مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7694
تاریخ اجراء: 02
جمادی الاخریٰ
1443ھ/06 جنوری 2022
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتےہیں
علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کےبارےمیں کہ کتب
فقہ میں لکھا ہے کہ ناپاک مٹی سے برتن بنایا گیا، تو جب
تک وہ گیلا ہو، ناپاک ہوتا ہے اور سوکھ جائے، تو پاک ہو جاتا ہے، اب پوچھنا یہ
ہے کہ اگر ایسا برتن دوبارہ گیلا ہو جائے، تو وہ پھر ناپاک ہو جائے گا
یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب سے پہلے اس مسئلے کا پس منظر جان لیا جائے کہ
مختلف ناپاک چیزوں کو پاک کرنے کے مختلف طریقے
ہیں، بعض چیزیں دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں، بعض
رگڑنے سے ، بعض سے نجاست کو پونچھ لینے اور بعض دباغت سے پاک ہو جاتی
ہیں، اس طرح کے اور بھی کئی طریقے فقہاء نے بیان کیے
ہیں، جن میں ایک چیز مشترک ہے کہ کسی چیز کو
پاک کرنے کے لیے اس سے نجاست کو زائل کرنا ہوتا ہے اور جب نجاست زائل ہو
جائے، تو وہ چیز پاک ہو جاتی ہے۔
انہیں طریقوں میں سے ایک طریقہ
یہ ہے کہ ناپاک چیز کو آگ میں اس طرح جلایا جائے کہ نجاست
اور اس کا اثر بالکل ختم ہو جائے، تو وہ چیز پاک ہو جاتی ہے، اس کی
فقہاء نے مختلف مثالیں بیان کی ہیں، لیکن یہ یاد
رہے کہ محض سوکھ جانے یا آگ میں جلا لینے سے چیز پاک نہیں
ہو جاتی، جب تک کہ آگ میں جلنے سے اس سے نجاست کا اثر مکمل طور پر
زائل نہ ہو جائے۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ
مسئلہ ہے ،تو اس کی مکمل
تفصیل یہ ہے کہ ناپاک مٹی سے بنا برتن جب تک گیلا ہو،
ناپاک ہوتا ہے، اب اسے آگ میں ڈال کر پکایا گیا اور اس سے نجاست
کا اثر بالکل زائل ہو جائے، تو اب یہ برتن پاک شمار ہو گا کہ اب اس میں
نجاست موجود ہی نہیں ہے، اس لیے فقہاء نے اس کے پاک ہونے کی
علت یہ بیان کی کہ برتن کو آگ میں جلانے سے اس میں
موجود نجاست اور اس کا اثر مکمل زائل ہو جائے گا اور ازالہ ِ نجاست کی وجہ
سے وہ برتن پاک ہو جائے گا۔
اب پوچھی گئی
صورت کا جواب یہ ہے کہ اگر ناپاک مٹی سے بنا برتن اچھے طریقے
سے آگ میں پکا لیا جائے کہ جس سے نجاست کا اثر ختم ہو جائے، تو اب یہ
پاک ہے کہ اصل مقصود ازالہِ نجاست تھا اور وہ ہو چکا ہے اور اب اگر یہ برتن
پانی وغیرہ سے دوبارہ گیلا ہو جائے، تو بھی یہ پاک
ہی رہے گا کہ برتن بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے اور دو
پاک چیزوں کے ملنے سے چیز ناپاک نہیں ہوتی۔
اس کی نظائر
فقہاء کے بیان کردہ یہ مسائل بھی ہیں کہ
(1)توے یا تندور پر ناپاک پانی لگ گیا
اور پھر آگ سے جلنے کی وجہ سے وہ ناپاک تری جاتی رہی، تو
وہ توا اور تندور پاک ہے اور اس پر روٹی لگائی گئی، تو وہ بھی
پاک رہی رہے گی۔
(2)زمین
پر نجاست لگی اور پھر خشک ہو گئی اور نجاست کا اثر باقی نہ رہا،
تو یہ پاک ہو جائے گی اور پاک ہونے کے بعد اس پر کسی نے پانی
چھڑک دیا، تو یہ دوبارہ ناپاک نہیں ہو گی۔
ناپاک مٹی سے
بنائے گئے برتن کی پاکی کے بارے میں کلام کرتے ہوئے محیط
برہانی میں ہے:”الطين النجس إذا جعل منه الكوز أوالقدر فطبخ يكون طاهرا“ترجمہ: ناپاک مٹی سے کوزہ یا
ہنڈیا بنا لی اور اسے پکایا، تو یہ پاک ہے۔(محیط برھانی، کتاب
الطھارات، الفصل الثامن، جلد 1، صفحہ 390، مطبوعہ کراچی)
اسی بارے میں
در مختار میں ہے:”(طين تنجس فجعل منه كوز بعدہ جعله على النار) يطهر إن لم يظهر فيه أثر
النجس بعد الطبخ ذكره الحلبي“ترجمہ:مٹی ناپاک ہو گئی ، اس سے کوزہ بنایا
گیا اور اس کے بعد اسے آگ سے جلایا گیا ، تو یہ پاک ہے،
اگر اسے آگ پر پکانے کے بعد اس پر نجاست کا کوئی اثر نہ ہو، اسے امام حلبی
علیہ الرحمۃنے ذکر کیا۔(در مختار، کتاب الطھارۃ، باب الانجاس، جلد
1، صفحہ 571، مطبوعہ کوئٹہ)
اس کی علت بیان
کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد
فرماتے ہیں:”وعلله
بقوله لاضمحلال النجاسة بالنار وزوال أثرها“ترجمہ: انہوں نے اس کی علت یہ
بیان کی کہ آگ سے نجاست بالکل ختم ہو جائے گی اور اس کا اثر
زائل ہو جائے گا۔(رد المحتار، کتاب الطھارۃ، باب الانجاس، جلد 1، صفحہ 571، مطبوعہ
کوئٹہ)
آگ سے جلانے سے نجاست
کا اثر زائل ہو جائے، تو وہ پاک ہے کہ مقصود ازالہِ نجاست تھا اور وہ ہو چکا،
چنانچہ غنیۃ المتملی میں ہے:”يجوز إزالتها بالنار۔۔۔لأن
المقصود قلع أثرها ۔۔۔ تلطخ رأس الشاة مثلا به ثم أدخل النار
واحترق الدم وزال أثره طهر الرأس بالنار لحصول المقصود“ترجمہ: نجاست کو آگ سے زائل کر
سکتے ہیں، کیونکہ مقصود نجاست کا اثر ختم کرنا ہے، مثلا: بکری
کا سر خون سے آلودہ ہو گیا اور پھر اسے آگ میں ڈالا گیا اور خون
جل گیا اور اس کا اثر ختم ہو گیا، تو سر آگ سے پاک ہو جائے گا، کیونکہ
مقصود (نجاست کا اثر ختم کرنا )حاصل ہو گیا۔ (غنیۃالمتملی، کتاب الطھارۃ،
جلد 1، صفحہ 90، مطبوعہ ھند)
آگ سے پکا لینے سے طہارت کی
صورت کے بارے میں کلام کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی علیہ
الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”(قوله: ونار) لو أحرق موضع الدم من رأس الشاة بحر وله نظائر تأتي قريبا ولا
تظن أن كل ما دخلته النار يطهر كما بلغني عن بعض الناس أنه توهم ذلك، بل المراد أن
ما استحالت به النجاسة بالنار أو زال أثرها بها يطهر“شارح کا یہ کہنا کہ آگ سے چیز
پاک ہو جاتی ہے، اگر بکری کے سر پر خون لگا اور اس خون والی جگہ
کو جلا دیا (تو وہ پاک ہے)بحر ۔اور اس کی کچھ نظائر عنقریب
آئیں گی اور یہ گمان نہ کیا جائے کہ جس چیز کو بھی
آگ میں داخل کریں گے ،وہ پاک ہو جائے گی، جیسا کہ مجھے یہ
بات پہنچی کہ بعض لوگ ایسے سمجھ رہے ہیں، بلکہ مراد یہ
ہے کہ آگ سے نجاست ختم ہو جائے اور اس کا اثر زائل ہو جائے، تو وہ پاک ہو گی۔(رد المحتار، کتاب الطھارۃ،
باب الانجاس، جلد 1، صفحہ 570، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں
ہے:”ناپاک مٹی سے برتن بنائے، تو جب تک کچّے ہیں ناپاک ہیں، بعد
پختہ کرنے کے پاک ہو گئے۔“(بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 402، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تندور ناپاک ہوا، تو
آگ سے پاک ہونے کے بعد اس میں لگائی گئی روٹی کے بارے میں
محیط برہانی میں ہے:”وإذا سعرت التنور ثم مسحه بخرقة مبتلة نجسة ثم حرقت فيه فإن كانت حرارة
النار أكلت بلة الماء قبل إلصاق الخبز بالتنور لا يتنجس الخبز لأن النجاسة لا تبقى“ترجمہ: عورت نے تندور
گرم کیا، پھر اس کو کسی ایسے کپڑے سے پونچھا جو نجاست سے بھیگا
ہوا تھا، پھر اس میں روٹی پکائی، اگر روٹی لگنے سے پہلے
اس کی تری آگ کی گرمی سے جل چکی تھی، تو روٹی
نجس نہیں ہو گی، کیونکہ نجاست باقی نہیں رہی۔(محیط برھانی، کتاب
الطھارات، الفصل الثامن، جلد 1، صفحہ 387، مطبوعہ کراچی)
ناپاک توا آگ میں
جل کر پاک ہو گیا، تو اب لگائی جانے والی روٹی پاک رہے گی،
چنانچہ بہار شریعت میں ہے:”تنور یا تَوے پر ناپاک پانی کا
چھینٹا ڈالا اور آنچ سے اس کی تری جاتی رہی، اب
جوروٹی لگائی گئی، پاک ہے۔“(بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 402، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
فتاوی عالمگیری اور فتاوی
قاضی خان میں ہے،واللفظ للثانی:’’والأرض إذا أصابتها النجاسة فجفت وذهب أثرها ثم أصابها الماء بعد ذلك،
الصحيح أنه لا يعود نجسا وكذا لو جفت الأرض وذهب أثر النجاسة ورش عليها الماء وجلس
عليها لا بأس به“ترجمہ: اور جب زمین پر نجاست لگی اور خشک ہو گئی اور
نجاست کا اثر نہ رہا، (تو وہ پاک ہے)اور پھر اس پر پانی لگا، تو صحیح
یہ ہے کہ یہ دوبارہ ناپاک نہیں ہو گی اور اسی طرح
اگر زمین خشک ہو گئی اور نجاست کا اثر نہ رہا اور اس پر پانی چھڑکا
گیا اور اس پر کوئی بیٹھ گیا، تو اس میں کوئی
حرج نہیں ہے۔ (فتاوی قاضی خان، فصل
فی النجاسۃ، جلد 1، صفحہ 25 تا 26، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟