مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12425
تاریخ اجراء: 29صفر المظفر1444 ھ/26ستمبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پیاز کاٹتے وقت
آنکھوں سے جو پانی نکلتا ہے، کیا اس پانی کے نکلنے سے وضو ٹوٹ
جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آنکھ سے نکلنے والا وہ پانی وضو توڑتا ہے
جو کسی آنکھ کی بیماری یا آنکھ میں زخم کی وجہ سے نکلے، جبکہ
پیاز کاٹتے وقت آنکھوں سے نکلنے
والا پانی چونکہ کسی بیماری یا زخم کی وجہ سے
نہیں نکلتا لہذا اس پانی کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
جیسا
کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جو پانی بغیر
کسی بیماری کے جسم سے نکلے تو وہ پانی پاک ہے مثلاًزکام،
خوشی یا غمی کے موقع پر آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ، تو
یہ پاک ہیں اور ان کے نکلنے سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا۔
بیماری کے سبب بہنے والی
رطوبت ناقضِ وضو ہوتی ہے۔ جیسا کہ غنیۃ
المستملی ہے:”کل
مایخرج من علۃ من ای موضع کان کالاذن والثدی والسرۃ
ونحوھا فانہ ناقض علی الاصح لانہ صدید“یعنی
جو بھی پانی بیماری کی وجہ سے بدن کے حصے سےخارج ہو
مثلاًکان، پستان، ناف وغیرہ تواصح
قول کے مطابق وہ وضو کو توڑنے والا ہے اس لئے کہ وہ زخم کا پانی ہے۔(غنیۃ
المستملی،ص116،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ
فتاوٰی رضویہ میں
ارشاد فرماتے ہیں:”ہمارے علماء نے فرمایا:جو سائل(یعنی
بہنے والی ) چیزبدن سے بوجہِ علت خارج ہو، ناقضِ
وضوہے،مثلاًآنکھیں دُکھتی ہیں یا جسے ڈھلکے کا عارضہ
ہو یا آنکھ،کان،ناف وغیرہا میں دانہ یا ناسور
یا کوئی مرض ہوان وجوہ سے جو آنسو،پانی بہے،وضو کا ناقض
ہوگا۔“ (فتاوٰی
رضویہ،ج01 (الف)، ص349، رضافاؤنڈیشن،
لاہور)
اگر پانی بغیر کسی بیماری،درد
وغیرہ کے نکلے تو وہ پاک ہے اور ناقضِ وضو بھی نہیں۔ جیسا
کہ تحفۃ الفقہاء میں ہے :” وأما إذا كان الخروج من غير السبيلين فإن كان
الخارج طاهراً مثل الدمع والريق والمخاط والعرق واللبن ونحوها لا ينقض الوضوء بالإجماع
وإن كان نجساً ينقض الوضوء“یعنی
جب غیر سبیلین سے خارج ہونے والی چیز پاک ہومثلا
آنسو ، تھوک، رینٹھ، پسینہ ، دودھ وغیرہ تو بالاجماع ان
چیزوں سے وضونہیں ٹوٹے گا اور اگر ناپاک ہو تو وہ وضوٹوٹ جائے گا۔ (تحفة الفقهاء،
کتاب الطھارۃ، باب الحدث، ج 01، ص 18، دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوٰی رضویہ میں ہے:”بالجملہ اُن
کے کلمات قاطبہ ناطق ہیں کہ حکمِ نقض،احتمال وظنِ خون وریم کے ساتھ
دائر ہے، نہ کہ زکام سے ناک بہی اور وضو گیا،بحران میں
پسینہ آیا اور وضو گیا،پستان کی قوتِ ماسکہ ضعیف
ہونے سے دودھ بہا اور وضو گیا ہرگز نہ اس کا کوئی قائل نہ قواعدِ
مذہب اس پر مائل۔“ (فتاوی
رضویہ،ج01 (الف)، ص364، رضافاؤنڈیشن،
لاہور)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمہ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”والذی یظنہ العبد الضعیف ان ماکان
خروجہ معتادا ولا ینقض لاینقض ایضا اذا فحش وان عد حینئذ
علۃ فیما یعد الاتری انّ العرق لا ینقض فاذا
فحش جداً کما في بحران المحموم أو بعض الأمراض لم ینقض أیضاً
وکذالك الدمع واللبن والریق“ ترجمہ: یہ کمزور بندہ گمان کرتا ہے کہ
جس چیز کا بطور عادت نکلنا ناقض وضو
نہ ہو ، وہ زیادہ نکلے تو بھی وضو نہیں توڑے گی اگرچہ
زیادہ نکلنے کو مرض شمار کیا جائے ۔ کیا تم نہیں
دیکھتے کہ پسینہ وضو نہیں توڑتا مگر جب بہت زیادہ
پسیہ آئے جیسے شدت بخار
یا دوسرے مرض میں تو بھی وضو نہی ٹوٹے گا ۔
یونہی آنسو ، دودھ اور تھوک
کا حکم ہے ۔
اس کے حاشیہ میں مفتی اعظم
ہند مولانا مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” مصنف کی تحقیق کہ جو چیز عادۃً بدن سے
بہا کرتی ہو اور اس سے وضو نہ جاتاہو جیسے آنسو ،پسینہ ،
دودھ،بلغم،ناک کی ریزش وہ اگرچہ کتنی ہی کثرت سے نکلے
ناقض وضو نہیں اگرچہ اس کی کثرت بجائے خود ایک مرض
گنی جاتی ہو۔“(فتاوی
رضویہ،ج01 (الف)، ص367، رضافاؤنڈیشن،
لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟