Peshab Se Nikalne Wali Bhap Kapron Ye Jism Par Lag Jaye To Kya Hukum Hai?

پیشاب سے نکلنے والی بھاپ کپڑوں یا بدن پر لگ جائے تو کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12674

تاریخ اجراء:21جمادی الثانی 1444ھ/14جنوری 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سردی کے دنوں میں پیشاب سےبھاپ سی نکل رہی ہوتی  ہے،یہ بھاپ اگر بدن یاکپڑوں تک پہنچ جائے،تو کیا بدن اور کپڑے ناپاک ہو جائیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی بھی ناپاک چیز سے اٹھنے والا بھاپ یا دھواں  کپڑے یا بدن پر لگ جائے  اگرچہ اس سے بدن یا کپڑے تر ہوجائیں ،لیکن  بدن یا کپڑوں پر نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو، تو یہ معاف ہے ۔ اس کے لگنےسے کپڑے یا بدن  ناپاک نہیں ہوں گے ۔ سردیوں میں پیشاب  یا پاخانہ کیا جائے ، تو ان سےنکلنے والی بھاپ اگر بدن یا کپڑوں پر لگ جائے ،تو ان کے لگنے سے اگرچہ بدن یا کپڑوں میں تری آجائے ،لیکن کپڑے یا بدن پر نجاست کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو،توکپڑے یا بدن ناپاک نہیں ہوں گے، بلکہ پاک رہیں گے۔

   ہاں بھاپ کپڑے یا بدن پر لگ گئی جس سے کپڑے یا بدن میں تری آگئی اور اس تری میں نجاست کا اثریعنی اس کا رنگ، بو یا ذائقہ ظاہر ہوگیا، تواب  ناپاکی کا حکم ہوگا۔

   در مختار میں ہے:”طين شارع وبخار نجس ، وغبار سرقين عفو“یعنی راستے کی کیچڑ، نجاست کے بخارات  اور گوبر کا غبار معاف ہیں۔(الدرالمختار مع شامی ملتقطا، جلد1،صفحہ 583 ۔584،مطبوعہ:کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”والعفو مقید بما اذا لم یظھر فیہ اثر النجاسۃ“یعنی اور معاف ہونا مقید ہے اس کے ساتھ کہ جب تک اس میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو۔(ردالمحتار، جلد1،صفحہ 583،مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”ما یصیب الثوب من بخارات النجاسات لا یتنجس بھا و ھو الصحیح ھکذا فی الظہیریۃ۔ دخان النجاسۃ اذا اصاب الثوب او البدن الصحیح انہ لا ینجسہ ھکذا فی السراج الوھاج“یعنی نجاستوں کے جوبخارات کپڑوں پر لگ جائیں،تو کپڑے ناپاک نہ ہوں گےاور  یہی صحیح ہے، ایسا ہی ظہیریہ  میں مذکور ہے۔ نجاست کا دھواں اگر کپڑے یا بدن کو لگے، تو صحیح یہ ہے کہ وہ کپڑا نجس نہیں ہوگا، ایسا ہی السراج الوہاج   میں مذکور ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 47،  مطبوعہ: پشاور)

   ردالمحتار میں ہے:”و ما یصیب الثوب من بخارات النجاسۃ، قیل ینجسہ، و قیل لا وھو الصحیح“یعنی اورنجاست کے جوبخارات کپڑوں پر لگ جائیں ،توایک قول کے مطابق وہ کپڑے ناپاک ہوجائیں گے، جبکہ  ایک قول یہ ہے کہ وہ کپڑے ناپاک نہ ہوں گے اور یہی صحیح ہے۔(رد المحتار، جلد 1، صفحہ 583، مطبوعہ:کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ناپاک چیز کا دھواں کپڑے یا بدن کو لگے، تو ناپاک نہیں۔ یوہیں ناپاک چیز کے جلانے سے جو بخارات اُٹھیں ان سے بھی نجس نہ ہو گااگرچہ ان سے پورا کپڑا بھیگ جائے ،ہاں اگر نجاست کا اثر اس میں ظاہر ہو، تو نجس ہو جائے گا۔(بہارِ شریعت، جلد1، صفحہ 394، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نجاست کے اثر سے مراد اس کا رنگ، بو یا ذائقہ ہے۔اس کے متعلق ہدایہ مع بنایہ  میں ہے:واللفظ فی الھلالین للھدایۃ:”(والاثر) ای اثر النجاسۃ (ھو الطعم او الرائحۃ  او اللون)“یعنی نجاست کا اثر ذائقہ ، بو یا رنگ ہے۔(البنایۃ فی شرح الھدایۃ، جلد 1،صفحہ 231، مطبوعہ:ملتان)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” اذا ظهر فی الثوب الطاهر اثر النجاسة من لون او طعم او ريح فانه يتنجس“یعنی جب پاک کپڑے میں نجاست کا اثر یعنی رنگ، ذائقہ یا بو ظاہر ہو، تو وہ کپڑا ناپاک ہوگا۔(ردالمحتار، جلد10،صفحہ 486،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ حسن بن عمار الشرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لوجود عین النجاسۃ باثرھا“کیونکہ نجاست کے اثر کے پائے جانے سے عینِ نجاست موجود  ہے۔(مراقی الفلاح علی نور الایضاح، صفحہ 31،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم