Tote Ki Qay (Ulti) Pak Hai Ya Napak ?

طوطے کی قے (الٹی) پاک ہے یا ناپاک؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13092

تاریخ اجراء:        21 ربیع الثانی 1445 ھ/06 نومبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے طوطے کو جب کوئی کھانے کی چیز  دی جائے، توکبھی کبھی وہ  کھانے کے کچھ دیر بعد الٹی کر دیتا ہے اور اس کی الٹی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پنجرے کا نچلا حصہ بالکل گندہ کردیتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کی الٹی پاک ہے یا ناپاک؟ اور اس صورت میں پنجرے کو کس طرح پاک کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   طوطا اونچا اڑنے والے حلال پرندوں میں سے ہے اور اونچا اڑنے والے حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہوتی ہے اور جن پرندوں کی بیٹ پاک ہوتی ہے ،ان کی قے بھی پاک ہوتی ہے لہٰذا طوطے کی قے(الٹی) بھی پاک ہے  ۔  قے سے مراد وہ کھانا ،پانی ہے جو پوٹے میں پہنچنے کے بعد واپس باہر آجائے کہ جس جانور کی بیٹ ناپاک نہیں تو اس کا پوٹا بھی نجاست کی جگہ نہیں قرار پائے گا ،لہٰذا اگر طوطے نے کچھ کھایا پی  کر قے کر دی، تو وہ ناپاک نہیں ،اس کی وجہ سے پنجرہ بھی ناپاک نہیں ہوگا کہ اسے مخصوص طریقہ سے پاک کرنا ضروری ہو، البتہ نظافت و صاف ستھرائی کا لحاظ کرنا طبیعتِ سلیمہ کا تقاضا ہے  اس لئے جس طرح  بھی ممکن ہو پنجرے کو صاف کردیا جائے۔

   طوطا کھانا حلال ہے۔ اس کے متعلق شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”الببغاء طائر احسن الصورۃ واللون یقال لہ طوطی اکثرہ اخضراللون زنجاری۔۔۔۔حکمہ: خوردن  طوطی بمذھب امام ابو حنیفۃ کوفی حلال است“یعنی طوطا ایک اچھی صورت و اچھے رنگ والا پرندہ ہے، اس کو طوطی کہا جاتا ہے ان میں زیادہ کا رنگ سبز زنجاری ہوتا ہے۔۔۔ اس کا حکم: امام ابو حنیفہ کوفی(رحمۃ اللہ علیہ)کے مذہب کے مطابق طوطی کھانا حلال ہے۔(فاکھۃ البستان، صفحہ 344۔345، مطبوعہ:بیروت)

   فقیہ اعظم مولانا مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”طوطاقواعد و ضوابطِ شریعتِ پاک کی رو سے بلاشبہ حلال ہے اور حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ اور بکثرت دیگر آئمہ کرام کے نزدیک بھی حلال ہے“(فتاوی نوریہ ، جلد 3، صفحہ 417، دارالعلوم حنفیہ، فریدیہ، بصیر پور)

   اونچا اڑنے والے حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے۔اس کے متعلق حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:”اما ما یذرق فی الھواء فما یوکل کالحمام والعصفور فخرؤہ طاھر“یعنی جو پرندے ہوا میں بیٹ کرتے ہیں ،تو  (ان میں سے) جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جیسے کبوتر و چڑیا تو ان کی بیٹ پاک ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 155، مطبوعہ:بیروت)

   درِ مختار میں ہے:”ما یذرق فیہ فان ماکولا فطاھر والا مخفف“یعنی جو پرندہ ہوا میں بیٹ کرتا ہے، تو اگر وہ کھایا جانے والا ہو ، تو(اس کی بیٹ) پاک ہے ورنہ نجاستِ خفیفہ۔(الدر المختار ، جلد 1، صفحہ 577، مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی والوالجیۃ میں ہے:” مرارۃ کل شیئ کبولہ وکل حکم ظھر فی البول فھو الحکم فی المرارۃ “ہر چیز کا پتا اس کے پیشاب کی طرح ہے، پس ہر وہ حکم جو پیشاب میں ظاہر ہوگا ، وہی حکم پتے کے متعلق ہوگا۔(فتاوی والوالجیۃ،جلد1،صفحہ 46،مطبوعہ:بیروت)

   شیخ الاسلام والمسلمین امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”ہر جانور کی قے اس کی بیٹ کا حکم رکھتی ہے جس کی بیٹ پاک ہے جیسے چڑیا یا کبوتر، اس کی قے بھی پاک ہے۔ اور جس کی نجاست خفیفہ جیسے باز یا کوّا، اُس کی قے بھی نجاست خفیفہ۔ اور جس کی نجاست غلیظہ ہے جیسے بط یا مرغی، اس کی قے بھی نجاست غلیظہ۔ اور قے سے مراد وہ کھانا پانی وغیرہ ہے جو پوٹے سے باہر نکلے کہ جس جانور کی بیٹ ناپاک ہے اس کا پوٹا معدن نجاسات ہے ، پوٹے سے جو چیز باہر آئے گی خود نجس ہوگی یا نجس سے مل کر آئے گی بہرحال مثل بیٹ نجاست رکھے گی خفیفہ میں خفیفہ، غلیظہ میں غلیظہ“(فتاوی رضویہ، جلد 4،صفحہ 390، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم