Sone Ke Liye Tayammum Karna Kaisa Jabke Pani Maujud Ho?

 

سونے کے لیے تیمم کرنا کیسا جبکہ پانی موجود ہو ؟ تفصیلی فتوی

مجیب:مفتی   محمد قاسم  عطاری

فتوی نمبر: Sar-7895

تاریخ اجراء: 28 ذی القعدۃ الحرام    1443ھ/28 جون  2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ پانی موجود ہونے کے باوجود باطہارت سونے کے لیے تیمم کرسکتے ہیں یا نہیں؟ بہارِ شریعت میں اجازت ، جبکہ فتاویٰ رضویہ  میں  ممانعت کا حکم ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فتاویٰ رضویہ شریف میں بیان کردہ مسئلہ ہی دُرست اور حدیثِ پاک سے مؤید  اُصول  کے مطابق ہے  ، چنانچہ مسئلہ شرعیہ یہ ہےکہ  پانی موجود ہونے کے باوجود  باطہارت سونے کے لیے  تیمم نہیں  کیا جا سکتا ، اگر کیا ، تو ایسا تیمم لغو و باطل ہو گا ، یہی  اصلِ مذہب  ہے اور سونے کے لیے تیمم کو دُرست  قرار دینا ، خلاف ِ مذہب ہے، لہٰذا یہ قول قابل ِعمل نہیں ۔

مسئلہ  کی تفصیل:

   در اَصل تیمم ،   وضو و غسل کا نائب و خلیفہ ہے  ،اس کی  مشروعیت و اجازت تب ہی  ہوتی ہے  جبکہ  پانی سے  وضو و غسل  پر قدرت نہ ہو ، خواہ حقیقی طور پر ہو   (یعنی پانی ہی  نہ  ہو ) یا حکمی طور پر ، یوں کہ پانی تو موجو د ہو ، مگر لینے یا استعمال  کرنے پر قدرت نہ ہو ، مثلاً :ظالم کا خوف ہو ، عورت کو اپنی عزت و آبرو پر  فتنے  کا خوف ہو یا ایسی سخت سردی  ہو کہ   پانی استعمال کرنے سے  جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو ، وغیرہا ، نیز  فقہائے  کرام نے  اِسی حکماًعجز  میں اس صورت کو بھی بیان  کیا کہ  ایسا عمل جس کا کوئی بدل نہ ہو اور  پانی سے وضو و غسل کرنے میں اس عمل کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو ، اگرچہ اس کے لیے طہارت شرط نہ ہو ،   تو کچھ  مستثنیٰ کاموں(تہجد ،  اشراق و چاشت وغیرہما)   کے علاوہ ، ایسے عمل کے لیے پانی  ہونے کے باوجود  تیمم کرنا ،جائز ہے ، کہ ایسی صورت میں گویا حکمی طور پر پانی  کے استعمال سے ہی  عاجز ہے ، جیساکہ عذر کی صورت میں   نمازِ جنازہ و عیدین    اور  سلام کے  جواب وغیرہ  کے لیے  پانی ہوتے ہوئے تیمم کرنا  اور اِس اُصول  کی تائید خود نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل ِمبارک سے   ہوتی ہے ، کیونکہ   ایک موقع پر  نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے عذر کی وجہ سے سلام کا  جواب دینے کے لیے تیمم کیا اور سلام کا جواب  بھی ایسا عمل ہے  جس  کا کوئی بدل نہیں اور وضو کرنے کی  صورت میں اس کے فوت ہونے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں تیمم کا جواز ثابت ہو گا ۔

   اس تفصیل سے یہ واضح ہو گیا  کہ پانی ہوتے ہوئے  باطہارت سونے  کے لیے تیمم کرنا  کسی بھی اعتبار سے بیان کردہ اُصول  کے تحت نہیں  آتا ، اس لیے  پانی ہونے کے باوجود اگر کسی نے  سونے کے لیے تیمم کیا ، تو لغو و باطل ہو گا، یہی قول مُحقَّقْ  ہے  ۔

بہار شریعت میں موجود مسئلے   کے متعلق تحقیق وتنقیح :

   کلمات ِ فقہا  کے تتبع سے  جو واضح ہوا وہ یہ ہےکہ  غالبابہارِ شریعت میں بحر وغیرہ کے جزئیہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ بیان کر دیا گیا ، جبکہ   بحر میں بھی  یہ مسئلہ  بلا دلیل اور اصل ِمذہب کے خلاف بیان ہوا ہے، یہی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی  تحقیق  ہے  ، نیز اِس کی دلیل جو صاحب بحرنے اور ان کی اتباع میں صاحب ِدر اور علامہ حلبی اورعلامہ طحطاوی علیھم الرحمۃ نے بیان فرمائی ، آپ علیہ الرحمۃ نے  اُسے ناکافی قرار دیاہے ۔

   بہار شریعت میں بیان کردہ مسئلہ یہ ہے : ’’سلام کا جواب دینے یا دُرود شریف وغیرہ وظائف پڑھنے یا سونے یا بے وُضو کو مسجد میں جانے یا زبانی قرآن پڑھنے کے لیے تیمم جائز ہے، اگرچہ پانی پر قدرت ہو۔‘‘ (بھار شریعت ، جلد1  ، حصہ 2 ، صفحہ 351، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   تفصیل :صدر  الشریعہ علیہ الرحمۃ  نے جن چیزوں کو اس مسئلے میں ذکر  کیا اُن میں سے صرف پہلی  بات ، یعنی سلام کا جواب  دینے کے لیے تیمم جائز ہے ، بقیہ جن چیزوں کو ذکر کیا ان سب کے لیے پانی ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں  ہے ،  جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا کہ غالباً یہاں  بہار شریعت میں سونے اور  بقیہ چیزوں کےلیے تیمم کے  جواز کا حکم بحر الرائق  کی اس عبارت کو مستدل بنانے کی وجہ سے ہے ، جس کو  صاحب ِ بحر  نے اصول کے طور پر   بیان کیا  ،  وہ  عبارت یہ ہے :’’وهو أن ما ليست الطهارة شرطا في فعله وحله، فإنه يجوز ‌التيمم له مع وجود الماء كدخول المسجد للمحدث‘‘یعنی ہر وہ عمل جس کے کرنے اور حلال ہونے کےلیے  طہارت شرط نہ ہو   ، تو پانی   ہونے کے باوجود اس کےلیے  تیمم کرنا ،جائز ہے ، جیسا کہ مسجد میں داخل ہونا ۔ اِس اُصول کی بنیاد پر صاحب ِ بحر نے پانی موجود  ہونے کے باوجود سونے کے لیے تیمم جائز قرار دیا  کہ  سونے کےلیے  بھی طہارت ضروری نہیں ہوتی  ، لہٰذا اگر کوئی شخص پانی  ہونے کے باوجود  تیمم کر لے  ، تو جائز ہے ،  نیز اِنہی کی اتباع میں صاحب ِ درمختار و   علامہ طحطاوی  علیہما الرحمۃ وغیرہ نے بھی یہی نقل کر دیا ، حالانکہ  فقہائے کرام نے فرمایا : صاحبِ بحر   کا یہ دعوی  چند وجوہ سے درست نہیں   :

   (1)  صاحبِ بحر   کا یہ  دعوی  بلا دلیل   ہے، جیساکہ علامہ شامی علیہ الرحمۃنےبیان کیا  ۔

   (2)  اور یہ بحث خلاف ِ مذہب ہے ، اس لیے مقبول نہیں ، جیساکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃنے واضح کیا۔

   (3)  اور صاحبِ بحر نے  اپنی تائید میں جو جزئیہ نقل کیا  ، وہ قول ہی محتمل ہے اور محتمل بات کو بطورِ دلیل ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ تفصیل  نیچے  جزئیات  کے ساتھ  آرہی ہے ۔ 

اب بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے :

   تیمم کی مشروعیت و اجازت تب ہی  ہوتی ہے  جبکہ  پانی سے  وضو و غسل  پر  حقیقتاً  یا حکماً قدرت نہ ہو ، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:وأما شرائط الركن فأنواع منها: أن لا يكون واجدا للماء قدر ما يكفي الوضوء أو الغسل... ثم عدم الماء نوعان: عدم من حيث الصورة  و المعنى، وعدم من حيث المعنى لا من حيث الصورة۔أما العدم من حيث الصورة والمعنى فهو أن يكون الماء بعيدا عنه... وأما العدم من حيث المعنى لا من حيث الصورة فهو أن يعجز عن استعمال الماء لمانع مع قرب الماء منه ترجمہ : تیمم کے رُکن کی بہت سی شرائط ہیں ،  جن میں سے ایک یہ ہے کہ وضو یا غسل کے لیے بقدرِ کفایت  پانی ہی نہ پائے ،... پھر پانی نہ ہونے  کی دو صورتیں ہیں : (ایک یہ کہ ) صورۃ ً اور معنیً دونوں اعتبار سے پانی نہ  ہو اور (دوسری یہ کہ ) صورۃً موجود ہو ، لیکن معنیً معدوم ہو ۔ بہر حال صورۃً اور معنیً معدوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پانی بہت دور ہو ...اور  صرف معنیً معدوم  ہونے کا مطلب یہ ہےکہ  پانی تو موجود ہو ، مگر کسی  مانع کی وجہ سے اس کو استعمال کرنے سے عاجز ہو ۔ (بدا ئع الصنائع، کتاب الطھارۃ ،فصل التیمم ، جلد1، صفحہ315 - 317 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   اور عجز کی ایک صورت  یہ بھی ہے کہ ایسا عمل جس کا کوئی بدل نہ ہو اور پانی سے طہارت حاصل کرنے میں اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو ، تو کچھ  مستثنیٰ کاموں   کے علاوہ ، ایسے عمل کے لیے پانی  ہونے کے باوجود تیمم کرنا، جائز ہے ، کیونکہ ایسی صورت میں گویا حکماً پانی موجود ہی نہیں ہوتا ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:وأصل مشروعية التيمم إنما هي عند فقد الماء بالنص وما يخاف فوته لا إلى بدل فيه معنى فقد الماء حكما أما ما سواه فلا فقد فيه أصلا فلا يجوز فعلهترجمہ : اور نص سے تیمم کی اصل مشروعیت  ثابت ہی اس صورت میں  ہے  جب پانی نہ ہو   اور جب ایسا عمل فوت ہو رہا ہو جس کا کوئی بدل نہ ہو ، تواس میں حکماً پانی نہ ہونا ہی پایا جارہا ہوتا ہے  ، بہر حال اس کے علاوہ جو بھی صورت ہے ، اس میں اصلاً  فقدان الماء پایا ہی نہیں جاتا   ،  لہٰذا اس کے  لیے  تیمم کرنا   بھی جائز نہیں ہوگا۔ (منحۃ الخالق علی بحر الرائق، کتاب الطھارۃ ، باب  التیمم ،جلد1، صفحہ265، مطبوعہ کوئٹہ)

   اوپر بیان کردہ اُصول کے تحت  یہ جزئی   بھی آتی ہے   کہ اگر کسی شخص نے سلام کیا اور یہ باطہارت جواب دینا چاہتا ہے  اور وضو یا غسل کرنے میں اُس کے دُور نکل جانے اور جواب ِ  سلام کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو ، تو فوری فوری تیمم کرکے اُس کو سلام کا جواب دے سکتاہے  اور  اس کا ثبوت نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کے عملِ مبارک سے  بھی ملتا ہے ، گویا اِس اصول کی  تائید  حدیث پاک سے ہوتی ہے  ، بلکہ علامہ علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے مندرجہ ذیل حدیث پاک  سے  ہی اوپر ذکرکر دہ اصول کو ثابت کیا ہے  ۔

   چنانچہ  حدیث پاک میں  ہے : مر رجل على رسول اللہ  صلى اللہ  عليه وسلم في سكة من السكك، وقد خرج من غائط أو بول فسلم عليه، فلم يرد عليه حتى إذا كاد الرجل أن يتوارى في السكة  ، ضرب بيديه على الحائط ومسح بهما وجهه، ثم ضرب ضربة أخرى فمسح ذراعيه، ثم رد على الرجل السلام  وقال: إنه لم يمنعني أن أرد عليك السلام إلا أني لم أكن على طهر ترجمہ :  ایک شخص  گلی میں نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے گزرے ، دراں حال کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقضائے حاجت سے فارغ ہو کر نکلے تھے ، تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام عرض کیا ، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب نہ دیا ، حتی کہ قریب تھا کہ وہ صاحب گلی سے گزر  جاتے  ،  تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوارپر لگایا اور ان سے اپنے چہرہ مبارک کا مسح فرمایا پھر دوسری بار لگایا اور اپنے بازوں کا مسح فرمایا (یعنی تیمم فرمایا )پھر   اُنہیں سلام کا جواب دیااور ارشاد فرمایا: مجھے جواب دینے سے مانع نہ ہوا  ، مگر یہ کہ اُس وقت میرا  وضو نہ تھا۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الطھارۃ ، جلد 1، صفحہ 90، مطبوعہ  المکتبۃ العصریہ،  بیروت )

   مذکورہ بالا حديث  پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ /1605ء) لکھتے ہیں:’’وفيه دليل …على أن التيمم في الحضر لرد السلام مشروع…قلت: وفي الحديث دليل على جواز التيمم ،  لخوف فوت ما يفوت لا إلى خلف كصلاة الجنازة والعيد ترجمہ: حدیث پاک میں اس بات کی دلیل ہے کہ حضر میں  بھی  (حالتِ سفر نہ بھی ہو ، تب بھی ) سلام کا جواب دینے کے لیے تیمم مشروع ہے   ، میں کہتاہوں    :اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ ہر وہ عمل  جس کا بدل نہ ہو اور اس کے فوت ہونے کا خوف ہو ، مثلاً نماز ِ جنازہ اور نماز ِ عید ، تو اس  کےلیے تیمم کرنا ،جائز ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطھارہ ، جلد2، صفحہ443، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

   ہر ایساعمل جس کا بدل نہ ہو اور   اس کے فوت  ہونے کا خوف ہو ،   اس میں سےایک  جنازے کا  نکل جانا بھی ہے  ، لہٰذا  اگر وضو کرنے میں اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو ، تو تیمم کرنا، جائز ہے ، چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق دلائل نقل کرتے ہوئے ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/ 1191ء) لکھتے ہیں:(ولنا) ما روي عن ابن عمر رضي اللہ  عنهما أنه قال: إذا فجأتك جنازة تخشى فوتها وأنت على غير وضوء ، فتيمم لها، وعن ابن عباس  رضي  اللہ عنهما  مثله ،  ولأن شرع التيمم في الأصل لخوف فوات الأداء، وقد وجد ههنا بل أولىترجمہ : اور ہماری دلیل حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی  یہ   روایت ہے   ،  آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جب اچانک جنازہ آجائے  اور تیرا وضو نہ ہو  اور تجھے  (وضو کرنے میں ) اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو  ، تو اس کے لیے تیمم کر  لے،  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے بھی یونہی مروی ہے ، نیز یہ بھی دلیل ہے  کہ اصل میں تیمم  مشروع ہی اس لیے ہوا  ہے کہ ادا کے فوت ہونے کا خوف ہو اور یہاں یہ اُصول بدرجہ اَولیٰ ثابت ہو رہا ہے ۔ (بدا ئع الصنائع، کتاب الطھارہ،فصل فی  التیمم ، جلد1،صفحہ329،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ہر عبادت فرض یا واجب یا سنّت کہ پانی سے طہارت کرے ،  تو فوت ہوجائے گی اور اس کا عوض کچھ نہ ہوگا ،  اُس کے لیےتیمم کرسکتا ہے……فوت بلاعوض کی بہت صورتیں ہیں، مثلاً:……بے وضو خصوصاً جنب ہے اور کسی نے سلام کیا یا کوئی سامنے آیا اور خود اُسے سلام کرنا ہے اور سلام نامِ الٰہی عزوجل ہے،  بے طہارت لینا نہ چاہا اور وضو کرے ، تو سلام فوت ہوتا ہے کہ جواب  میں اتنی دیر کی اجازت نہیں اور سلام بھی ابتدائے لقا پر ہے ،  نہ بعد دیر ،  لہٰذا اجازت ہے کہ تیمم کرکے جواب دے یا سلام کرے ، مسئلہ جواب خود فعلِ اقدس حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابت کہ ایک صاحب گزرے حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام کیا حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب نہ دیا ، یہاں تک کہ قریب ہوا وہ گلی سے گزر جائیں ، حضور نے تیمم فرماکر جواب دیا اور ارشاد فرمایا :’’انہ لم یمنعنی ان ارد علیک السلام الا انی لم اکن علی طھر‘‘ یعنی ہم کو جواب دینے سے مانع نہ ہوا  ، مگر یہ کہ اس وقت وضو نہ تھا ۔’’رواہ ابو داؤد عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما ، قال المحقق الحلبی فی الحلیۃ سکت علیہ ابوداؤد ،  فھو حجۃ‘‘ اور ابتدائے سلام( کا حکم ) اُس پر قیاس کرکے زیادتِ ائمہ کرام ہے ، بحر میں ہے :’’المذھب ان التیمم للسلام صحیح ‘‘یعنی مذہب یہ ہے کہ سلام کے لیے تیمم درست ہے۔  (فتاوی رضویہ ، جلد 3 ، صفحہ 425- 427 ، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن  ، لاھور )

   اور جہاں اوپر ذکرکردہ اُصول متحقق  نہ ہو ، تو ایسی صورت میں تیمم کرنا ،جائز نہیں ، جیساکہ قرآن کریم کو چھونا اور مسجد میں داخل ہونا وغیرہ ایسا عمل ہے جو بغیر بدل   کے فوت ہونے کے تحت نہیں آتا ، لہٰذا اس کے  لیے تیمم کرنا ، جائز  نہیں ، چنانچہ حلبی کبیر اور  حلبی صغیر میں ہے  ، واللفظ للآخر :(ولو تيمم لمس المصحف أو لدخول المسجد عند وجود الماء أو القدرة) على استعماله (فذالك التيمم ليس بشيء) معتبر في الشرع بل هو عدم ، لأن التيمم إنما يجوز ويعتبر عند العجز عن استعمالہ  الماء حقيقة أو حكما كخوف الفوت لا إلى خلف ومس المصحف ودخول المسجد ليس عبادة يخاف فوتها ترجمہ : پانی ہوتے ہوئے یا اس کے استعمال  پر قدرت ہونے کے باوجود اگر قرآن کریم کو   چھونے یا مسجد میں داخل ہونے  کے لیے تیمم کیا  ، تو ایسا تیمم شرع میں معتبر نہیں ، بلکہ وہ معدوم یعنی  لغو ہے ، کیونکہ  تیمم اسی صورت میں جائز اور معتبر ہے جب پانی استعمال کرنے سے حقیقۃ ً یا حکماً عجز پایا جائے ، جیساکہ کسی بلا بدل  عمل کے فوت ہونے کا اندیشہ ہونا   اور مصحف شریف کو چھونا اور مسجد میں داخل ہونا ،دونوں ایسی عبادتیں نہیں ہیں  کہ جن  کے فوت ہونے کا خوف ہو ۔ (حلبی صغیر ، فصل فی التیمم ، صفحہ 42، مطبوعہ دار سعادات  )

   باطہارت سونے کے لیے  پانی  ہوتے ہوئے  تیمم کرنا  ایسا عمل نہیں کہ جس میں بغیر بدل   کے عمل فوت ہونے کا اندیشہ ہو  ، لہٰذا اس کے لیے بھی تیمم نہیں کیا جا سکتا ، چنانچہ اِسی اصول کو بیان کر کے سونے کے لیے تیمم کی ممانعت کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:ان التيمم إنما يجوز ويعتبر  في الشرع  عند عدم الماء حقيقة أو حكما ولم يوجد واحد منهما فلا يجوز، فيفيد أن التيمم لما لم تشترط له الطهارة غير معتبر أصلا مع وجود الماء إلا إذا كان مما يخاف فوته لا إلى بدل، فلو تيمم المحدث للنوم أو لدخول المسجد مع قدرته على الماء فهو لغو، بخلاف تيممه لرد السلام مثلا،  لأنه يخاف فوته،   لأنه على الفور ولذا فعله  صلى اللہ  عليه وسلم و ھذا الذی ینبغی التعویل علیہ ترجمہ:  تیمم اسی صورت میں جائز اور معتبر ہے جب پانی حقیقۃ ً یا حکماً  موجود نہ ہو اور جہاں یہ دونوں صورتیں ہی موجود نہ ہوں ،  توتیمم جائز نہیں ہو گا ، اس اصول  سے اس بات کا افادہ ہوا کہ  ایسی عبادت جس   کےلیے طہارت شرط نہ ہو  ،  پانی موجود ہونے کے باوجود اس کے لیے تیمم کرنا معتبر نہیں ، سوائے اس  کے وہ بِنا کسی  بدل کے  فوت ہونے والا عمل ہو ، لہٰذا جس کو حدث لاحق ہوا اگر اس نے  پانی پر قدر ت  ہونے کے باوجود  سونے یا مسجد میں داخل ہونے کے لیے تیمم کیا ، تو اس کا تیمم لغو ہوگا ، بخلاف سلام کا جواب کے لیے تیمم کرنے والے کے کہ اس کا عمل(  وضو کرنے کی صورت میں ) فوت ہو رہا ہے ، کیونکہ جواب ِ سلام علی الفور لازم ہے ، اسی وجہ سے نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے بھی سلام کا جواب دینے کے لیے تیمم فرمایا  اوراسی پر اعتماد کیا جانا چاہیے ۔ (ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب  الطھارۃ  ،باب  التیمم  ، جلد1، صفحہ459، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اور سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /1921ء) لکھتے ہیں:لاتیمّم مع وجدان الماء الالفائت لاالی خلف کرد سلام والصلاتین کماتقدم اما النوم ونحوہ فلا ،کما حققہ الشامی مخالفا لمافی البحر والدرترجمہ : پانی دستیاب ہونے کے باوجود تیمم صرف ایسی چیز کے لئے ہو سکتا ہے  جو فوت ہوجائے  ، تو اس کا کوئی بدل نہ ہو  ، جیسے جواب ِ سلام اور نماز جنازہ وعیدین، جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے  ، بہر حال سونے یا ایسے اور کسی کام کے لیےپانی ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں۔ جیسا کہ بحرالرائق اور درمختار کی مخالفت کرتے ہوئے علامہ شامی نے اس کی تحقیق کی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد 3 ، صفحہ 543 ، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن  ، لاھور )

   ایک  اور مقام پر سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں: پانی نہ ہونے کی حالت میں بے وضو نے مسجد میں ذکر کے لیے بیٹھنے بلکہ مسجدمیں سونے کے لیے کہ سرے سے عبادت ہی نہیں یاپانی ہوتے ہُوئے سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر یا مس مصحف یا باوجود وسعتِ وقت نماز پنجگانہ یا جمعہ یا جنب نے تلاوتِ قرآن کے لیے تیمم کیا لغو وباطل وناجائز ہوگا  کہ ان میں سے کوئی بے بدل فوت نہ ہوتا تھا،یونہی ہماری تحقیق پر (یہ تحقیق فتاوی رضویہ جلد3، صفحہ 429 پر موجود ہے ) تہجد یا چاشت یا چاند گہن کی نماز کے لیے  اگرچہ اُن کا وقت جاتا ہو کہ یہ نفل محض ہیں سنّتِ مؤکدہ نہیں ،  تو باوجودِآب  ، زیارتِ قبوریا عیادتِ مریض یا سونے کیلئے تیمم بدرجہ اَولیٰ لغو ہے۔ ……اقول:یہاں سے ظاہر ہوا کہ یہ چیزیں ہماری تعریف پر نقض نہیں ہوسکتیں کہ کوئی کہے دیکھو ان کیلئے تیمم صحیح ہے اور پانی سے عجز نہیں۔ نہیں نہیں تیمم وہیں صحیح ہوگا جہاں پانی سے عجز ہے ،  اگرچہ اسی طرح کہ پانی سے طہارت کرنے میں مطالبہ شرعیہ بلابدل فوت ہُوا جاتا ہے یہ بھی صورتِ عجز ہے کماتقدم ۔(فتاوی رضویہ ، جلد 3 ، صفحہ 557 ، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن  ، لاھور )

اب پہلے بحر  الرائق  کی   عبارت اور تائیدی جزئیہ  ملاحظہ  کیجیے ، پھر  اس کا  جواب   بیان کیا جائے گا:

   صاحبِ بحر  الرائق ،  علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:وهو أن ما ‌ليست ‌الطهارة شرطا في فعله وحله، فإنه يجوز التيمم له مع وجود الماء كدخول المسجد للمحدث ، ولهذا قال في المبتغى ويجوز التيمم لدخول مسجد عند وجود الماء وكذا للنوم فيه  ترجمہ : ہر وہ عمل جس کے کرنے اور حلال ہونے کےلیے  طہارت شرط نہ ہو   ، تو اس کےلیے پانی   ہونے کے باوجود تیمم کرنا جائز ہے  جیساکہ محدث کا مسجد میں داخل ہونے  کے لیے تیمم کرنا  ، اسی وجہ سے مبتغیٰ میں کہا  : اور  پانی ہونے کے  باوجود مسجد میں داخل ہونے اور اس میں سونے کے لیے تیمم کرنا ،جائز  ہے۔(بحر الرائق،کتاب الطھارۃ ،باب التیمم ، جلد1،صفحہ263،مطبوعہ کوئٹہ)

   صاحبِ بحر نے جس کتاب کاحوالہ ذکر کیا وہ علامہ عيسى بن محمد بن إينانج، القِرْشَهْری  الحنفی(سالِ وفات : 734ھ )  کی کتاب"  المبتغی  " ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں :ویجوز  التیمم لدخول مسجد  عند وجود الماء  وکذا للنوم  فیہ۔ ‘‘ (المبتغی ، باب التیمم ، صفحہ 13 ، المخطوطۃ)

بحر الرائق  کے جزئیے کا مُفصّل  جواب:

   صاحبِ بحر ، علامہ ابن نجیم حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے جس اصول کو  ذکر کیا  وہ مطلق ہر  جگہ نافذ نہیں ہو گا ، ہاں ہر وہ عمل جو بلا بدل فوت ہو رہاہو اور وہ بلا طہارت بھی جائز ہو ،   توفقط وہاں قابل عمل ہو گا، سوائے  کچھ کاموں  کے کہ  وہ اس سے مستثنیٰ  ہیں ، وگرنہ مطلقاً یہ دعویٰ کرنا  کہ ہر وہ عمل جو بلا طہارت جائز ہو ، اس کے لیے پانی ہوتے ہوئے بھی تیمم کرنا جائز ہے ، یہ دعویٰ  بلا دلیل و  خلافِ مذہب  ہے  اور   اصل اُصول سے متصادم بھی ہے، چنانچہ علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   نے اس اصول کے تحت اولاً لکھا :  محلُ بحثٍ کما تطلع  یعنی یہ اصول محل ِ بحث ہے  ، پھر مزید آگے ایک  مقام پر لکھا : فیھا نظر یعنی یہ اصول محلِ نظر ہے ۔  نیز صاحبِ بحر  نے مبتغی کے جس محتمل جزئیے کو نقل کیا  ، اس کی عبارت  کو ذکر کر کے علامہ سراج الدين ابن نجیم  ، صاحبِ  نہر الفائق اور علامہ شامی  رحمۃ اللہ علیھما وغیرہ نے   کئی احتمالات بیان کیے اور ثابت  کیا مسئلہ  ما نحن فیھا میں یہ قول حجیت کے لائق نہیں ، چنانچہ  علامہ شامی رحمۃ اللہ علیھ لکھتے ہیں : صاحب ِ مبتغی کی عبارت تو تب دلیل بنے گی ، جب  بے وضو  مسجد میں داخل ہونے کے ارادے سے تیمم کرے ، کیونکہ اس   کے لیے طہارت شرط نہیں اور یہ مراد  بیان نہیں ہوئی اور  اگر ان کی مراد جنبی ہو ، تو صاحبِ بحر کی دلیل ویسے ہی  ساقط ہو  جائے گی ، کیونکہ اس  کےلیے بلا طہارت مسجد میں داخل ہونا ، جائز  ہی نہیں اور جنبی مراد لینے میں بھی  کئی احتمالات ہیں : یا تو پانی مسجد سے باہر ہو گا ، یہ صورت تو   باطل ہے ، کیونکہ پانی باہر موجود  ہو ، تو جُنْبی  کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے یا  پھر پانی مسجد کے اندر ہو گایہ قول صحیح تو ہے ، مگر یہ ان کی مراد ہونا عبارت سے بعیدہے  اور اس پر دلیل مبتغی کی عبارت  " وللنوم فیہ  " ہے  ، نیز اگر  یہ  کہا جائے کہ مراد بے وضو  کا مسجد میں سونے کے لیے تیمم کرنا ہے ، تو یہ بھی درست نہیں، کیونکہ مسجد میں نفسِ سونا تو کوئی عبادت ہی نہیں ہے ، جس  کے لیے تیمم کیا جائے ، خلاصہ کلام یہ  ہے کہ اس میں بہت سے احتمالات ہیں اور  صاحبِ بحر نے مبتغی کی عبارت کو جس  اصول پر دلیل بنانا چاہا،  اُس پر یہ عبارت صادق نہیں آتی ، لہٰذا  یہ  بطورِ حجت قابلِ  قبول نہیں ۔

   چنانچہ عبارت یہ ہے : وبيان الاستدراك أن الدليل إنما يتم بناء على إرادة الدخول للمحدث ليكون مما لا تشترط له الطهارة، وإذا كان مراده الجنب سقط الدليل ، لأنه لا يحل له الدخول بدونها، لكن كون المراد الجنب نظر فيه العلامة ح بأنه لا يخلو إما أن يكون الماء الموجود خارج المسجد وهو باطل أي لعدم جواز دخوله جنبا مع وجود الماء خارجه، وإما أن يكون الماء داخله وهو صحيح ولكنه بعيد من عبارته بدليل قوله وللنوم فيه… ولو كان نائما فيه فاحتلم والماء خارجه وخشي من الخروج يتيمم وينام فيه إلى أن يمكنه الخروج ، قال في المنية: وإن احتلم في المسجد تيمم للخروج إذا لم يخف، وإن خاف يجلس مع التيمم ولا يصلي ولا يقرأ، ويؤيد ما قلناه أن نفس النوم في المسجد ليس عبادة حتى يتيمم له وإنما هو لأجل مكثه في المسجد أو لأجل مشيه فيه للخروج ‘‘مفہوم اوپر گزر چکا ۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب  الطھارۃ  ،باب  التیمم  ، جلد1، صفحہ458، مطبوعہ  کوئٹہ)

   محقق شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ   نے منحۃ الخالق علی البحر الرائق میں صاحب ِ بحر وغیرہ کی بحث "دعوی بلا دلیل " ہونے پر  شاندار تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: فما ادعاه المؤلف من جواز التيمم مع وجود الماء في كل ما لا تشترط له الطهارة، …دعوى بلا دليل،  لأن عبارة المبتغى محتملة كما علمت وكيف وأصل مشروعية التيمم إنما هي عند فقد الماء بالنص وما يخاف فوته لا إلى بدل فيه معنى فقد الماء حكما أما ما سواه فلا فقد فيه أصلا فلا يجوز فعله قال في المنية ولو تيمم لمس المصحف أو لدخول المسجد عند وجود الماء والقدرة على استعماله فذلك التيمم ليس بشيء قال البرهان إبراهيم الحلبي في شرحها: لأن التيمم إنما يجوز ويعتبر في الشرع عند عدم الماء حقيقة أو حكما ولم يوجد واحد منهما  ، فلا يجوز ترجمہ : مؤلف ،  صاحب ِبحر کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہر وہ کام جس کے لیے طہارت شرط نہیں ، پانی موجود ہونے  کے باوجود  اس کے لیے تیمم  کرنا جائز  ہے ، یہ دعویٰ بلا دلیل ہے   ، کیونکہ مبتغیٰ کی عبارت محتمل ہے ، جیساکہ  توجان چکا اور یہ دعویٰ کیسے درست ہو سکتا ہے ، حالانکہ نص سے تیمم کی اصل مشروعیت  ثابت ہی اس لیے ہے کہ  جب پانی نہ ہو   اور تب کہ جب ایسا عمل فوت ہو رہا ہو کہ جس کا کوئی بدل نہ ہو ، تواس میں حکماً پانی نہ ہونا پایا جارہا ہوتا ہے ، بہر حال اس کے علاوہ جو بھی صورت ہے   ، اس میں اصلاً  فقدان الماء پایا ہی نہیں جاتا،  لہٰذا اُس کے  لیے  تیمم کرنا   بھی جائز نہیں ہوگا، چنانچہ منیۃ المصلی میں فرمایا کہ اگر کسی نے پانی ہونے اور اس کے استعمال  پر  قدرت ہونے کے باوجود  مصحف شریف کو چھونے اور مسجد میں داخل ہونے کے لیے تیمم کیا ، تو اس کا تیمم کچھ نہیں ، امام برہان الدین حلبی نے  اس کی شرح میں کہا  : کیونکہ  تیمم اسی صورت میں جائز اور  شرعاً معتبر ہو گا جب حقیقتاً یا حکماً پانی نہ ہو  اور یہاں دونوں صورتیں ہی مفقود ہیں ،  لہٰذا تیمم جائز نہیں ہو گا ۔(منحۃ الخالق علی بحر الرائق، کتاب الطھارۃ ، باب  التیمم ،جلد1، صفحہ265، مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں مسئلہ مانحن فیھا  پر تفصیلی کلام کرنے کے بعد آخرمیں حاصلِ کلام بیان کرتے ہوئے  علامہ  شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   لکھتے ہیں :وهذا الذي ينبغي التعويل عليه …والحاصل أن ما بحثه في البحر من صحة التيمم لهذه الأشياء مع وجود الماء لا بد لها من دليل، وليس في شيء مما ذكره الشارح ما يدل عليها بل فيه ما يدل على خلافها كما علمت، وأما عبارة المبتغى فقد علمت ما فيها فالظاهر عدم الصحة إلا فيما يخاف فوته‘‘ ترجمہ:  ہماری بیان کردہ تحقیق پر ہی اعتماد کیا جانا چاہیے اورحاصل یہی ہے کہ بحر الرائق میں   جن باتوں  کے لیے  پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم جائز قرار دیا ہے ،اس کے لیے کسی دلیل ِ شرعی کا ہونا ضروری ہے ، شارح یعنی علامہ ابن نجیم رحمہُ اللہُ نے جو  کچھ  ذکر کیا  اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں (جو ان کے موقف  کی تائید کرے)  ، البتہ ان کے خلاف  دلیل بن رہا ہے  اور جہاں تک  مبتغیٰ کی عبارت کا تعلق ہے ، تو جو کچھ  اس میں ہے  ، آپ جان چکے ہیں ، لہٰذا ظاہر یہی ہے کہ ان کاموں(سونے ، بے وضو کے مسجد میں داخل ہونے وغیرہ ) کے لیے تیمم صحیح نہیں ، سوائے اس کام کے جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو (اور  اس کا کوئی بدل  بھی نہ ہو )۔ (ردالمحتار مع  الدر المختار، کتاب  الطھارۃ  ، جلد1، صفحہ459- 460 ، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اور صاحب ِ بحر کی دلیل خلاف ِ مذہب ہے ، لہٰذا مقبول نہیں  ، چنانچہ  اس کے خلافِ  مذہب ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اِمام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   لکھتے ہیں : کتب مذہب میں صرف دو نمازوں کا ذکر ہے ،  جنازہ وعیدین اور اِسی قدر ائمہ مذہب سے منقول حتی  کہ خود علّامہ ابن امیر حاج حلبی نے حلیہ میں تصریح فرمائی کہ ہمارے نزدیک تندرست کو بے خوفِ مرض پانی ہوتے ہوئے انہیں دو نمازوں کے لئے تیمم جائز ہے ……اور عَدَدْ ،  نافیِ زیادت ہے کمافی الھدایۃ وغیرھا ، بلکہ امام ملک العلماء نے بدائع میں صراحۃً اِنہیں دو نمازوں میں حصر اور اس کے ماسوا کے لئے عدم ِجوازِ تیمم کی تصریح فرمائی،……  بعینہٖ اسی طرح امام تمرتاشی وامام علی اسبیجابی نے صراحۃً انہیں دو میں حصر فرمایا……  تو اصل حکم منصوص تو یہ ہے۔  ہاں حلیہ نے اپنی بحث میں نظربہ علت کہ خوف فوت لا الی بدل ہے نماز کسوف وسنن رواتب کا الحاق کیا ان کی تبعیت بحر ونہر ودُر نے بھی کی اور یوں ہی سُنن کو رواتب سے مقید کیا ، یہ قید  نافلۂ محضہ کو خارج کررہی ہے۔الخ(فتاوی رضویہ،جلد 3،صفحہ 429 ، 430،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم