Namaz Ke Ilawa Napak Kapde Pehenne Ka Hukum

نماز کے علاوہ ناپاک کپڑا پہننے کا حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12081

تاریخ اجراء:       02رمضان المبارک1443 ھ/04اپریل2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گھر میں کام کاج کے طور پر ناپاک کپڑا پہن سکتے ہیں جبکہ نجاست خشک ہوچکی ہو؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بہتر ہے کہ ناپاک کپڑا نہ پہنا جائے ، کیونکہ پسینہ آنے یا گیلے ہونے سے بدن کے نجس ہونے کا امکان رہتا ہے ، البتہ مطلقاً ناپاک کپڑا  پہننا گناہ نہیں ہے ،جبکہ اس پر لگی نجاست خشک ہو۔ہاں اگر نجاست ایسی تازہ ہے کہ کپڑا پہننے سے نجاست چھوٹ کر بدن کو لگے گی تواس صورت میں پاک کپڑا ہوتے ہوئے ناپاک کپڑا پہننا جائز نہیں ہوگاکہ یہ بلاوجہ بدن کو ناپاک کرنا ہے۔

   نماز کے علاوہ عام حالات میں ناپاک کپڑا پہننے سے متعلق بحر الرائق اوردرّ مختارمیں ہے: واللفظ للدرّولہ لبس ثوب نجس فی غیر صلوۃٍ“یعنی نماز کے علاوہ میں آدمی ناپاک کپڑا پہن سکتا ہے۔

   اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:”ولم یتعرض لحکم تلویثہ بالنجاسۃ والظاھر انہ مکروہ لانہ اشتغال بما لا یفید“یعنی یہاں شارح نے تلویثِ نجاست کا حکم بیان نہیں کیااور ظاہر یہ ہے کہ (تلویثِ نجاست نہ ہونے کی صورت میں ناپاک کپڑا پہننا)مکروہ ہو کہ یہ ایک فضول کام میں پڑنا ہے۔ (الدرّ المختاروردّ المحتار،ج2، ص93،مطبوعہ  کوئٹہ)

   پا ک چیز کو ناپاک کرنے سے متعلق حاشیہ طحطاویمیں ہے:”وتنجیس الطاھر بغیر ضرورۃ لا یجوز“یعنی بغیر کسی وجہ کے پاک چیز کو ناپاک کرنا،جائز نہیں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ج1،ص79،مطبوعہ  مکتبہ غوثیہ ، کراچی)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”غیر نماز میں نجس کپڑا پہنا تو حرج نہیں اگرچہ پاک کپڑا موجود ہو اور جو دوسرا نہیں تو اسی کو پہننا واجب ہے۔یہ اس وقت ہے کہ اس کی نجاست خشک ہو،چھوٹ کر بدن کو نہ لگےورنہ پاک کپڑا ہوتے ہوئے ایسا کپڑا پہننا مطلقاً منع ہے کہ بلاوجہ بدن ناپاک کرنا ہے۔“ (بھار شریعت،ج1، حصہ3،ص480،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم