Wazu Me Pore Sar Ka Masah Na Karna Kaisa ?

وضو میں پورے سر کا مسح نہ کرنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7952

تاریخ اجراء:        05محرم الحرام    1444ھ/04 اگست 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  کچھ لوگوں کو دیکھا ہے، وہ سر سے تھوڑی سی ٹوپی  یا عمامہ ہٹا کر صرف سر کے چوتھائی حصہ کا مسح کر لیتے ہیں  ، پورے سر کا مسح نہیں کرتے ، تو یہ رہنمائی فرمائیے کہ پورے سر کا مسح کرنے کا کیا حکم ہے  ، اگر کوئی اس کے ترک کی عادت بنا لے ،  تو کیاحکم ہو گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وضو میں چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض  ، جبکہ پورے سر کا مسح کرنا سنتِ مؤکدہ  ہے ، نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  اس پر مواظبت  (ہمیشگی)فرمائی ہے ، البتہ چند بار صرف بیان ِجواز کے لیے چوتھائی سر کا مسح فرمایا اور ایسا عمل جس پر نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مواظبت فرمائی ہو اور چند بار بیان جواز کے لیے ترک فرمایا ہو ، وہ سنت مؤکدہ ہوا کرتا  ہے ،  لہٰذا پورے سر کا ہی مسح  کیا جائے ، جان بوجھ کر بلاعُذر ایک آدھ بار پورے سر کا مسح نہ کرنا بُرا ہے اور اگر عادت  بنا لی  جائے ، تو گناہ اور استحقاقِ عذاب کا باعث ہو گا  کہ سنتِ مؤکدہ کو ایک آدھ بار ترک کرنے پر عتاب اور ترک کی عادت بنالینے پر استحقاق ِعذاب ہے ۔

   چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے  :’’أن رجلا قال لعبد اللہ بن زيد وهو جد عمرو بن يحيى: أتستطيع أن تريني كيف كان رسول اللہ  صلى اللہ  عليه وسلم يتوضأ؟ فقال عبد اللہ بن زيد نعم  ، فدعا بماء، فأفرغ على يديه فغسل مرتين، ثم مضمض واستنثر ثلاثا، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل يديه مرتين مرتين إلى المرفقين، ثم مسح رأسه بيديه، فأقبل بهما وأدبر ، بدأ بمقدم رأسه حتى ذهب بهما إلى قفاه، ثم ردهما إلى المكان الذي بدأ منه، ثم غسل رجليه  ترجمہ: ایک شخص نے حضرت  عمرو بن یحیی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے دادا حضرت عبداﷲ بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے کہاکہ کیا آپ   رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مجھے یہ کر  کے دکھا سکتے ہیں   کہ  رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیسے وضو فرمایا کرتے  تھے ؟ تو حضر ت عبد اللہ بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : ہاں !  پھر آپ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے پانی منگوایا  اور اپنے  دونوں ہاتھوں پرڈالا اور دونوں ہاتھ دو دو  بار دھوئے ، پھر تین تین بار  کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر ناک  صاف کی ، پھر تین بار منہ دھویا، پھردونوں ہاتھ کہنیوں تک دوبار دھوئے پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا اور  انہیں آگے پیچھے لے گئے  ، (یعنی )سر کے اگلے حصے سے شروع کیا پھر انہیں گُدی تک لے گئے   ،پھر جہاں سے شروع کیا تھا، اُسی جگہ واپس لوٹا  لائے ، پھر اپنے پاؤں دھوئے ۔(صحیح البخاری، کتاب الطھارۃ ، باب مسح الراس کلہ ، جلد1،  صفحہ 93، مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت امام ابو عبدا لرزاق  عبد القادر بن عبد الله اُسطوانی حنفی قادری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ  (سالِ وفات: 1314ھ) لکھتے ہیں :فالمسح على الرأس مرة واحدة سنة مؤكدة، كما في أكثر الكتب یعنی پورے سر کا ایک بار مسح کرنا سنت ِ مؤکدہ ہے ، جیساکہ اکثر کتب میں موجود ہے ۔(اصل الزراری شرح  صحیح البخاری  ، باب مسح الراس  مرۃ ، صفحہ 330 ، مطبوعہ المکتب العلمی ، دار الکمال  ، المتحدۃ )

   پورے سر کا مسح کرنا سنت ہے ، چنانچہ وضو کی سنن بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:540ھ/1145ء) لکھتےہیں:والثالث عشر الاستيعاب في مسح الرأس وهو سنة وهو أن يمسح كله…وأما آداب الوضوء فكثيرة ترجمہ :  اور تیرہویں سنت  پورے سر کا مسح کرنا ہے بہر حال  وضو کے  مستحبات تو وہ بہت سے ہیں ۔ (تحفۃ الفقھاء،كتاب الطهارة ،جلد 1 ، صفحہ 14،مطبوعہ  دار الكتب العلميه ، بيروت )

   اور اس سنت کے مؤکدہ ہونے کی تصریح کرتے ہوئے علامہ زَبِیدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:800 ھ/1397 ء ) لکھتےہیں: (قوله:ويستوعب رأسه بالمسح) الاستيعاب هو الاستئصال يقال استوعب كذا إذا لم يترك منه شيئا والاستيعاب سنة مؤكدة على الصحيح ترجمہ :ماتن کا قول  : اور  پورے سر کا مسح کے ساتھ گھیراؤ کرنا ، (سنت ہے ) استیعاب  مکمل گھیراؤ کرنے کو کہا جاتا ہے جيساکہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایسے انداز سے پورا کیا کہ اس میں سے کچھ نہ چھوڑا اور صحیح قول کے مطابق پورے سر کا مسح کرنا سنتِ مؤکدہ ہے ۔ (الجوھرۃ النیرہ،کتاب الطهارة ،   جلد1، صفحہ33، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   اور اس کے مؤکدہ ہونے کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :956 ھ/1049ء) لکھتےہیں:(واستيعاب جميع الرأس في المسح)  لمواظبة النبی  صلى اللہ عليه وسلم  علی ماروی فی احادیث  وضوئہ  فی الصحیحین وغیرھما  مع الترك فی بعض الأوقات تعلیما للجواز ترجمہ :اور پورے سر کا مسح کرنا  ( سنتِ مؤکدہ ہے )، کیونکہ صحیح  بخاری و صحیح مسلم اور  دیگر کتب ِ احادیث کی روایات کے مطابق  نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر ہمیشگی اختیار فرمائی  ،  اس کے ساتھ  کہ بیان جواز کے لیے  بعض اوقات  ترک  بھی فرمایا۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، سنن الوضو ،  صفحہ 23، مطبوعہ سھیل اکادمی ، لاھور)

   الفقہ على المذاھب الاربعہ میں ہے :ومن السنن المؤكدة مسح جميع الرأس، فلو اقتصر على مسح الجزء المفروض مسحه، وتكرر ذلك منه، فإنه يأثمترجمہ: اور وضو کی سننِ مؤکدہ میں سے ایک پورے سر کا مسح کرنا بھی ہے ، لہٰذا اگر کسی نے فرض مقدارکے   برابر مسح کیا  اور ایسا بار بار کیا، تو وہ گنہگار ہو گا ۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ ، جلد 1 ، صفحہ 63، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   پورے سر کا مسح ایک بار ترک کرنا بُرا اور بلاعذر  ترک کی عادت بنانا گناہ ہے، چنانچہ تنویر الابصار و درمختار  مع رد المحتار   اور فتاوی عالمگیری میں ہے ، واللفظ للآخر :(ومنها) مسح كل الرأس مرة. كذا في المتون والأظهر أنه يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه ويمدهما إلى قفاه على وجه يستوعب جميع الرأس …وإن داوم على ترك استيعاب الرأس بغير عذر يأثم ترجمہ : وضو کی سنن میں سےایک پورے سر کا ایک بار مسح کرنا ہے ، یونہی متونِ مذہب میں ہے اور اظہر قول یہ  ہے کہ اپنی انگلیوں کو سر کے شروع میں رکھے گا اور کھینچتے ہوئے گُدی کی طرف ایسے لے جائے کہ پورے سر کا احاطہ  ہو جائے   اور اگر  بلا عذر پورے سر کے مسح کے ترک کی عادت بنائی ، تو گنہگارہو گا۔ (الفتاوى الھندیۃ، كتاب الطھارۃ  ،الباب الاول، الفصل الثانی فی سنن الوضو  ، جلد1،  صفحہ7،مطبوعہ کوئٹہ)

   اور عادۃ ً ترک کرنے کی وجہ سے گنہگار  اِس  لیے ہو گا ، کیونکہ   اس طرح کرنے سے اس  کا سنت سے اعراض کرنا ظاہر ہوتا ہے ، چنانچہ امام کمال الدین  ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:إذا داوم على ترك استيعاب الرأس بغير عذر يأثم كأنه واللہ  أعلم لظهور رغبته عن السنة ترجمہ: جب  بغیر عذر کے پورے سر کے مسح کے ترک پر ہمیشگی اختیار  کرے  گا ، تو گنہگار ہو گا ، اس  کی وجہ اللہ بہتر جانتا ہے ، (شاید اس لیے کہ )اس کا سنت سے بے رغبتی ظاہر کرنا ہے ۔ (فتح القدیر،کتاب الطھارۃ ، فصل فی نواقض الوضو ،  جلد1، صفحہ36، مطبوعہ کوئٹہ)

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے : ونص الحنفية على أن المتوضئ إذا داوم على ترك استيعاب كل الرأس بالمسح بلا عذر يأثمترجمہ :اور احناف نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وضو کرنے والا جب  بلا عذر پورے سر کے مسح کے ترک کی عادت بنا  لے، تو وہ گنہگار ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ، جلد43، صفحہ361، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

   فتاوی رضویہ  شریف  میں ہے : سنت  مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو،  عتاب ہی کااستحقاق ہو  ، مگربارہا ترک سے بلاشبہ گنہگار ہوتا ہے۔ (فتاوی رضویہ،جلد 1 ، صفحہ 596 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور  )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: پُورے سر کا ایک بار مسح کرنا اور کانوں کامسح کرنا اور ترتیب کہ پہلے مونھ، پھر ہاتھ دھوئیں،پھر سر کا مسح کریں،پھر پاؤں دھوئیں ، اگر خلافِ ترتیب وُضو کیا یا کوئی اور سنت چھوڑ گیا، تو وُضو ہو جائے گا  ، مگر ایک آدھ دفعہ ایسا کرنا بُرا ہے اور ترکِ سنّتِ مؤکّدہ کی عادت ڈالی، تو گنہگار ہے۔(بھار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ 296، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم