Mazi Ka Ek Qatra Ya Chand Qatre Kapde Par Gir Jayen Tu Hukum

مذی کا ایک قطرہ یا چند قطرے نکلے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1210

تاریخ اجراء: 20جمادی الثانی1445 ھ/03جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر مذی کا ایک یا چند قطرے کپڑے پر لگے تو کیا کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے؟ نیز کیا  مذی کا ایک قطرہ بھی بے وضو کر دیتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذی کا ایک قطرہ نکلے تو بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور انسانی بدن سے کوئی ایسی چیز نکلے جو وضو کو توڑ دے ، تو وہ نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے کے کسی حصہ  پر لگ جائے توکپڑے کا وہ حصہ ناپاک ہوجاتا ہے۔ البتہ ان کپڑوں میں نماز پڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ جب نجاست درہم کی مقدار سے کم ہو تو بغیر پاک کئے نماز ہوجائے گی لیکن پاک کرکے پڑھنا بہتر ہے۔ ہاں اگر درہم کے برابر لگی ہو تو پھر پاک کرنا ضروری  ہے ورنہ نماز دہرانا واجب ہوگا اور اگردرہم سے زائد لگی ہو تو نماز ہوگی ہی نہیں۔

   مذی نکلنے سے وضو کا حکم بیان کرتے ہوئےعلامہ ابنِ نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اجمع العلماء انه لا يجب الغسل بخروج المذی والودی كذا فی شرح المهذب واذا لم يجب بهما الغسل وجب بهما الوضوء “یعنی علما کا اجماع ہے کہ مذی اور ودی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ایسا ہی شرح مہذب میں ہے اور جب ان دونوں سے غسل واجب نہیں ہوتا ، تو ان سے وضو واجب ہوگا۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 115، مطبوعہ : کوئٹہ)

   مذی نجاستِ غلیظہ ہے،اس کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:”کل مایخرج من بدن الانسان مما یوجب خروجہ الوضوء او الغسل  فھو مغلظ  کالغائط والبول والمنی والمذی“یعنی وضو و غسل واجب کرنے والی چیزوں میں سے جو چیز بدنِ انسانی سے نکلے تو نجاستِ غلیظہ ہے جیسے پاخانہ، پیشاب، منی اور مذی۔ (فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 46، مطبوعہ:پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”نجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے ، تو اس کا پاک کرنا فرض ہے، بے پاک کئے نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا اور اگر بہ نیتِ استخفاف ہے، تو کفر ہوا اور اگر درہم کے برابر ہے ، تو پاک کرنا واجب ہےکہ بے پاک کئے نماز پڑھی ، تو مکروہِ تحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کا اعادہ واجب ہے اور قصداً پڑھی، تو گناہ گار بھی ہوا اور اگر درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کئے نماز ہوگئی  مگر خلافِ سنت ہوئی اور اس کا اعادہ بہتر ہے۔“(بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم