NIfas Ki Waja Se Reh Jane Wale Roze Ka Fidya Kitna Hai ?

نفاس میں چُھٹے ہوئے روزوں کا فدیہ دینے کا کیا طریقہ ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12172

تاریخ اجراء:       17 شوال المکرم1443 ھ/19مئی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ عزوجل نے مجھے اس رمضان اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، جس کی وجہ سے میری زوجہ اس بار ماہِ رمضان کے روزے رکھنے سے قاصر رہی۔

آپ سے معلوم یہ کرنا ہے اس صورت میں  ہم اگر ان چھوٹ جانے والے روزوں کا فدیہ  ادا کرنا چاہیں، تو اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ نیز ان روزوں کا فدیہ کتنا بنے گا؟؟ اس حوالے سے وضاحت کے ساتھ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت  میں نفاس کی وجہ سے جو روزے چُھٹ گئے آپ کی بیوی پر ان تمام روزوں کی قضا کرنا ہی فرض ہے، فدیہ دے کر وہ ان روزوں کی ادائیگی سے برئی الذمہ نہیں ہوسکتی، کیونکہ  روزے کے بجائے اس کا  فدیہ ادا کرنے کا حکم فقط شیخِ فانی کے لیے ہے،جس کی تمام تر تفصیل کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے۔ شیخِ فانی کے علاوہ دیگر افراد کے لیےروزوں کا کوئی فدیہ نہیں، بلکہ ان پر لازم ہے کہ عذر ختم ہونے کے بعد ان رہ جانےوالے روزوں کی قضا کریں۔  

   ناپاکی کے ایام میں چُھٹے ہوئے روزوں کی قضا عورت پر لازم ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے:”عن عائشۃ کان یصیبنا ذلک فنؤمر بقضاء الصوم و لا نؤمر بقضاء الصلاۃ“یعنی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ماہواری میں ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا گیا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔(صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب وجوب بقضاء الصوم علی الحائض، ج 01، ص 153، مطبوعہ کراچی )

   رد المحتار  میں اس حوالے سے مذکور  ہے:(يمنع صلاة) ای الحیض و کذا النفاس (مطلقاً ولو سجدة شكر وصوماً وجماعاً وتقضيه) ای الصوم علی التراخی فی الاصح۔ "خزائن" (لزوما) دونها( للحرج)“ترجمہ: ”حیض اور نفاس مطلقاً نماز سے مانع ہیں اگرچہ سجدہ شکر ہی کیوں نہ ہو، یونہی روزے اور جماع سے بھی مانع ہیں مگر ان روزوں کی قضا کرنا ہوگی،  اصح قول کے مطابق تراخی کے ساتھ  بھی قضا کی جاسکتی ہے "خزائن"میں یہ مذکور ہے۔ البتہ حرج کی بنا پر ان دنوں کی نمازوں کی قضا فرض نہیں۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 532، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً و ملخصاً)

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”أن يحرم عليهما الصوم فتقضيانه هكذا في الكفاية “ یعنی  حیض و نفاس والی عورت کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے پس یہ دونوں بعد میں اس روزے کی قضا کریں گی، کفایہ میں اسی طرح مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 38، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے:”ان دِنوں میں نمازیں معاف ہیں ان کی قضا بھی نہیں اور روزوں کی قضا اور دنوں میں رکھنا فرض ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 380، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   نوٹ: یہاں یہ  ضرور یاد رہے کہ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے  کہ ولادت کے بعد عورت چالیس دن تک ضرور ناپاک رہتی ہے ، شرعاً یہ بات درست نہیں ہے۔ اس حوالے سے درست مسئلہ یہ ہے کہ چالیس دن کے اندر عورت کو جب بھی خون آنا بند ہوجائے تواس  کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ پاک ہوکر نماز پڑھے روزہ رکھے، پھر اگر چالیس  دن کے اندر دوبارہ خون نہ آئے تو یہ نماز روزے سب صحیح ہوں گے  اور اگر چالیس دن کے اندر دوبارہ خون آجائے  تو جو نمازیں اس نے پڑھی تھیں وہ  نہ ہوئی نہ ہی ان کی کوئی قضا ہوگی، اور جوروزے اس نے رکھے تھے بعد میں ان روزوں کی قضا کرے۔ دوسرا بچہ ہو توپھر سابقہ عادت کے دن کو دیکھتے ہوئے بھی بعض احکام ثابت ہوتے ہیں

حیض و نفاس کے بنیادی اور ضروری مسائل سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب”بہارِ شریعت، جلد 01، حصہ 02، صفحہ 369 تا 384“سےحیض و نفاس کا بیانکا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ  www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم