مجیب:محمد ساجد عطاری
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:UK-61
تاریخ اجراء:08رجب المرجب1441ھ/03 مارچ 2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ واٹر پروف جرابیں بھی ملتی ہیں جوعام جرابوں کی طرح پہنی جاتی ہیں اور یہ چمڑے کی تو نہیں ہوتیں ،لیکن کافی موٹی ہوتی ہیں اوران کو کسی ایسےمیٹریل سے بنایا گیا ہے کہ اس میں پانی داخل نہیں ہوتا اور یہ اتنی مضبوط بھی ہوتی ہیں کہ تنہا ان کو پہن کر کئی میل سفر کیا جا سکتاہے۔ کیا ایسی جرابوں پر مسح کرنا، جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
وہ جرابیں جن کاسوال میں ذکر ہے، اگرواقعتا اتنی موٹی اور مضبوط ہیں کہ بغیر چپل یا شُوز پہنے فقط ان کو پہن کر مسلسل (تین میل یا زیادہ )چلنا ممکن ہے اوراس چیز کا تجربہ یا غالب ظن ہے کہ اتنا سفر کرنے سے یہ پھٹیں گی نہیں ، تو پھر مفتی بہ قول کے مطابق ایسی جرابوں پر مسح جائز ہے۔
تفصیل یوں ہے کہ تین طرح کی جرابوں پر مسح جائز ہے :
(1)مجلد: ایسی جرابیں کہ جس کے اوپر نیچے ٹخنوں تک کا حصہ چمڑے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا ہو ، لیکن اس پر اوپر نیچے چمڑا جوڑدیا گیا ہو۔
(2) منعل: وہ جرابیں جن کا تلوا چمڑے کا بنایا گیا یا تلوے پر چمڑا جوڑدیا گیا ہو۔
(3)ثخین:وہ جرابیں جواتنی موٹی اور مضبوط ہوں کہ تنہا انہیں کو پہن کر(تین میل یا زیادہ)سفر کریں، تو وہ پھٹ نہ جائیں اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں، فوراً پاؤں کی طرف پانی نہ چلا جائے ۔نیز کسی چیز سے باندھے بغیر پاؤں پر رکی رہیں۔
پہلی دو قسم کی جرابوں پر ہمارے تمام ائمہ کے نزدیک مسح جائز ہے ، جبکہ آخری قسم کی جرابوں پر مسح کرنا صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد علیھما الرحمۃ کے نزدیک جائز ہے اور فتوی اسی قول پر ہے۔
اس تفصیل کے مطابق سوال میں جن جرابوں کا تذکرہ ہے ،وہ تیسری قسم میں آتی ہیں، جبکہ تجربہ یا غلبہ ظن سے یہ بات معلوم ہو کہ تنہا ان کو پہن کر سفر کرنا ،ممکن ہے، لہذا ایسی صورت میں ان پر مسح کرنا،جائز ہوگا۔
درمختار میں ہے:”أو جوربيه الثخينين بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق ولا يرى ما تحته ولا يشف ملتقطا “ترجمہ: یا اتنی موٹی جرابوں پر مسح کرے کہ جن کو پہن کر ایک فرسخ (یعنی تین میل) چلا جا سکے اور وہ پنڈلی پر ٹھہر جائیں اور ان کے نیچے جسم دکھائی نہ دے اور وہ باریک نہ ہوں۔(درمختار ، باب مسح الخفین، جلد1، صفحہ 269، دار الفکر، بیروت)
رد المحتار میں ہے : ” تقدم أن الفرسخ ثلاثة أميال “ترجمہ: یہ پہلے گزر چکا ہے کہ فرسخ تین میل کاہے ۔(درمختار و رد المحتار، باب مسح الخفین، جلد1، صفحہ 263، دار الفکر، بیروت)
اسی میں ہے : ”في ط عن الخانية أن كل ما كان في معنى الخف في إدمان المشي عليه وقطع السفر به ولو من لبد رومي يجوز المسح عليه“ترجمہ: طحطاوی میں خانیہ کے حوالے سے ہے کہ ہر وہ چیز جو موزے کے معنی میں ہے اس اعتبار سے کہ اسے پہن کر مسلسل چلا جا سکتا ہے اور سفر طے کیا جا سکتا ہے، اگرچہ وہ رومی اُون کا بنا ہو ،اس پر مسح کرنا، جائز ہے۔(رد المحتار، باب مسح الخفین، جلد1، صفحہ 269، دار الفکر، بیروت)
اسی میں ایک مقام پر ہے :” المتبادر من كلامهم أن المراد من صلوحه لقطع المسافة أن يصلح لذلك بنفسه من غير لبس المداس فوقه فإنه قد يرق أسفله ويمشي به فوق المداس أياما وهو بحيث لو مشى به وحده فرسخا تخرق قدر المانع، فعلى الشخص أن يتفقده ويعمل به بغلبة ظنه“ترجمہ: علماء کے کلام سے متبادر یہ ہے کہ قطع مسافت کی صلاحیت رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یہ جرابیں فی نفسہ ایسی صلاحیت رکھتی ہوں کہ ان کے اوپر جوتا پہنے بغیر اتنا سفر کیا جا سکتا ہو، کیونکہ کبھی جرابوں کا نچلا حصہ باریک ہوتا ہے ،لیکن ان پر جوتا پہن کر کئی دن چلنا ممکن ہوتا ہے حالانکہ اگر ایسی جرابوں کو تنہا پہن کر ایک فرسخ تک چلا جائے ،تو قدر مانع حد تک یہ پھٹ جائیں گی، لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اچھی طرح دیکھ لے اور اپنے غلبہ ظن کے مطابق عمل کرے۔(رد المحتار، باب مسح الخفین، جلد1، صفحہ 264، دار الفکر، بیروت)
امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں :”سُوتی یا اُونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج(ہیں) ان پر مسح کسی کے نزدیک درست نہیں کہ نہ وہ مجلد ہیں، یعنی ٹخنوں تک چمڑا منڈھے ہوئے، نہ منعل یعنی تلاچمڑے کا لگا ہوا، نہ ثخین یعنی ایسے دبیز ومحکم کہ تنہا اُنہیں کو پہن کر قطع مسافت کریں، تو شق نہ ہوجائیں اور ساق پر اپنے دبیز ہونے کے سبب بے بندش کے رُکے رہیں ڈھلک نہ آئیں اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں فوراً پاؤں کی طرف چھن نہ جائے جو پائتابے ان تینوں وصف مجلد منعل ثخین سے خالی ہوں اُن پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے، ہاں اگر اُن پر چمڑا منڈھ لیں یا چمڑے کا تلا لگالیں، تو بالاتفاق یا شاید کہیں اُس طرح کے دبیز بنائے جائیں، تو صاحبین کے نزدیک مسح جائز ہوگا اور اسی پر فتوی ہے۔فی المنیۃ والغنیۃ: (المسح علی الجوارب لایجوز عند ابی حینفۃ الا ان یکونا مجلدین) ای استوعب الجلد مایستر القدم الی الکعب (اومنعلین) ای جعل الجلد علی ما یلی الارض منھما خاصۃ کالنعل للرجل (وقالایجوز اذاکانا ثخینین لایشفان) فان الجورب اذاکان بحیث لایجاوز الماء منہ الی القدم فھو بمنزلۃ الادیم والصرم فی عدم جذب الماء الی نفسہ الابعد لبث اودلک بخلاف الرقیق فانہ یجذب الماء وینفذہ الی الرجل فی الحال‘‘(ترجمہ: منیہ اور غنیہ میں ہے (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جرابوں پر مسح جائز نہیں ،مگر یہ کہ چمڑے کی ہوں) یعنی چمڑا اس تمام جگہ پر چڑھا ہو جو قدم کو ٹخنوں تک ڈھانپتی ہے ( یا منعل ہوں) یعنی جرابوں کا جو حصّہ زمین سے ملتا ہے صرف اس پر چمڑا چڑھاہو، جیسے پاؤں کی جُوتی ہوتی ہے (اور صاحبین نے فرما یا مسح ان جرابوں پر بھی جائز ہے جو ثخین (موٹی ) ہوں اورپتلی نہ ہوں کہ اندر سے دکھائی دے کیونکہ اگر جراب اس طرح کی ہوگی، تو پانی قدم تک تجاوز نہ کرے گا، لہذا یہ چمڑے اور کھال کی طرح ہوجائے گی اس اعتبار سے کہ یہ بھی اپنے اندر پانی جذب نہیں کرے گی ،مگر کچھ د یر ٹھہرنے یا رگڑنے سے پانی جذب کرے، تو کوئی حرج نہیں بخلاف پتلی جراب کے، کہ وہ پانی کو جذب کرکے فوراً پاؤں تک پہنچاتی ہے۔)
(وعلیہ) ای علی قول ابی یوسف ومحمد (الفتوی والثخین ان یستمسک علی الساق من غیر ان یشد بشیئ) ھکذا فسروہ کلھم وینبغی ان یقید بما اذا لم یکن ضیقا فانا نشاھد مایکون فیہ ضیق یستمسک علی الساق من غیرشد والحدبعدم جذب الماء اقرب وبمایمکن فیہ متابعۃ المشی اصوب‘‘(ترجمہ: یعنی امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول پر (فتویٰ ہے، اور ثخین وہ ہے کہ کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر ٹھہر جائے) تمام فقہا نے اس کی یونہی وضاحت کی ہے، لیکن مناسب ہے کہ اس کے ساتھ تنگ نہ ہونے کی قید لگائی جائے، کیونکہ ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جو جراب تنگ ہو وہ باندھے بغیر بھی پنڈلی پر ٹھہر جاتی ہے اور اس موزےکی تعریف یوں کرنا کہ وہ پانی کو جذب نہ کرے یہ اقرب ہے اور ان الفاظ سے تعریف کرنا کہ ان کے ساتھ لگاتار چلنا ممکن ہو،زیادہ درست ہے۔)
وقدذکر نجم الدین الزاھدی عن شمس الائمۃ الحلوانی ان الجوارب من الغزل والشعر ماکان رقیقا منھا لایجوز المسح علیہ اتفاقا الاان یکون مجلدا اومنعلا وماکان ثخینا منھا فان لم یکن مجلدا اومنعلا فمختلف فیہ وماکان فلاخلاف فیہ اھ‘‘ ملتقطا۔نجم الدین زاہدی نے شمس الائمہ حلوانی سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا کہ اُون اور بالوں سے بنی ہوئی جرابیں پتلی ہوں،تو بالاتفاق ان پر مسح جائز نہیں، جب تک وہ مجلّد یا منعل نہ ہوں اور اگر وہ (دبینر ہوں تو ان میں سے جو مجلّد اور منعل نہ ہوں ان پر مسح کرنے میں اختلاف ہے جبکہ مجلّد اور منعل میں کوئی اختلاف نہیں، انتہی انتخاباً۔ (ت)“(فتاوی رضویہ، جلد04، صفحہ346و347، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟