Mustamil Pani Se Istinja Karna Kaisa ?

مستعمل پانی سے استنجا ء کرنا

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-955

تاریخ اجراء:       06محرم الحرام1443 ھ/06اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا مستعمل پانی سے استنجا ء کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہا ں ! مستعمل پانی سے استنجاء کر سکتے ہیں ۔کیونکہ مستعمل پانی اگرچہ وضو اور غسل کے قابل نہیں رہتا، مگر یہ ناپاک نہیں ہوتا،جب تک اس میں کوئی نجاست نہ جائے، اس لئے  اگراس میں کوئی نجاست نہیں گئی تواس سے استنجاء کر سکتے ہیں اور اس سے استنجاء کرنے سے پاکی حاصل ہو جائے گی۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے” يجوز تطهير النجاسة بالماء وبكل مائع طاهر يمكن إزالتها به ۔۔۔ومن المائعات  الماء المستعمل “ ترجمہ:پانی کے ساتھ نجاست دور کرنا جائز ہے،اسی طرح ہر مائع چیز جس سے نجاست زائل کرنا ممکن ہو،اس سے نجاست دور کرنا جائز ہے،اور مائع چیزوں میں سے ماء مستعمل بھی ہے۔ (فتاوی ہندیہ،ج 1،ص 41،دار الفکر،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:" راجح ومعتمد یہ ہے کہ مکلّف پر جس عضو کا دھونا کسی نجاست حکمیہ مثل حدث وجنابت وانقطاع حیض ونفاس کے سبب بالفعل واجب ہے وہ عضو یا اُس کا کوئی حصّہ اگرچہ ناخن یا ناخن کا کنارہ آبِ غیر کثیر میں کہ نہ جاری ہے نہ دہ  دردہ بے ضرورت پڑ جانا پانی کو قابلِ وضو وغسل نہیں رکھتا یعنی پانی مستعمل ہوجاتا ہے کہ خود پاک ہے اور نجاست حکمیہ سے تطہیر نہیں کرسکتا اگرچہ نجاست حقیقیہ اس سے دھو سکتے ہیں، یہی قول نجیح ورجیح ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 2،ص 113،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم