیہ و بقی بلل فی کفہ ھو الصحیح بخلاف ما اذا مسح رأسہ او خفہ وبقی علی کفہ بلل فمسح بہ راسہ او خفہ لا یجوز کذا فی الخلاصۃ“یعنی اگر کسی شخص کی ہتھیلی  میں تری تھی ،پھر اس نے اسی تری سے مسح کیا ،تو اس کا یہ مسح کرنا،  درست  ہے، خواہ اس نے یہ پانی برتن سے لیا ہو یا پھر اس نے اپنی کہنیوں کو دھویا ہو اور اس کی ہتھیلی میں تری باقی رہ گئی ہو ، یہی صحیح ہے، برخلاف اس کے کہ اس نے اپنے سر یا موزے کا مسح کیا اور اس کے ہاتھ میں تری باقی تھی ،پھر اس نے اسی تری سے اپنے سر یا موزے کا مسح کیا تو یہ مسح کافی نہیں ، جیسا کہ خلاصہ میں مذکور ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 06، مطبوعہ بیروت)

   ہاتھوں سے عمامہ کو چھولیا، تو تری باقی ہونے کی صورت میں مسح ہوجائے گا۔ جیسا کہ کانوں کےمسح کےحوالے سےعلامہ علاءالدین حصکفی علیہ الرحمۃ نےفرمایا:”لو مسّ عمامته فلا بدّ من ماء جدید“  یعنی  اگر کانوں کے مسح سےپہلےہاتھوں سےاپنےعمامےکوچھولیا،تونیاپانی لیناضروری ہوگا۔

   علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ”درمختار “کی اس عبارت پر فرماتےہیں:لعلّه محمول علی ما إذا انعدمت البلّة بمسّ العمامة، قال في "الفتح": وإذا انعدمت البلّة لم یکن بد من الأخذ“یعنی نیاپانی لینےکاحکم اُس صورت میں ہے جبکہ عمامہ چھونے سے ہاتھوں پرموجود تری ختم ہوجائے،علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ نے’’فتح القدیر‘‘میں فرمایا: اورجب تری ختم ہو جائے،تو نئے پانی سےہاتھ تر کرنا ضروری  ہوگا۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 264، مطبوعہ کوئٹہ )

   ہاتھوں کو تر کرنے کے بعد دھلے ہوئے عضو کو چھولیا تب بھی وہ تری مسح کے لیے کافی ہوگی۔ جیسا کہ محیطِ برہانی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”ولو كان في كفه بلل فمسح به رأسه أجزأه قال الحاكم الشهيد رحمه الله: هذا إذا لم يستعمله في عضو من أعضائه بأن أدخل يده في إناء حتى ابتلت، فأما إذا استعمله في عضو من أعضائه بأن غسل بعض أعضائه وبقي على كفه بلل لا يجوز، وأكثرهم على أن قول الحاكم خطأ۔ والصحيح أن محمدا رحمه الله أراد بذلك ما إذا غسل عضوا من أعضائه وبقي البلل في كفيه، بدليل أن محمدا رحمه الله، قال: وهذا بمنزلة ما لو أخذ الماء من الإناء، ولو كان المراد ما قاله الحاكم لم يكن لهذا التشبيه معنى۔ وفرقوا بين بلل اللحية وبين بلل الكف، والفرق أن بلل اللحية ما سقط به فرض غسل الوجه وصار مستعملا، فلا يقام به فرض آخر۔ أما بلل الكف ما لم يسقط به فرض الغسل؛ لأن فرض غسل الأعضاء أقيم بالماء الذي زايل العضو لا بالبلل الذي على الكف، فلم يصر هذا البلل مستعملا، فجاز أن يقام به فرض مسح الرأسیعنی اگر کسی شخص کی ہتھیلی میں تری باقی ہو اور وہ اسی تری سے اپنے سر کا مسح کرلے، تو یہ کافی ہوگا۔ امام حاکم شہید علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ یہ حکم اس وقت ہے، جبکہ عضو کو کسی جگہ استعمال نہ کیا ہو ، اس طرح کہ برتن میں ہاتھ ڈال کر تر کر لیا ہو ۔ اگر اس ہاتھ کو کسی عضو پر استعمال کر لیا، مثلاً:  کوئی عضو دھو لیا اور ہتھیلی میں تری باقی رہ گئی، تو مسح کافی نہیں ۔ اکثر فقہائے کرام کا قول یہ ہے کہ امام حاکم کا یہ قول غلطی کی بنا پر ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ امام محمد علیہ الرحمۃ نے اس مسئلے میں یہ مرادلیا ہے کہ کسی عضو کو دھو لیا اور تری باقی رہ گئی (تو مسح جائز ہے ) اس پر دلیل یہ ہے کہ امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ یہ برتن میں سے پانی لینے کی طرح ہے ۔ اگر اس سے وہی صورت مراد ہوتی جو امام حاکم علیہ الرحمۃ نے مراد لی ہے، تو اس تشبیہ کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا ۔ فقہائے کرام داڑھی اور ہتھیلی کی تری میں فرق بیان فرماتے ہیں کہ داڑھی کے مسح سے بچ جانے والی تری نے چہرہ دھونے والے فرض کو ساقط کیا اور مستعمل ہو چکا ہے، لہذا اس سے دوسرا فرض ادا نہیں کیا جا سکتا،  جبکہ ہتھیلی کی تری سے  جب تک کوئی فرض ساقط نہیں ہوا ، وہ مستعمل نہیں ہوا کیونکہ اعضا دھونے کا فرض اس پانی سے ادا ہوتا ہے، جو عضو سے جدا ہو جاتا ہے ، ہتھیلی پر موجود تری سے (دھونے کا فرض ادا نہیں ہوتا ) تو  ہتھیلی پر موجود تری سے سر کا فرض مسح کرنا بھی جائز ہے۔(المحیط البرھانی، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 38، دار الكتب العلميہ، بيروت)

   مبسوط سرخسی  میں ہے:”وإن كان في كفه بلل فمسحه به أجزأه لأن الماء الذي بقي في كفه غير مستعمل فهو كالباقي في إنائه وقال الحاكم وهذا إذا لم يكن استعمله في شيء من أعضائه وهو غلط منه فإنه إذا استعمله في شيء من المغسولات لم يضره لأن فرض الغسل تأدى بما جرى على عضوه لا بالبلة الباقية في كفه إلا أن يكون استعمله في المسح بالخف وحينئذ الأمر على ما قاله الحاكم لأن فرض المسح يتأدى بالبلة“یعنی اگر ہتھیلی میں تری ہو پھر اسی سے مسح کیا ،تو یہ کافی ہے، کیونکہ وہ پانی جو ہتھیلی میں باقی ہے، وہ مستعمل نہیں ہے۔ یہ تری  اس پانی کی طرح ہے  جو برتن میں موجود ہے۔ امام حاکم علیہ الرحمۃنے فرمایا کہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب اس نے اس تری کو اعضائے وضو میں استعمال نہ کیا ہو اور یہ ان سے خطا ہوئی ہے،کیونکہ جب  اس ہاتھ کو  دھوئے ہوئے اعضا پر استعمال کیا، تو یہ مضر نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دھونے کا فرض تو اس پانی سے ادا ہو چکا جوپانی اعضا پر بہا تھا ، ہتھیلی پر باقی تری سے فرض ادا نہیں ہوا  اِلا یہ کہ کسی نے موزے پر مسح  کر لیا، تو جیسا امام حاکم نے فرمایا ویسا ہی حکم ہوگا کیونکہ فرض مسح ، تری سے ادا ہوا ہے ۔ ( المبسوط لسرخسی  ، کتاب الطھارۃ، باب الوضوء والغسل ، ج 01، ص 63، دار المعرفہ، بيروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مسح کرنے کے لیے ہاتھ تَر ہونا چاہیئے، خواہ ہاتھ میں تَری اعضا کے دھونے کے بعد رہ گئی ہو یا نئے پانی سے ہاتھ تر کر لیا ہو۔ کِسی عُضو کے مسح کے بعد جو ہاتھ میں تَری باقی رہ جائے گی وہ دوسرے عُضْوْ کے مسح کے لیے کافی نہ ہوگی۔(بھارِ شریعت، ج 01، ص 291، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم