مجیب: مفتی محمد
قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-6683
تاریخ اجراء: 10رجب المرجب1442ھ23فروری 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس بارے میں کہ
(1) مقیم و مسافر کے
لیے موزوں پر مسح کی مدت کتنی ہے؟ اور یہ بھی بتائیں
کہ موزوں پر مسح کی ابتدا کس وقت سے ہو گی؟
(2) نیز اگر کسی مقیم نے وضو کر کے
موزے پہن لیے، لیکن شرعی سفر پہ چلا گیا، تو اب وہ مسح کس
وقت تک کر سکتا ہے اور اس کے برعکس صورت میں کیا حکم ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)موزوں
پر مسح کرنے کی مدت مقیم شخص کے لیے ایک دن رات اور
شرعی مسافر کے لیے تین دن تین راتیں ہیں اور مدتِ مسح کی ابتدا (دیگر شرائط
کی موجودگی میں) موزے پہننے کے بعد پہلی مرتبہ وضو ٹوٹنے
کے وقت سے ہو گی، مثلاً :کسی نے صبح کے وقت طہارت حاصل کرکے موزے پہنے
اور ظہر کے کسی وقت مثلاً: تین بجے وضو ٹوٹا، تو مقیم شخص دوسرے
دن کی ظہر کے اسی وقت یعنی تین بجے تک اور
شرعی مسافر چوتھے دن کی ظہر کے اسی وقت تک کر سکتا ہے۔
صحیح مسلم شریف میں ہے، حضرت
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم موزوں پر
مسح کے متعلق فرماتے ہیں: ’’جعل رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثۃ ایام ولیالھن للمسافر
ویوماً ولیلۃ للمقیم‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے
لیے ایک دن اور ایک رات (موزوں پر مسح کرنے) کی مدت مقرر
فرمائی۔(الصحیح لمسلم، کتاب
الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، جلد 1،
صفحہ 135، مطبوعہ کراچی)
سنن ابن
ماجہ میں ہے:’’انہ رخص للمسافر اذا توضا ولبس
خفیہ، ثم احدث وضوءا، ان یمسح ثلاثة ایام ولیالیھن،
وللمقیم یوماً ولیلةً ‘‘ ترجمہ: نبی کریم (صلی اللہ علیہ
وسلم) نے مسافر کو یہ رخصت دی کہ جب وہ وضو کر کے موزے پہنے، پھر حدث
(اصغر) لاحق ہو، تو وہ تین دن اور تین راتیں مسح کرے اور
مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی اجازت
دی۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ وسننھا، جلد 1، صفحہ 184، دار
احیاء الکتب العربیہ)
فتاوی
قاضی خان و محیط برہانی میں ہے: ’’ قال علماؤنا رحمة اللہ علیھم: یمسح
المقیم یوماً ولیلة، والمسافر ثلاثة ایام
ولیالیھا،۔۔ وابتداءالمدة یعتبر من وقت الحدث عند
علمائنا، حتی ان من توضا فی وقت الفجر وھو مقیم وصلی
الفجر، ثم طلعت الشمس، فلبس الخفین، ثم زالت الشمس وصلی الظھر، ثم
احدث، ثم دخل وقت العصر، فتوضا ومسح علی الخفین فقدرنا مدة المسح
باقیة الی الغد الی الساعة التی احدث فیھا
الیوم‘‘ ترجمہ: علمائے احناف فرماتے ہیں:
مقیم ایک دن، ایک رات تک موزوں پہ مسح کر سکتا ہے اور مسافر
تین دن اور تین راتوں تک،۔۔ علمائے احناف کے نزدیک
مدتِ مسح کی ابتدا حدث (اصغر) لاحق ہونے کے وقت سے ہو گی، حتی
کہ اگر کسی مقیم شخص نے فجر کے وقت میں وضو کر کے نماز
پڑھی، پھر سورج طلوع ہوا تو اس نے موزے پہن لیے، پھر وقتِ زوال ظہر
ادا کی، پھر وضو ٹوٹ گیا، اب عصر کے وقت وضو کر کے موزوں پر مسح کیا، تو اب مدتِ مسح اگلے دن کے
اسی وقت تک باقی رہے گی، جس وقت آج وضو ٹوٹا تھا۔ ( محیط برھانی، کتاب الطھارات، جلد 1، صفحہ
196، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’موزہ
پہننےکے بعد پہلی مرتبہ جو حدث ہوا، اس وقت سے اس کا شمار ہے، مثلاً: صبح کے
وقت موزہ پہنا اور ظہر کے وقت پہلی بار حدث ہوا، تو مقیم دوسرے دن
کی ظہر تک مسح کرے اور مسافر چوتھے دن کی ظہر تک۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 2، صفحہ 365، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
(2) مقیم شخص نے طہارت حاصل کر کے موزے
پہن لیے اور مدتِ مسح کے دوران شرعی مسافر ہو گیا، تو اس کے حق
میں مدتِ مسح مسافر والی ہو جائے گی، یعنی اب وہ
شخص ابتدائے حدث سے لے کر تین دن، تین راتوں تک موزوں پر مسح کر سکتا
ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شرعی مسافر شخص مقیم ہو گیا،
تو اب اس کے حق میں مدتِ مسح مقیم والی ہو جائے گی، لہذا
اگر مقیم والی مدت (ایک دن ایک رات) پوری ہو
چکی ہے، تو مقیم ہوتے ہی اس کا مسح جاتا رہا، اب نماز
وغیرہ ادا کرنے کےلیے موزے اتار کر پاؤں دھونے ہوں گے، البتہ اگر
ایک دن رات (ابتدائے حدث سے لے کر اب تک چوبیس گھنٹے) نہیں گزرے
تھے، تو اس میں جتنا وقت باقی ہے، موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔
بہار
شریعت میں ہے:’’مقیم کو ایک دن رات پورا نہ ہوا تھا کہ
سفر کیا، تو اب ابتدائے حدث سے تین دن، تین راتوں تک مسح کر
سکتا ہے اور مسافر نے اقامت کی نیت کر لی، تو اگر ایک دن
رات پورا کر چکا ہے، مسح جاتا رہا اور پاؤں دھونا فرض ہو گیا اور نماز
میں تھا تو نماز جاتی رہی اور اگر چوبیس گھنٹے پورے نہ
ہوئے، تو جتنا باقی ہے، پورا کر لے۔‘‘ (بھار شریعت، حصہ 2، صفحہ 365، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
یاد
رہے! موزوں پر مسح کی مدت حدثِ صغر لاحق ہونے
(یعنی وضو ٹوٹنے) سے شروع ہو گی، ورنہ اگر حدثِ اکبر لاحق (
یعنی غسل لازم) ہوا، تو موزوں پر مسح کافی نہیں ہو گا،
بلکہ انہیں اتار کر پاؤں ہی دھونے ہوں گے۔
بدائع الصنائع میں ہے: ’’ ومنھا: ان یکون الحدث خفیفا، فان کان
غلیظا، وھو الجنابة، فلا یجوز فیھا المسح‘‘ ترجمہ: موزوں پر مسح درست ہونے کی
ایک شرط یہ ہے کہ حدثِ خفیف لاحق ہوا ہو (یعنی وضو
ٹوٹا ہو)، پس اگر حدث غلیظ (یعنی غسل لازم ہوا) ہو، تو موزوں پر
مسح کافی نہیں ہو گا۔‘‘ ( بدائع الصنائع،
کتاب الطھارة، بیان مدة المسح، جلد 1، صفحہ 82، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟