Wazu Ghusl Ke Baad Nail Polish Lagi Reh Gai Ho Tu Jo Namaz Parhi Us ka Hukum

وضو و غسل کے بعدمعلوم ہوا کہ نیل پالش لگی رہ گئی، تو  جو نماز پڑھی اس کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:61

تاریخ اجراء: 18ذوالحجۃ الحرام1442ھ29جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ  کسی اسلامی بہن نے ناخن پالش لگائی ہوئی تھی، اسے اپنی طرف سے صاف کر کے وضو یا غسل کیا اور نماز بھی پڑھ لی، پھر توجہ گئی ، تو معلوم ہوا کہ ناخن پالش صحیح طور پر نہیں اتری تھی،جس وجہ سے پانی ناخن  تک نہیں پہنچا،  تو اس صورت میں اُس  پڑھی گئی نماز کا کیا حکم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وہ نمازادا  ہو گئی ۔اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ اگرجسم پر کوئی ایسی چیز لگی  ہو کہ جس کی آدمی کو عموماً یا خصوصاً ضرورت پڑتی ہو اوراسے تکلیف اور ضرر کے بغیر  اتارنا ممکن ہو ،لیکن اس کی   دیکھ بھال کرنے،اس کے  لگے ہونے یا  نہ لگے ہونے پر مسلسل توجہ رکھنے، اس سے بچنے اور احتیاط کرنے میں حرج واقع ہوتاہوجیسےسرمے کا جِرم (تہہ)،پکانے و گوندھنے والوں کے لئے آٹا ، کاتب یعنی لکھنے والے کے لئے سیاہی کا جرم اور عورتوں کے لئے مہندی کا جرم وغیرہ(چونکہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ یا تو ہر آدمی کو یا بعض مخصوص افراد کو عموماً  یا خصوصاًان چیزوں سے واسطہ رہتا ہے اور ان سے بچنےیا مکمل طور پر ان کی نگہداشت رکھنےمیں حرج ہے )تو حکم یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی چیزجسم پر لگی رہ گئی اور آدمی کو پتا نہ چلا،تو اس کا وضو یا غسل ہو جائے گااور نماز پڑھ لی، تو وہ بھی ہوگئی۔

   پھر ایسی چیزوں کے جسم پر لگے رہنے کے باوجود وضو و غسل ہوجانے کی اصل علت حرج ہے،جہاں بھی حرج پایا جائے گا،وہاں رخصت والا معاملہ ہوگا،یہاں یہ ضروری نہیں کہ اس چیز سے ہر روزواسطہ پڑتا ہو، بلکہ اگروقفے وقفے سے اس سے واسطہ پڑتا ہو ،لیکن اس کی نگہداشت اور دیکھ بھال میں حرج ہے،تو اس کے بھی جسم پر لگے ہونے کے باوجودوضو و غسل ہو جائے گاجیسے عورتوں کے حق میں  مہندی اور عام لوگوں کے لئے سرمےکے جِرم کا معاملہ ہےکہ عورتیں ہر روز مہندی استعمال نہیں کرتی،بلکہ وقفے وقفے سے کرتی ہیں، یونہی عام لوگ ہر روز سرمہ استعمال نہیں کرتے،لیکن اس کے باوجود شریعت نے انہیں ان چیزوں  کے جِرم کے معاملے میں رخصت دی ہے۔

   ہاں اگر وضو سے پہلے ہی معلوم ہوگیا کہ ان میں سے کوئی چیز لگی ہوئی ہے یا وضو کر کے نماز پڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا، تو اب چھڑانا واجب ہے، یعنی اب اُسے چھڑائے اور دھوئے بغیر وضو و غسل کریں گے ،تو وضو و غسل نہ ہوگا اور ایسے وضو و غسل کے بعد اگر نماز پڑھیں گے، تو وہ نماز  نہ ہو گی ، کیونکہ رخصت محض بچنے اور نگہداشت میں حرج کی وجہ سے تھی،لیکن جب اس کا لگا ہونا معلوم ہوگیا اور اس کے چھڑانے میں ضرر و تکلیف بھی نہیں، تو اب وہ رخصت نہ رہی۔

   اب اس تفصیل سے پوچھی گئی صورت کا حکم بھی واضح ہو گیااور وہ یہ کہ خواتین عام طور پربطورِ زینت ناخن پالش استعمال کرتی ہیں  اور اس کی نگہداشت اور دیکھ بھال کرنے میں بھی ضرور حرج پایاجاتاہے،لہٰذا اس میں بھی رخصت و آسانی والا معاملہ ہو گا،یعنی اگر اسے ناخن پالش کا جِرم  لگے ہونے کا علم نہیں تھااوراُس نے  اسی طرح وضو یا غسل کر کے نمازادا کرلی ،تو وہ ادا ہو گئی۔البتہ پتہ چل جانے کے بعد اسے  چھڑانے میں ضرر و تکلیف نہ ہو،تو وضو و غسل کے لئے اسے چھڑانا اور اس جگہ کو دھو نا فرض ہو گا۔

   نوٹ:یاد رہے کہ ناخن پالش یا ایسی کوئی چیز کہ جسے دھونے کے بعد بھی اس کا جِرم جسم پہ باقی رہ جائے اور اس وجہ سے پانی جلد تک نہ پہنچنے پائے، تو جب تک اس کا جِرم باقی رہے گا، وضو و غسل نہیں ہو گا، جبکہ اسے اتارنا ممکن ہو اور اگر اتارنا ممکن نہیں یا اتارنے میں حرجِ شدید ہو، تو اس جِرم کو  اتارے بغیر وضو و غسل تو ہو جائے گا، لیکن اپنے قصد ( ارادے)سے ایسی حالت پیدا کرنا، ناجائز و گناہ ہے، جو وضو و غسل اور فرض یا واجب  عبادات کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے جیسا کہ منہ سے بدبو آرہی ہو ، تو یہ جماعت ترک کرنے کا عذر ہے، لیکن جماعت کے قریب وقت میں قصداً ایسی چیز کھانا کہ جس کی وجہ سے منہ بدبودار ہوجائے، تو قصداً ایسی حالت پیدا کرنے کی وجہ سے گناہ  ہو گا۔

   شرعی طور پر کہیں حرج ہو، توحرج کو دور کیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ما جعل علیکم فی الدین من حرجترجمہ کنزالایمان:تم پر دین میں کوئی تنگی (حرج)  نہ رکھی۔(پارہ 17،سورۃ الحج ،آیت78)

   کشف الاسرار شرح اصول البزدوی میں ہے:”ان اللہ تعالیٰ کما لم یکلف بما لیس فی الوسع لم یکلف بما فیہ الحرج قال اللہ تعالیٰ﴿ ما جعل علیکم فی الدین من حرج “ترجمہ:بیشک جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا مکلف نہیں بنایا کہ جس کی  طاقت نہ ہو، اسی طرح جس میں حرج ہو، اس کا مکلف بھی نہیں بنایا۔اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے: ﴿ ما جعل علیکم فی الدین من حرج ترجمہ: تم پر دین میں کوئی تنگی (حرج)  نہ رکھی۔“(کشف الاسرار،4،ص30، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

   اصول السرخسی میں ہے:”ان الحرج  مدفوع بالنص“ترجمہ:نص(قرآنی آیت)سے ثابت ہے کہ حرج کو  دور کیا جائے گا۔(اصول السرخسی، ج2، ص203، دار المعرفۃ، بیروت)

   جن چیزوں  کی نگہداشت میں حرج  ہے،ان کے جسم پر لگے ہونے کے باوجود وضو و غسل ہو جائے گا۔درمختار اور اس کی شرح ردالمحتار میں ہے:(بین القوسین مزیدا من رد المحتار):”ولا یمنع الطھارة ونیم ای خرءذباب وبرغوث لم یصل الماءتحتہ(لان الاحتراز عنہ غیر ممکن)وحناءولو جرمہ،بہ یفتی(صرح بہ فی المنیة عن الذخیرة فی مسئلة الحناءوالطین والدرن معللا بالضرورة)۔۔ولا یمنع ما علی ظفر صباغ “ترجمہ:مکھی یا پسّو کی بیٹ کہ جس کے نیچے پانی نہ پہنچے ، طہارت سے مانع نہیں ، کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں اور مہندی بھی طہارت سے مانع نہیں ہے اگرچہ اس کا جرم لگا ہو، اسی پر فتوی ہے۔منیہ میں ذخیرہ کے حوالے سے مہندی ، گار ے اور میل کے مسئلے میں ضرورت کو علت قرار دیتے ہوئے اس کی صراحت کی گئی ہے۔۔اور رنگریز کے ناخن پر جو جرم لگا ہوتا ہے وہ بھی طہارت سے مانع نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار،ج1، ص116تا117 ،مطبوعہ پشاور)

   ’’وحناءولو جرمہ ،بہ یفتی ‘‘کے تحت جد الممتار میں ہے:’’وبه يظهر حكم بعض اجزاء كحل تخرج فی النوم وتلتصق ببعض الجفون او تستقر فی بعض المآقی وربما تمر اليد عليها فی الوضوء و الغسل ولا يعلم بها اصلاً،فلا يكفی فيه التعاهد المعتاد ايضاً،الا بتيقظ خاص وتفحّص مخصوص، فذلك كجرم الحناء،لا بالقياس، بل بدلالة النص،فان الحاجة الى الكحل اشد واكثر من الحاجة الى الحناء‘‘ترجمہ:اس سے سرمہ کے ان اجزاء کا حکم ظاہر ہوجاتا ہے جو سونے کی حالت میں نکل کر پلکوں  میں چپک جاتے ہیں یا آنکھ کے کوئے میں ٹھہرجاتے ہیں اور بسا اوقات وضووغسل میں ان پر ہاتھ پھِرتا ہے اور ان کا بالکل بھی پتہ نہیں چلتا ، کیونکہ اس معاملہ میں خاص دھیان اور مخصوص جستجو کيے بغیر نارمل توجہ کافی نہیں ہوتی،پس یہ مہندی کے جرم کی طرح ہیں ، قیاس کی وجہ سے نہیں،بلکہ دلالۃ النص کی وجہ سے،کیونکہ سرمہ کی حاجت مہندی کی بنسبت زیادہ شدت وکثرت سے ہوتی ہے۔(جد الممتار،ج1،ص453 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’جس چیز کی آدمی کو عموماً یا خصوصاً ضرورت  پڑتی رہتی ہے اور اس کے ملاحظہ و احتیاط میں حرج ہے،اس کا ناخنوں کے اندر یا اوپر یا اور کہیں لگا رہ جانا اگرچہ جرم دار ہو اگرچہ پانی اس کے نیچے نہ پہنچ سکےجیسے پکانے،گوندھنے والوں کے لئے آٹا،رنگریز کے لئے رنگ کا جرم،عورات کے لئے مہندی کا جرم، کاتب کے لئے روشنائی، مزدور کے لئے گارا، مٹی، عام لوگوں کے لئے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جرم، بدن کا میل، مٹی،غبار، مکھی، مچھر کی بیٹ وغیرہ، کہ ان کا رہ جانا فرض اعتقادی کی ادا کو مانع نہیں(یعنی وضو و غسل ہو جائے گا)۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج1،ص203 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   البتہ معلوم ہو جانے کے بعد اُس کے جرم(تہہ) کو اتارنا اور دھونا ضروری ہے۔چنانچہ  امام اہلسنت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’حرج کی تین صورتیں ہیں:ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو،جیسے آنکھ کے اندر۔دوم مشقت ہو،جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں، مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے،جیسے مکھی، مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرورہے، مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی،تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھڑالےکہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھا،بعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی’’ومن المعلوم ان ماکان لضرورة تقدر بقدرھا‘‘ترجمہ: اور یہ بات معلوم ہے کہ جو چیز ضرورت کی وجہ سے ثابت ہو،  وہ بقدرِ ضرورت ہی ہوتی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج1،ص455، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اپنے قصد سے ایسی حالت پیدا کرنا، ناجائز و گناہ ہے، جو وضو و غسل اور فرض یا واجب  عبادات کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے۔علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ان اکل ھذہ الاشیاءعذر فی التخلف عن الجماعة ۔۔اقول: کونہ یعذر بذلک ینبغی تقییدہ بما اذا اکل ذلک بعذر او اکل ناسیا قرب دخول وقت الصلاة لئلایکون مباشرا لما یقطعہ عن الجماعة بصنعہ“ ترجمہ: ان اشیاء (لہسن یا پیاز وغیرہ )کا کھانا ترکِ جماعت کا عذر ہے۔۔میں (علامہ شامی)کہتا ہوں :اس عذر کو اس قید کے ساتھ مقید کرنا ضروری ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب وہ کسی عذر سے یانماز کا وقت داخل ہونے کے قریب  بھول کر یہ چیزیں  کھالے(تو اس کے لیے ترکِ جماعت کا عذر ہے)تاکہ اپنے فعل سے ترک جماعت کا مرتکب نہ بنے۔(ردالمحتار، ج2،ص526، مطبوعہ پشاور)

 

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”رائحہ کریہہ کے ساتھ مسجد میں جانا، جائز نہیں ۔۔۔اگر حقہ سے منہ کی بو متغیر ہو، بے کلی کئے منہ صاف کئے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں ، اسی قدر سے خود حقہ پر حکم ممانعت نہیں جیسے کچا لہسن ، پیاز کھانا کہ بلاشبہ حلال ہے اور اسے کھا کر جب تک بو زائل نہ ہو مسجد میں جانا ممنوع، مگر جو حقہ ایسا کثیف و بے اہتمام ہو کہ معاذ اللہ تغیرِ باقی پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک بو زائل نہ ہو، تو قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دخولِ مسجد کا موجب ہو گا اور یہ ممنوع و ناجائز ہیں اور ہر مباح فی نفسہ  کہ امرِ ممنوع کی طرف مؤدی  ہو، ممنوع و ناروا۔“(فتاوی رضویہ، ج25،ص94، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم