Wazu Mein Sar Ka Masah Karne Se Pehle Ungliyan Chomna Kaisa ?

وضو میں سر کا مسح کرنے سے پہلے انگلیاں چومنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ سر کا مسح کرنے سے پہلے ہاتھوں پر پانی ڈال کر انگلیاں چومتے ہیں بعض تو آنکھوں سے بھی لگاتے ہیں پھر اُسی استعمال شدہ ہاتھ کی تری سے مسح کرتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کرنے سے سر کا مسح درست ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھے گئے مسئلہ کی دو صورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ چونکہ سر کا مسح کرنے کے لیے ہاتھ کا تر ہونا ضروری ہے اب خواہ یہ تری اعضائے وضو دھونے کے بعد ہاتھ میں رہ گئی ہو یا پھر نئے سرے سے ہاتھ کو تر کیا ہو، بہر صورت وہ تری مسح کے لئے کافی ہوگی۔ اب اگر کسی شخص نے مسح سے پہلے اس تر ہاتھ سے عمامے کو چھولیا یا پھر جسم کے کسی ایسے حصے پر وہ ہاتھ پھیرا جسے وضو میں دھویا جاتا ہے تو اب اگراس کے ہاتھ میں تری باقی ہے تو سر کا مسح ہوجائے گا اس طرح کرنے سے اس کے مسح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

   ہاں! دوسری صورت یہ ہے کہ اس شخص نے ہاتھ کی اس تری سے موزوں پر مسح کرلیا تو چونکہ یہ تری ایک فرض کو ساقط کرنے کے کام آچکی ہے، لہٰذا اب اس مستعمل تری سے سر کا مسح نہیں ہوگا۔

   خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہاتھ تر کرنے کے بعد انگلیوں کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا ہے تو یہ پہلی صورت میں داخل ہے، پس اگراس کے ہاتھ میں تری باقی ہے تو سر کا مسح ہوجائے گا اس طرح کرنے سے اس کے مسح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن یہ ضرور یاد رہے کہ مسح کرنے سے پہلے یوں انگلیاں چومنا اور آنکھوں سے لگانا شرعاً ثابت نہیں نہ ہی ایسا کرنے میں کوئی دنیوی فائدہ ہے لہٰذا ایک عبث اور لغو فعل سے بچنا ضروری ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری، 1/6- رد المحتار مع الدر المختار، 1/264-المحیط البرھانی، 1/38-بہارِ شریعت، 1/291)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم