Moo Bhar Ulti Ke Zarrat Nigal Lene Ka Kya Hukum Hai ?

قے کے ذرات نگلنے کا حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-11880

تاریخ اجراء: 18ربیع الثانی1443 ھ/24نومبر 2021   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ منہ بھر قے میں آنے والے کھانے کے کچھ ذرات ابھی منہ میں باقی ہوں ، تو کلی کیے بغیر فوراً ہی ان ذرات کو نگل لینے کا کیا حکم ہے؟ کیا ایسا کرنا ناجائز و گناہ ہے ؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ان نجس ذرات کو نگل لینا شرعاً  ناجائز و گناہ ہے۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایسی منہ بھر قے جس میں کھانا، پانی یا صفراء نکلے تو وہ قے  وضو کو توڑ دیتی ہےاور انسانی بدن سے نکلنے والی ہر وہ چیز جو وضو یا غسل کو واجب کردے،نجاستِ غلیظہ ہےاور شرعی طور پر کسی نجاست کو کھانا یا نگلنا ناجائزوگناہ ہے۔جیساکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کسی شخص کے منہ سے اتنا خون نکلے جس سے اس کا تھوک سرخ ہوجائے،  تو اس صورت میں اس شخص کا منہ پاک کیے بغیر ہی اس ناپاک تھوک کو نگل لینا گناہ ہے۔ اس پوری تفصیل سے واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں منہ بھر قے میں آنے والے ان نجس ذرات کو نگل لینا شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔

   منہ بھر قے میں کھانا، پانی یا صفراء آئے ،تو وہ قے وضو کو توڑ دیتی  ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: (و) ينقضه (قيء ملأ فاه) بأن يضبط بتكلف (من مرة) بالكسر: أي صفراء (أو علق) أي سوداء۔۔۔۔(أو طعام أو ماء) إذا وصل إلى معدته وإن لم يستقر، وهو نجس مغلظ، ولو من صبي ساعة ارتضاعه، هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي یعنی وہ قے وضو کو توڑ دیتی ہے جو منہ بھر ہو کہ جس کا روکنا مشکل ہو، خواہ وہ صفراء کی ہو یا سوداء کی ہو یا پھر کھانے اور پانی کی قے ہو، جبکہ وہ پانی اس شخص کے معدے تک پہنچ چکا ہو، اگرچہ معدے میں ٹھہرا  نہ ہو اور ایسی قے  نجاستِ غلیظہ ہے،اگرچہ وہ قے دودھ پیتے  بچے نے اسی وقت کی ہو ، یہی بات صحیح ہے ۔ نجاست کے ملنے کی وجہ سے (وہ دودھ نجس ہوچکا ہے)، علامہ حلبی علیہ الرحمۃ نے اسے ذکر کیا ہے۔

    (ذكره الحلبي)کے تحت رد المحتار میں ہے: أي في شرح المنية الكبير، حيث قال: والصحيح ظاهر الرواية أنه نجس لمخالطته النجاسة وتداخلها فيه بخلاف البلغم. اهـ ترجمہ: ” یعنی "شرح منیۃ الکبیر" میں علامہ حلبی نے  فرمایا کہ ظاہر الروایہ ہی صحیح ہے کہ نجس چیز سے ملنے اور معدے میں داخل ہونے کے سبب قے نجس ہے، برخلاف بلغم کے ۔ (ملتقطاً و ملخصاً  من رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ،    ج 01، ص 290-289،  مطبوعہ کوئٹہ)

   انسانی بدن سے نکلنے والی جو رطوبت وضو یا غسل کو واجب کردے وہ نجاستِ غلیظہ ہے۔ جیسا کہ بحر الرائق، محیط برہانی، بدائع الصنائع اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”والنظم للاخیر“كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي والودي والقيح والصديد والقيء إذا ملأ الفم۔ كذا في البحر الرائقیعنی انسانی بدن سے نکلنے والی ہر وہ چیز کہ جو وضو یا غسل کو واجب کردے، تو وہ نجاستِ غلیظہ ہے، جیسا کہ پاخانہ،  پیشاب، منی،  مذی،  ودی،کچ لہو ،  پیپ اور منہ بھر قے، جیساکہ بحر الرائق میں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطھارۃ،   ج 01، ص 46،  مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” انسان کے بدن سے جو ایسی چیز نکلے کہ اس سے غُسل یا وُضو واجب ہونَجاستِ غلیظہ ہے ،جیسے پاخانہ، پیشاب، بہتا خون، پیپ، بھر مونھ قے، حَیض و نِفاس و اِستحاضہ کا خون،مَنی،مَذی، وَدی۔“ (بھارشریعت ،ج01،ص390، مکتبہ  المدینہ، کراچی)

   کسی نجاست کو کھانا یا نگلنا شرعاً جائز نہیں، جیسا کہ مبسوط سرخسی  میں ہے: إذا وقعت قطرة من خمر أو مسكر أو نقيع زبيب قد اشتد في قدح من ماء أمرت بإراقته وكرهت شربه والتوضؤ به لأنه تنجس بما وقع فيه والتوضؤ بالماء النجس لا يجوز۔ وإذا شربه فلا بد أن يكون شاربا للقطرة الواقعة فيه وذلك حرام یعنی جب کسی پیالے میں موجود پانی میں شراب یا نشہ آور شے یا خشک انگور کی ایسی نبیذ کہ جس میں تیزی آگئی ہو، اس  کا ایک قطرہ گرجائے ،تو میں اس پانی کو گرانے کا حکم دوں گا اور اس کو پینا ، اس سے وضوکرنا مکروہ قرار دوں گا کیونکہ نجاست گرنے کے سبب ناپاک ہو چکا اور نجس پانی سے وضو نہیں ہو سکتا ۔ جب اسے پئے گا تو لازما اس میں گرے ہوئے قطرے کو بھی پینے والا ہو گا اور یہ حرام ہے ۔ (      المبسوط، کتاب الاشربۃ،   ج 24، ص 23،  مطبوعہ کوئٹہ)

   بدائع الصنائع میں ہے: إذا وقعت الفأرة في السمن فماتت فيه انہ ان کان جامدا تلقی الفارۃ وما حولھا ویؤکل الباقی ۔۔۔لانھا في الجامد لا تجاور إلا ما حولها وفي الذائب تجاور الكل ، فصار الكل نجسا ، وأكل النجس لا يجوزیعنی جب چوہا گھی میں گرکر مرجائے، تو اگر وہ جما ہواہے تو چوہا اور اس کے اردگرد کا گھی نکال کر پھینک دیاجائے ، باقی کو کھایا جائے ۔۔۔  اس وجہ سے کہ جمے ہوئے گھی میں چوہا ارد گرد میں ہی سرایت کرےگا ،جبکہ گھی پگھلا ہو، تو پورے گھی میں سرایت کرے گا ،لہذا سارا گھی نجس ہو جائے گا اور نجاست کھانا ، جائز نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ،   ج 01، ص 236،  دار الحدیث ،قاھرہ)

   نجاست کو چاٹنے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :”انگلی کی نجاست چاٹ کر پاک کرنا کسی سخت گندی ناپاک رُوح کا کام ہے اور اسے جائز جاننا شریعت پر افترا واتہام اور تحلیل حرام اور قاطع اسلام ہے اور یہ کہنا محض جھُوٹ ہے کہ منہ بھی پاک رہے گا نجاست چاٹنے سے قطعاً ناپاک ہوجائے گا ،اگرچہ بار بار وہ نجس ناپاک تھوک یہاں تک نگلنے سے کہ اثر نجاست کا مُنہ سے دُھل کر سب پیٹ میں چلاجائےگا، پاک ہوجائےگا ،مگر اس چاٹنے نگلنے کو وہی جائز رکھے گا جو نجس کھانے والا ہے۔(فتاوی رضویہ،ج04،ص 565، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں :”  کسی کے مونھ سے اتنا خون نکلاکہ تھوک میں سرخی آگئی اور اس نے فوراً پانی پیا ،تو یہ جھوٹا ناپاک ہے اور سرخی جاتی رہنے کے بعد اس پر لازم ہے کہ کُلی کرکے مونھ پاک کرے اور اگر کُلی نہ کی اور چند بار تھوک کا گزر موضع نَجاست پر ہوا، خواہ نگلنے میں یا تھوکنے میں یہاں تک کہ نَجاست کا اثر نہ رہا، تو طہارت ہو گئی ،اس کے بعد اگر پانی پیے گا ،تو پاک رہے گا ،اگرچہ ایسی صورت میں تھوک نگلنا سَخْت ناپاک بات اور گناہ ہے۔ (بھارشریعت ،ج01،ص341، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم