مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3276
تاریخ اجراء:15جمادی الاولیٰ1446ھ/18نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
پانی نہ ملنے کی صورت میں یا بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرکے جو نمازیں پڑھی جائیں ان کا اعادہ نہیں ہوتا،جبکہ اگر وقت تنگ ہو اور وضو کرنے کی صورت میں نماز کے نکل جانے کا اندیشہ ہوتو ایسا شخص تیمم کرکے نماز پڑھے گا لیکن بعد میں اعادہ بھی کرے گا،سوال یہ ہے کہ پہلی صورت اعادہ لازم نہ ہونے، جبکہ دوسری صورت میں اعادہ لازم ہونے کی کیا وجہ ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ا صول یہ ہے کہ جس عذر کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے،اگر وہ عذر اللہ عزوجل کی طرف سے ہو ،بندے کا اس میں کچھ دخل نہ ہو تو ایسے عذر کے سبب تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوتا،جبکہ اگر وہ عذر بندے کی طرف سے ہو تو نماز کا اعادہ لازم ہوتا ہے۔ اب اس اصول کی روشنی میں دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورت یعنی جو ایسی جگہ ہو کہ جہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی نہ ہو اور پانی کے نہ ملنے کے سبب تیمم کرکے نماز پڑھے، یا جو بیماری کے عذر کی وجہ سے وضو نہ کرسکے اور تیمم کرکے نمازپڑھ لے،تو چونکہ پانی کا نہ ملنا،یا بیماری کا عذر بندے کی طرف سے نہیں ،لہذا ان صورتوں میں تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز کا اعادہ بھی واجب نہیں،جبکہ دوسری صورت یعنی اس حد تک وقت کا تنگ ہوجانا کہ وضو کرکے نماز نہ پڑھی جاسکے،تو چونکہ یہ تاخیر والا عذر بندے کی طرف سے واقع ہے، لہذا ا س عذر کے سبب تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز کا اعادہ بھی لازم ہے۔
تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز کا اعادہ کب واجب ہوگا اور کب نہیں،اس کے متعلق اصول بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ بحر الرائق میں ارشاد فرماتے ہیں:’’أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة وإن كان من قبل العبد وجبت الإعادة‘‘ترجمہ:عذر اگر اللہ عزوجل کی طرف سے ہو تو نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوگا،اور اگر عذر بندے کی طرف سے ہو تو اعادہ واجب ہوگا۔(بحر الرائق،جلد1،صفحہ149،دار الکتاب الاسلامی)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’اعلم أن المانع من الوضوء إن كان من قبل العباد: كأسير منعه الكفار من الوضوء، ومحبوس في السجن، ومن قيل له إن توضأت قتلتك جاز له التيمم ويعيد الصلاة إذا زال المانع كذا في الدرر والوقاية۔۔۔ وأما إذا كان من قبل الله تعالى كالمرض فلا يعيد‘‘ ترجمہ:جان لو کہ وضو سے رکاوٹ بننے والی چیز اگر بندے کی طرف سے ہو جیسا کہ قیدی جسے کفار نے وضو سے منع کردیا ہو اور جیل میں قید شخص،اور وہ شخص کہ جسے کہا گیا ہو کہ اگر تو نے وضو کیا تو میں تجھے قتل کردوں گا،تو اس کیلئے تیمم جائز ہے،اورجب عذر زائل ہوجائے گا تو وہ نماز کا اعادہ کرے گا،اسی طرح درر اور وقایہ میں ہے،اور بہرحال جب رکاوٹ بننے والی چیز اللہ عزوجل کی طرف سے ہو جیسا کہ مرض تو اعادہ نہیں کرے گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد1،صفحہ235،دار الفکر،بیروت)
رد المحتار میں ہی ہے’’تأخيره إلى هذا الحد عذر جاء من قبل غير صاحب الحق، فينبغي أن يقال يتيمم ويصلي ثم يعيد الوضوء كمن عجز بعذر من قبل العباد‘‘ترجمہ:نماز کی اس حد تک تاخیر ایسا عذر ہے جو غیر صاحب حق کی جانب سے رُونما ہوا ہے،تو اس کے جواب میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے، پھر وضو کرکے اعادہ کرے جیسے وہ شخص جو بندوں کی جانب سے پیدا ہونے والے کسی عذر کی وجہ سے وضو پر قادر نہ ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد1،صفحہ246،دار الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟