Raste Ki Keechar Pak Hai Ya Napak?

راستے کی کیچڑ پاک ہے یا ناپاک؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin 6274

تاریخ اجراء:17ذوالحجۃ الحرام1440ھ19اگست2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ بعض اوقات گلی بازاروں میں کیچڑ سے کپڑے خراب ہوجاتے ہیں اور خصوصاًبارش کے بعدراستے سے گزرتے ہوئےاپنے کپڑوں یا جسم کوکیچڑ کی چھینٹوں سے بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے،تو عرض یہ ہے کہ کیایہ کیچڑ ناپاک ہے اور نماز سے پہلے کپڑےپاک کرنا ضروری ہیں یا نہیں؟

سائل:محمد علی(گلیانہ،گجرات)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب تک سڑک یا گلی،بازارکے راستے کی کیچڑکاناپاک ہونا یقینی طور پرمعلوم نہ ہو،وہ پاک ہے،تواگرکپڑوں یا بدن پر لگ جائے،توکپڑے اوربدن ناپاک نہیں ہوں گےاوراُسےدھوناضروری تونہیں،البتہ بہتر ہے،لیکن اگربغیر دھوئےنمازپڑھ لی،تب بھی نمازہو جائے گی اوراگراُس کیچڑ کا ناپاک ہونامعلوم ہومثلاً اُس میں نجاست کا اثرظاہر ہویا کوئی شرعا معتبر آدمی بتادے،توجس جگہ وہ ناپاک کیچڑلگے،وہ جگہ ناپاک ہو جائے گی،لیکن یاد رہےکہ صرف شک و شبہہ کی بنیاد پر کہ ہو سکتا ہےاس کیچڑ میں کوئی نجاست موجودہو،اُس کیچڑکو ناپاک نہیں کہہ سکتے،کیونکہ محض شک و شبہہ سے کسی چیز میں ناپاکی کا حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔

    علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’طین الشورع عفو وان ملأ الثوب للضرورۃ اقول:والعفو مقید بما اذا لم یظھر فیہ اثر النجاسۃ‘‘ترجمہ:ضرورت کی وجہ سےراستوں کی کیچڑمیں معافی ورخصت ہے،اگرچہ کپڑےاس سے بھر جائیں میں(علامہ شامی) کہتا ہوں:یہ معافی اُسی صورت میں ہے،جبکہ اُس میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو۔

(ردالمحتار،ج1،ص583، مطبوعہ پشاور)

    صدرالشریعۃمفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’راستہ کی کیچڑ پاک ہے،جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو،تواگر پاؤں یا کپڑےمیں لگی اور بے دھوئے نماز پڑھ لی،ہو گئی،مگر دھولینا بہتر ہے۔‘‘

(بھارشریعت،ج1،حصہ2،ص394،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    علامہ ابوبکر کاسانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’لاینجس بالشک‘‘ترجمہ:شک کی بنیاد پر کوئی چیز نجس نہیں ہو سکتی۔

(بدائع الصنائع،ج1ِص73،دارالکتب العلمیۃ،بیروت) 

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم