مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8028
تاریخ اجراء:16صفر المظفر1444ھ/13ستمبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین
اس مسئلے کےبارے میں کہ بہارِ شریعت میں یہ مسئلہ
بیان کیا گیا ہے کہ سجدۂ شکر کی نیت سے
تیمم کرے ، تو اس سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی،
اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمۃ نے ملفوظات میں سجدۂ شکر کو سنتِ مستحبہ لکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سنت ِمستحبہ والے قول پر تو یہ عبادتِ مقصودہ
ہوگا اور عبادتِ مقصودہ جو بغیر
طہارت جائز نہ ہو ،اُس کی نیت سے جو تیمم کیا گیا ،
اس سے نماز درست ہوتی ہےاور
سجدۂ شکر کی نیت سے کیے گئے تیمم کے ساتھ
نماز پڑھنے کے متعلق مختلف اقوال ہیں ، تو رہنمائی فرمائیے کہ
اس بارے میں دُرست قول کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
راجح و
دُرست قول یہ ہے کہ سجدۂ شکر کی
نیت سے کیے گئے تیمم کے ساتھ نمازپڑھی جا سکتی ہے ،اِسی کو سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِ
نے ترجیح دی ہے اور اسی
کو مفتیٰ بہ قول قرار دیا ہے ۔
مسئلہ
کی تفصیل :اس
فتوی میں درج ذیل تین
اُمور پر گفتگو کی جائے
گی۔
(1) کسی عبادت کے لیے کیے
گئے تیمم سے جوازِ نماز کے متعلق اُصو ل کا بیان ۔
(2)ہمارے اِس مسئلہ مبحوث
عنھا میں اختلاف کا سبب اور سجدۂ شکر کی
شرعی حیثیت کا بیان۔
(3) اور سیدی اعلیٰ
حضرت رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ کا مؤقف و ترجیح یافتہ قول کا بیان ۔
(1)کسی عبادت کے لیے کیے گئے
تیمم سے جوازِ نماز کے متعلق اصول :
اُصول یہ ہے کہ مطلقاً کسی عبادت کی نیت سے
تیمم کیا ، تو اس سے نماز جائز ہونے کےلیے دو شرطیں ہیں : (۱)وہ عبادت ، عبادتِ مقصودہ ہو۔(۲) اور بلا طہارت
جائز نہ ہو ، مثلاً: نماز کہ یہ
ایسی عبادت ہے ،جو مقصودہ بھی ہے اوربغیر طہارت کے جائز
بھی نہیں ، یونہی جُنْبی کے لیے تلاوت ِ قرآن بھی
اور جہاں یہ دوشرائط نہ پائی
جائیں ، تو اُس تیمم سے نماز پڑھنا جائز نہیں ، جیساکہ جُنْبی
نے پانی نہ ہونے کی صورت میں قرآن ِکریم کو چھونے یا مسجد میں داخل ہونے کے
لیے تیمم کیا ، توتیمم صحیح ہے، مگر وہ
اس سے نماز نہیں پڑھ سکتا کہ مصحف شریف کو چھونا یا مسجد میں
داخل ہونا عبادتِ مقصودہ نہیں، یونہی پانی نہ ملنے
کی صورت میں بے وضو شخص نےزبانی
تلاوت کرنے یا جنبی نے کلمہ طیبہ یا دیگر اذکار
پڑھنے کے لیے تیمم کیا، تو تیمم دُرست ہوا ،مگر اس سے
نماز پڑھنا جائز نہیں ، کہ یہ عبادتیں اگرچہ مقصودہ ہیں ،
مگر یہ مذکورہ افراد کےلیے بغیر طہارت کے بھی جائز ہیں ،لہٰذا اس تیمم سے بھی
نماز نہیں پڑھی جا سکتی ، الغرض جہاں مذکورہ دوشرطیں اکھٹی
پائی جائیں گی، اس تیمم سے نماز جائز ہو گی ، ورنہ
نہیں ، لہٰذا سجدۂ شکر کی نیت سے تیمم
کیا ، تو اس سے بھی نماز پڑھنا جائز ہو گی کہ یہ عبادتِ
مقصودہ بھی ہے اور اس کے لیے طہارت بھی شرط ہے ۔
(2) نیز فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو تیمم ، نماز
یاایسے عمل کےلیے کیا جائے جو نمازکے کسی جز
کی قبیل سے ہو ، تو اس سے دیگر نمازیں اداکرنا بھی
جائز ہوتا ہے ، لہٰذا اِس اُصول کی روشنی میں سجدۂ شکر
کے لیے کیے گئے تیمم سے
دیگر نمازیں ادا کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ سجدۂ
شکر بھی نماز کے جزیعنی سجدہ کےقبیل سے ہے ۔
(2)اس مسئلہ میں اختلاف کا سبب اور سجدۂ شکر کی شرعی
حیثیت کا بیان:
یہاں
یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب سجدۂ شکر ان اُصولوں کے تحت
آتاہے ، تو اس کی نیت سے کیے گئے تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق اختلاف کیوں ہے ؟تو
اس کا جواب یہ ہے کہ در اصل اِس مسئلہ میں اختلاف کی
بنیاد اس مسئلے پر ہے کہ سجدۂ شکر مشروع ہے یا نہیں؟ تو جن فقہائے کرام نےسجدۂ
شکر کے متعلق امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہ سے مروی عدمِ مشروع کا قول لیا، اُنہوں نے ایسے تیمم سے
نماز کے متعلق عدم ِ جواز کا قول بیان
کیا اور جنہوں نے صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور
امام محمد رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کا قول لیا ، انہوں نے نما زجائز ہونے کا قول
کیا۔ بہرحال فتوی صاحبین کے قول پر ہے اور حکم شرعی
یہ ہےکہ سجدۂ شکر مشروع، یعنی جائز ، بلکہ مستحب ہے، اس پر
کثیر روایات ، نبی پاک صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور سَلْف صالحین کے عمل کے حوالے سے موجود ہیں ۔اور جہاں
تک امام اعظم رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے
کہ سجدۂ شکر ، مشروع نہیں ،
تو فقہائے کرام نے اس کی بھی توجیہ بیان
فرمائی کہ یہاں عدمِ مشروع سے مراد عدمِ وجوب ہے ، نہ کہ عدمِ جواز ،
خود امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کاقول
ہے کہ میں اسے بطورِ واجب مشروع نہیں سمجھتا، لہٰذا نفسِ جواز میں کوئی
اختلاف نہیں ، گویا
تینوں اَئمہ سے سجدۂ شکر کاجواز ہی ثابت ہے اور صاحبین کے
قول پر استحباب بھی ثابت ہے ۔
(3)سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا رُجحان و مفتیٰ بہ قول :
سیّدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِ کا
رُجحان ، بلکہ آپ رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ کا مؤقف یہی ہے کہ سجدۂ شکر کی
نیت سے کیے گئے تیمم کے ساتھ نمازپڑھی جا سکتی ہے، اِسی قول پر
فتوی ہے ۔ تفصیل
نیچے جزئیات کے ساتھ آرہی ہے ۔
اب ہر ایک کے بالترتیب جزئیات ملاحظہ
کیجیے :
(1)کسی عبادت کے لیے کیے
گئے تیمم سے جوازِ نماز کے اُصول کے بارے میں تنویر الابصار و
درمختار میں ہے :”(وشرط له) أي للتيمم في حق جواز الصلاة به
(نية عبادة مقصودةلا تصح) أي لا تحل …(بدون طهارة) “ ترجمہ : اور تیمم کے ساتھ نماز
جائز ہونے کے لیے ایسی عبادتِ مقصودہ کی نیت ہونا ضروری ہے، جو بلا
طہارت جائز نہ ہو ۔ (تنویر الابصار مع درمختار،کتاب الطھارۃ ، باب
التیمم ، جلد1،صفحہ 464،مطبوعہ کوئٹہ)
اِسی اُصول کو شرح و بَسْط کے ساتھ
بیان کرتے ہوئے سیّدی
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’عبادت ِغیر مقصودہ مباح کرنے کے لیے جوتیمم
ہوگا ، اُس سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔جوتیمم رفعِ حدث وحصولِ طہارت
کی نیت سے کیا جائے ، اُس سے تو نماز وغیرہ سب کچھ جائز
ہے ، مگرتیمم کے وقت یہ نیت نہ کی ہو ، بلکہ صرف اتنا قصد کیا ہو کہ فلاں عبادت
ادا کرنے کوتیمم کرتا ہُوں، تو اُس تیمم سے نماز جائز ہونے کے
لیے یہ شرط ہے کہ وہ عبادت
مقصودہ بھی ہو اور بغیر طہارت کے جائز بھی نہ ہوتی ہو،
ورنہ اگر پانی نہ پانے کی
صورت میں محدث بحدث اکبر ، خواہ اصغر نے قرآن عظیم چھُونے یا
جنب نے مسجد میں جانے کے لیے تیمم کیا، تیمم
صحیح ہوجائے گا ، لیکن اُس سے
نماز رَوَا، نہ ہوگی کہ مسِ مصحف یادُخولِ مسجد فی نفسہ
کوئی عبادت مقصودہ نہیں ، بلکہ عبادت مقصودہ تلاوت ونماز ہیں اور
یہ اُن کے وسیلے، یوں ہی اگر پانی نہ ملنے کی
حالت میں بے وضو نے یاد پر (یعنی زبانی)تلاوت
یا جنب نے اور (دیگر )اذکارِ الٰہی مثل کلمہ طیبہ
اور درودشریف پڑھنے کے لیے تیمم کیا ، تیمم
صحیح ہے اور اس سے نماز ناجائز کہ
یہ عبادتیں اگرچہ مقصودہ ہیں ، مگر ان کو بے طہارت رَوا
تھیں، تو ظاہر ہوا کہ یہ شرطیں نفسِ تیمم کی
نہیں ، بلکہ اُس سے جوازِ نماز
کی ہیں ……بالجملہ بہ نیتِ عبادت تیمم کرنے سے نماز جائز
ہونے کی یہ دو شرطیں ہیں۔ملخصاً “(فتاویٰ
رضویہ، جلد3،صفحہ556،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
(2)جو تیمم نماز یا جزءِ نماز کےلیے
کیا گیا ہو،اُس سے دیگر
نمازیں اداکرنا،جائز ہے ، چنانچہ علامہ دہلوی ہندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:”فالحاصل ان قول عامۃ العلماء رحمھم اللہ لو وقع التیمم
للصلاۃ او لجزء من الصلاۃ جاز ان یصلی بہ صلاۃ اخری
و مالافلا“ ترجمہ :اورحاصلِ کلام یہ ہے کہ اکثر
فقہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کا یہ قول ہےکہ اگر نماز یا نماز
کے کسی جز کےلیے تیمم کیا ، تو اس سے دیگر
نمازیں ادا کرنا ،جائز ہے اور
جوایسا نہ ہو ، تو اس سے جائز نہیں ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ،
کتاب الطھارۃ ،الفصل فی
التیمم ، جلد1، صفحہ365،مطبوعہ کوئٹہ)
سجدۂ شکر کی شرعی حیثیت کے متعلق
جزئیات :
سننِ ابن
ماجہ میں ہے :”عن أبي بكرة أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان إذا أتاه أمر يسره أو بشر به، خر ساجداشكراً لله تبارك وتعالى “ترجمہ :حضرت سیدنا ابو بکرہ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی خوشی کی
خبرپہنچتی یا آپ
عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کو
کوئی خوشخبری سنائی جاتی ، توآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا
کرتے ہوئے سجدے میں چلے جاتے ۔ (سنن ابن ماجہ،باب
ماجاء فی الصلاۃ والسجدۃ عند الشکر ،صفحہ210،مطبوعہ لاھور )
اکابر صحابہ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور سلف و صالحین کے عمل سے سجدۂ شکر کا ثبوت
موجود ہے ، چنانچہ علامہ
طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء)
لکھتے
ہیں:” قولہ : " فهو منسوخ" مردود
بفعل أكابر الصحابة بعده صلى اللہ عليه
وسلم كسجود أبي بكر لفتح اليمامة وقتل مسيلمة وسجود عمر عند فتح اليرموك وهو واد
بناحية الشأم وسجود على عند رؤية ذي العذبة قتيلا بالنهر“ترجمہ : ان کاقول کہ سجدۂ شکر منسوخ ہے ، تو اس کے
نسخ کا دعوی قابلِ قبول نہیں ، کیونکہ اکابر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے عمل سے ثبوت موجود ہے، جیساکہ حضرت
ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ نے جنگ یمامہ
میں فتح اور مسیلمہ کذاب کے
قتل کی خبر سن کر سجدۂ شکر کیا ، حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے شام
کے قریب واقع ایک وادی " یرموک " فتح ہونے پر اورحضرت علی کَرَّمَ اللہُ
وَجْھَہٗ الْکَرِیْم نے نہر پرذو العذبہ(خارجی) کو مقتول پا کر سجدۂ
شکر ادا کیا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی
، کتاب الصلاۃ، فصل فی سجدۃ
الشکر ، صفحہ499، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اور سجدۂ شکر کے مستحب ہونے کے متعلق علامہ
ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”وسجدة الشكر: مستحبة به يفتى…(قوله به يفتى) هو قولهما… والأظهر أنها مستحبة كما نص عليه محمد
لأنها قد جاء فيها غير ما حديث وفعلها أبو بكر وعمر وعلي، فلا يصح الجواب عن فعله صلى
اللہ عليه وسلم بالنسخ …وفي آخر شرح المنية: … وعليه الفتوى“ترجمہ :اور سجدۂ شکر مستحب ہے ،
اسی پر فتوی ہے ، (علامہ
شامی علیہ الرحمۃ لکھتے
ہیں ) یہ صاحبین کا قول ہے اورزیادہ ظاہر بھی
یہی قول ہےکہ یہ مستحب ہے ، جیساکہ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے اِس کی صراحت فرمائی،
کیونکہ اس پربہت سی احادیث وارد ہیں اور حضرت ابو بکر و
حضرت عمر و مولیٰ علی رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہم کا عمل
بھی مروی ہوا ، لہٰذا
اس کے متعلق نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کاعمل منسوخ ہونے کا قول درست نہیں اور
شرح منیہ کے آخر میں ہے: …اِسی پر فتوی ہے ۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی سجدۃ الشکر ، جلد 2 ، صفحہ
720، مطبوعہ کوئٹہ)
سجدۂ
شكر کے مشروع اور مستحب ہونے کے متعلق سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”اپنا رب حقیقی و مالک بالذات جان کر اس کے حضور
غایتِ تذلل کے لئے زمین پر پیشانی رکھنا سجدہ عبادت ہے
اور معبود نہ جان کر صرف اس کی عظمت کے لئے روبخاک ہونا سجدہ تعظیم ہے……اور
حق شناسی نعمت کے اظہارکو سجدۂ شکر اول وآخر مولیٰ عزوجل
کے لیے ہیں۔ پہلا فرض اور پچھلا مستحب۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد22،صفحہ413،مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک سجدۂ شکر کے عدمِ مشروع کی توجیہ:
علامہ ابنِ عابدین شامی
دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے
ہیں:”وأما عند الامام فنقل عنه في
المحيط أنه قال لا أراها واجبة لأنها لو وجبت لوجب في كل لحظة لأن نعم اللہ تعالى على عبده متواترة وفيه تكليف ما لا يطاق“ ترجمہ :
بہر حال امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کے مؤقف کے متعلق محیط میں نقل
کیا گیاکہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا : میں اس کو واجب
نہیں سمجھتا، کیونکہ اگر یہ واجب ہو ، تو ہر لمحے ہی واجب
قرار پائے گا، اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی
نعمتیں بندے پر مسلسل رہتی ہیں
، لہٰذا اس امر کا مکلف کرنا تکلیف مالایُطاق ہے (اور
شریعت کسی کو بھی طاقت
سےزیادہ کا مکلف نہیں کرتی )۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، مطلب فی سجدۃ الشکر ، جلد 2 ، صفحہ
720، مطبوعہ کوئٹہ)
امام
اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک
عدمِ مشروع کا مطلب بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”امامِ مجتہد برہان الدین محمود نے ذخیرہ
میں بروایتِ امام محررالمذہب حضرت محمد بن الحسن ، امام الائمہ مالک
الازمہ حضرت اما م اعظم رضی اللہ تعالیٰ
عنہم سے
نقل کیا کہ سجدۂ شکر مشروع نہیں۔ اور علماء نے اس کے معنیٰ
عدمِ وجوب لیے، اشباہ میں
ہے :’’سجدۃ الشکر جائزۃ عند ابی حنیفۃ
رحمۃ ﷲ تعالی علیہ لاواجبۃ وھو معنی ماروی
عنہ انھا لیست مشروعۃ ای وجوباً ، ھواقرہ علیہ العلامۃ
السید الحموی فی غمز العیون والسیدان الفاضلان احمد
الطحطاوی و محمد الشامی فی حواشی الدر‘‘ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ
تعالیٰ علیہ کے نزدیک سجدۂ شکر جائز ہے ، واجب نہیں،
یہی اس کا معنیٰ ہے، جو امام صاحب سے مروی ہے کہ سجدۂ
شکر مشروع نہیں یعنی وجوباً مشروع نہیں۔ اسے علامہ
سیدی حموی نے غمز العیون میں اور علامہ سیداحمد
طحطاوی وعلامہ سید محمد شامی نے حواشی درمختار میں
برقرار رکھا۔“(فتاویٰ
رضویہ، جلد9،صفحہ786،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مسئلہ مَبحوث عنھا کے متعلق مجددِ اعظم سیدی اعلیٰ حضرت امام
اہلسنت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ
العِزَّتْ کا رُجحان و مؤقف :
امامِ
اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ کا
رجحان، بلکہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا
موقف بھی یہی ہے کہ سجدۂ شکر کے لیے تیمم
کیا ، تو اس تیمم سے نمازیں ادا کی جاسکتی
ہیں، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے پہلے علامہ حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کے قول
کو نقل کر کے اس کا رَد کیا ، جو اس بات کی طرف مُشیر ہےکہ امام
اہلسنت رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ
نے عدمِ جوازکےقول کو اختیار نہیں کیا، پھر اس کے بعد دوبارہ علامہ
حصکفی عَلَیْہِ
الرَّحْمَۃ کی عبارت پر اِنہی کی دوسری عبارت کے ذریعے ایک نقض وارد کیا اور بَصراحت مسئلہ مبحوث عنھا میں جواز کا فتوی صادر فرمایا جس سے روزِ روشن کی طرح امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کا مؤقف واضح ہو جاتا ہے ۔ نیز
ایک موقع پر امام اہل سنت رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے
عبادت کی اَقسام کا ذکر کرتے ہوئے
عبادت مقصودہ و مشروطہ بالطہارت کو ذکر
کرکے مثال میں سجدۂ شکر کو بھی
بیان فرمایا اور آخر میں اس کی نیت سے کیے
گئے تیمم کے ساتھ نماز درست ہونا بیان فرمایا۔
خلاصۂ
بحث: امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے
بھی اُسی موقف کو اپنایا ہے ،جو علامہ شامی ،
طحطاوی عَلَیْہِمَا
الرَّحْمَۃ وغیرہما نے
اپنایا ہے کہ اس مسئلہ میں ایسے تیمم سے نماز
جائز ہے ۔
بالترتیب تینوں باتوں کے
جزئیات ملاحظہ کیجیے :
(1)چنانچہ امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ لکھتے
ہیں، (خط کشیدہ کے بعدسے آخر تک امام اہلسنت کے الفاظ ہیں ) : ” (قال الحصکفی) لاشکراً فی الاصح ۔ قال ش ھذا بناء
علی قول الامام انھا مکروھۃ اما علی قولھما المفتی بہ
انھا مستحبۃ فینبغی
صحتہ وصحۃ الصلاۃ بہ افادہ ح وکذا اقرہ ط فاجتمع علیہ
السادۃ الثلٰثۃ۔اس کے بعد درمختار میں ہے:( علامہ حصکفی نے فرمایا
) اصح قول کی بنیاد پر سجدۂ
شکر کے تیمم سے نماز کی اجازت نہیں۔ علّامہ شامی نے
کہا سجدۂ شکر کی نفی امام اعظم کے اس قول کی بنیاد
پر ہے کہ سجدۂ شکر مکروہ ہے ، لیکن صاحبین اس کے مستحب ہونے کے
قائل ہیں اور ان کا قول مفتی بہ ہے، لہٰذا اس قول کی بنیاد پر اس کے لیے
تیمم صحیح ہونا چاہیے اور اس سے نماز بھی صحیح ہونی
چاہیے، حلبی نے یہ افادہ فرمایا، اسی طرح
طحطاوی نے بھی اسے برقرار رکھا، تو یہ تینوں حضرات (سید
حلبی، سید طحطاوی، سید شامی) اس پر متفق
ٹھہرے۔ “(فتاویٰ
رضویہ، جلد3،صفحہ560،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
(2)صاحبِ در کی عبارت پر نقض وارد کرکےقولِ
جواز پر فتوی ہونا بیان کیا اور اس پر صاحبین کے قول سے
حوالہ کیا ، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ ’’
جَدُّالْمُمْتَار‘‘ میں
لکھتے ہیں :” اقول: والعجب من الشارح کیف یجعل النفی اصح مع قولہ
سجدۃ الشکر مستحبۃ بہ یفتی ۔ ولاشک ان
الفتوٰی علی ھذا فتوی علی جواز الصلاۃ
بتیمّم فعل لھا قال الغنیۃ عن المصفی قالا ھو
قربۃ یثاب علیہ وعلیہ یدل ظاھر النظم “یعنی میں یہ کہتا ہوں کہ شارح (صاحبِ درمختار) پر تعجب ہے کہ سجدۂ
شکر کی نفی کو انہوں نے اصح کیسے قرار دیا ، حالانکہ خود
ان کی عبارت موجود ہے کہ '' سجدۂ شکر مستحب ہے"، اسی پر فتویٰ دیا جاتا
ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ سجدۂ شکر کے استحباب پر
فتوی اس پر بھی فتوی ہے کہ اس کی ادائیگی کے
لیے جوتیمم کیا گیا ہو اس سے نماز جائز ہے۔
غنیہ میں مصفی کے حوالہ سے ہے: ''صاحبین نے فرمایا:
سجدۂ شکر قربت ہے جس پر ثواب ہوگا۔ اور نظم کے ظاہر سے بھی
یہی معلوم ہوتا ہے۔ (جد الممتار ،کتاب الطھارۃ ، باب التیمم ، جلد 2 ، صفحہ 245 ، مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ ، کراچی )
(3)اور عبادت کی چار اقسام میں سے
پہلی قسم بیان کرتے ہوئےاِمامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں : ” مقصودہ مشروطہ جیسے
نماز ونمازِ جنازہ وسجدۂ تلاوت وسجدۂ شکر کہ سب
مقصود بالذات ہیں اور سب کے لیے طہارتِ کاملہ شرط، یعنی
نہ حدثِ اکبر ہو نہ اصغر۔ نیز یاد پر تلاوتِ قرآنِ مجید
کہ مقصود بالذات ہے اور اس کے لیے صرف حدثِ اکبر سےطہارت شرط ہے،بےوضو جائز
ہے……پانی نہ ہونے کی حالت میں چاروں قسموں کے لیے تیمم
صحیح ہے اور نماز صرف اسی سے ہوسکے گی جو اس عام
نیتِ تطہیر ورفع حدث سے کیا گیا یا خاص قسمِ
اوّل کی نیت سے۔ “(فتاویٰ
رضویہ، جلد3،صفحہ557،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟