Pani Mein Matti Aur Rait Ho, To Wazu o Ghusal Ho Jayega ?

 

پانی میں مٹی اور ریت بھی ہو، تو وضو و غسل ہو جائے گا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13456

تاریخ اجراء:19محرم الحرام1446 ھ/26جولائی  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہمارے ہاں آج کل  لائن میں جو پانی آرہا ہے اُس پانی میں تھوڑی سی مٹی اور ریت بھی ساتھ میں آرہی ہے، تو کیا اُس پانی سے وضو و غسل ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں اُس پانی سے وضو و غسل ہوجائے گا۔

   چنانچہ فتح القدیر میں ہے:”لا بأس بالوضوء بماء السيل مختلطا بالطين إن كانت رقة الماء غالبة، فإن كان الطين غالبا فلا۔“یعنی سیلاب کا پانی جس میں کیچڑ کی آمیزش ہو اُس سے وضو جائز ہے بشرطیکہ اس میں پانی کی رقت غالب ہو اور اگر کیچڑ غالب ہو تو جائز نہیں۔ (فتح القدير على الهداية، کتاب الطھارات، ج 01، ص 72، دار الفكر، لبنان)

   بدائع الصنائع میں ہے:”لو تغير الماء المطلق بالطين أو بالتراب، أو بالجص، أو بالنورة أو بوقوع الأوراق، أو الثمار فيه، أو بطول المكث يجوز التوضؤ به؛  لأنه لم يزل عنه اسم الماء، وبقي معناه أيضا مع ما فيه من الضرورة الظاهرة لتعذر صون الماء عن ذلك۔“یعنی اگر مطلق پانی کیچڑ ، مٹی، چونے،  درخت کے پتوں یا پھلوں سے یونہی کافی دیر تک ٹھہرے رہنے سے متغیر ہوجائے، تو ایسے پانی سے وضو کرنا شرعاً جائز ہے، کیونکہ پانی کانام اُس سے زائل نہیں ہوا، اور اس کا معنی بھی باقی ہے، اس کے علاوہ اس بات کی واضح ضرورت بھی ہے کہ پانی کا اس طرح کی چیزوں سے  بچنا مشکل ہے۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 15، دار الكتب العلمية، بیروت)

   جس پانی سے طہارت درست ہے اُس کی اقسام بیان کرتے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاوٰی رضویہ میں ایک مقام پر نقل فرماتے ہیں:” وہ پانی جس میں مٹی، ریتا، کیچڑ کسی قدر مل جائے جب تک اس کی روانی باقی ہو اعضا پر پانی کی طرح بہے۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج 02، ص 544-543، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” اور اگر کوئی پاک چیز ملی جس سے رنگ یا بویا مزے میں فرق آگیا مگر اس کا پتلا پَن نہ گیا جیسے ریتا، چونا یا تھوڑی زعفران تو وُضو جائز ہے۔ “(بہارِشریعت،ج01،حصہ02،ص329، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم