Kya Wet Wipes Se Bache Ka Badan Pak Ho Jayega ?

کیا wet wipesسے بچے کا بدن پاک ہو جائے گا یا دھوناضرور ی ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2179

تاریخ اجراء:       15 جمادی الاولی 1443ھ/20 دسمبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نومولود بچے کو قضائے حاجت کی صورت میں  بار بار پانی سے نہیں دھلا سکتے ، تو کپڑے یا wet wipes سے صاف کرتے ہیں ، کیا ایسی صورت میں اس کا جسم پاک ہو جائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نجاست دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک مرئی جو سوکھ جانے کے بعد بھی نظر آتی ہے اور دوسری غیر مرئی جو سوکھ جانے کے بعد نظر نہیں آتی جیسے پیشاب وغیرہ ۔ جب جسم پر نجاست لگ جائے ، تو اسے پاک کرنے کے لیے پانی بہانا ہی شرط نہیں ، بلکہ یہ شرط ہے کہ مرئی نجاست ہو ، تو اسے اِس طرح صاف کیا جائے کہ اس کا اثر یعنی رنگ یا بُو ختم ہوجائے ،مگر اُتنا جس کا ازالہ شاق ہو (یعنی دور کرنا مشکل ہو) اور غیر مرئی نجاست یعنی پیشاب وغیرہ ہو ، تو جسم سے اس کے مکمل  طور پر دور ہو جانے کا خَیال جم جائے ۔ اس کے لیے جسم کو چاہے پانی سے دھویا جائے یا پاک کپڑا پانی وغیرہ میں بھگو کر اس سے یا اس کے چند ٹُکڑوں یا wet wipes سے صفائی کی جائے ، جسم پاک ہو جائے گا ، اگرچہ پانی کا ایک قطرہ بھی نہ بہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب ایک بار کپڑے یا وائپ کو استعمال کر لیا ، تو اب اسے پاک کر کے استعمال کریں، یا دوسرا پاک کپڑا استعمال کریں یا دوسرے وائپ سے صفائی کی جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وائپ خشک نہ ہوں ،wet یعنی گیلے ہوں کیونکہ wipes کو استعمال سے پہلے کھلا چھوڑ دینے سے وہ خشک ہو جاتے ہیں ۔

   لہٰذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں جب بچے کے جسم سے پاک گیلے کپڑے یا wet wipes کے ذریعے اوپر بیان کی گئی تفصیل کے مطابق نجاست دور کر دی جائے ، تو اس کا جسم پاک ہو جائے گا ۔

   بدن ناپاک ہو جائے ، تو پانی سے دھونے کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی پاک ہو سکتا ہے ، اس کی تفصیل ذکر کرنے کے بعد علامہ شمس الدین محمد ابنِ امیر حاج رحمۃ اللہ علیہ حلبۃ المجلی میں فرماتے ہیں : ”اعلم بانھم صرحوا کما فی الخلاصۃ و کما یشیر الیہ ما نقلناہ اٰنفا من الخانیۃ بان الحکم بالطھارۃ فی ھذہ الفروع تفریع علی ان الطھارۃ للبدن من النجاسۃ الحقیقیۃ یکون بغیر الماء من المائعات الطاھرات و ۔۔۔ فی محیط الشیخ رضی الدین : ولومسح موضع المحجمۃ بثلاث خرقات رطبات نظاف اجزأہ من الغسل ، لانہ عمل عمل الغسل ، ملخصا “ ترجمہ : جان لو کہ فقہائے کِرام نے اس بات کی تصریح کی ہے ، جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے اور جیسا کہ اس کی طرف وہ مسائل اشارہ کرتے ہیں ، جنہیں ہم نے ابھی فتاوی قاضی خان سے نقل کیا ہے کہ ان مسائل میں طہارت یعنی جسم کی پاکی کے حکم کی بنیاد اس بات پر ہے کہ جسم حقیقی نجاست سے پانی کے علاوہ دوسری بہنے والی پاک چیزوں کے ذریعے بھی پاک ہو جاتا ہے اور شیخ رضی الدین رحمۃ اللہ علیہ کی محیط میں ہے : اور اگر پچھنے لگانے (یعنی حِجامہ) کی جگہ کو کپڑے کے تین گیلے پاک ٹُکڑوں سے پُونچھا (یعنی مل کر صاف کیا) ، تو یہ اسے دھونے کے قائم مقام ہے ، کیونکہ اس نے دھونے کا عمل ہی کیا ہے ۔  (حلبۃ المجلی فی شرحِ منیۃ المصلی ، ج1 ، ص517 ، مطبوعہ دار الکتب العمیہ ، بیروت)

   رد المحتار میں ہے : ” ممایطھر بالمسح موضع الحجامۃ ، ففی الظھیریۃ : اذامسحھا بثلاث خرق رطبات نظاف اجزأہ عن الغسل ، واقرہ فی الفتح “ ترجمہ : جو چیزیں مسح (یعنی مل کرصاف کرنے) سے پاک ہو جاتی ہیں ، ان میں سے جسم کی وہ جگہ بھی ہے ، جہاں پَچھنا لگایا (یعنی حِجامہ کیا) گیا ہو ۔ ظہیریہ میں ہے کہ جب اس جگہ کو کپڑے کے تین گیلے پاک ٹُکڑوں سے پُونچھا ، تو یہ اسے دھونے کے قائم مقام ہے اور فتح القدیر میں اسے برقرار رکھا ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، ج1 ، ص563 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”فقیر غفراللہ تعالی اسی پر فتویٰ دیتا ہے کہ بدن سے نجاست دُور کرنے میں دھونا یعنی پانی وغیرہ بہانا شرط نہیں ،بلکہ اگر پاک کپڑا پانی میں بھگوکر اس قدر پونچھیں کہ نجاست مرئیہ ہے ،تو اس کا اثر نہ رہے، مگر اُتنا جس کا ازالہ شاق ہو (یعنی دور کرنا مشکل ہو) اور غیر مرئیہ ہے، تو ظن غالب ہوجائے کہ اب باقی نہ رہی اور ہر بار کپڑا تازہ لیں یا اُسی کو پاک کرلیا کریں، تو بدن پاک ہوجائے گا ، اگرچہ ایک قطرہ پانی کا نہ بہے۔ یہ مذہب ہمارے امامِ مذہب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے اور یہاں امام محمد بھی اُن کے موافق ہیں اور بہت اکابر ائمہ فتوی نے اسے اختیار فرمایا اور عامہ کتب معتبرہ مذہب میں بہت فروع اسی پر مبتنی ہیں ، تو اس پر بے دغدغہ عمل کیا جاسکتا ہے ۔ مثلا ۔۔۔ بلی نے چوہا کھا کر زبان سے اپنا منہ صاف کر لیا اور دیر گزری کہ دہن (منہ) بوجہِ لعاب (تھوک کی وجہ سے) صاف ہو گیا ، اس کے بعد پانی پیا ، پانی ناپاک نہ ہو گا ۔۔۔ پچھنے لگائے اور مَوضعِ خون کو بھیگے ہوئے پاکیزہ کپڑے کے تین ٹُکڑوں سے پُونچھ دیا ، پاک ہو گیا ۔ یہ صورتِ مسئولہ (پوچھی گئی صورت) کا خاص جزئیہ ہے کہ محیطِ رضوی و فتاوٰی ذخیرہ و تتمۃ الفتاوٰی ظہیریہ و حلبہ وغیرہا میں اس کی تصریح ہے ۔۔۔ تو حاصلِ مذہب امام ِمذہب رضی اللہ تعالی عنہ  یہ قرار پایا کہ بدن سے ازالۂ نجاستِ حقیقیہ پانی ، لُعابِ دَہن ، خواہ کسی مائع طاہر سے ہو ، دھو کر ، خواہ پُونچھ کر کہ اثر نہ رہے ، مطلقاً  کافی و موجب طہارت ہے ۔ ملخصا “          (فتاوٰی رضویہ ، ج4 ، ص464،470 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں : ”کپڑا پانی یا عرَق میں خوب بھگو کر اُس سے موضعِ نجاست (ناپاکی کی جگہ) کو مَلے ، دوبارہ دوسرا کپڑا ، سہ بارہ تیسرا بھگو کر مَلے ، طہارت ہو جائے گی ۔ “(فتاوٰی رضویہ ، ج4 ، ص556 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم