Kya So Kar Uthne Ke Baad Istinja Karna Zaroori Hai ?

کیا سو کر اٹھنے کے بعد استنجاء کرنا ضروری ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12582

تاریخ اجراء: 11جمادی الاولیٰ1444 ھ/06دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا سو کر اٹھنے کے بعد نمازِ فجر کے لیے  استنجاء کرنا ضروری ہے؟ جبکہ استنجاء کی حاجت بھی نہ ہو۔ اور اگر کوئی بغیر استنجاء کیے فقط وضو کرکے ہی نماز پڑھ لے تو کیا اس کی وہ  نماز ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعاً استنجاء سے مراد سبیلین (یعنی اگلے پچھلے مقام)سے نکلنے والی نجاست کو دور کرنا ہے، اگر کسی شخص کو استنجاء کی حاجت ہی نہ ہو اور نہ ہی سبیلین پر کوئی نجاست لگی ہوئی ہو، تو اس صورت میں بغیر استنجاء کیے بھی بلاکراہت نماز ہوجائے گی۔

   درِ مختار میں ہے:إزالة نجس عن سبيل فلا يسن من ريح وحصاة ونوم وفصدیعنی سبیلین سے نجاست کو دور کرنے کا نام استنجاء ہے لہذا ہوا خارج ہونے، کنکری نکلنے، سوکر اٹھنے اور پچھنے لگوانے کے بعد استنجاء کرنا مسنون نہیں ۔

    (ونوم)کے تحت رد المحتار میں ہے:لأنه ليس بنجس أيضاً۔“یعنی سو کر اٹھنے کے بعد استنجاء مسنون نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نیند نجس نہیں ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 599، مطبوعہ کوئٹہ)

   فقیہ اعظم مفتی محمد نور اللہ نعیمی صاحب   علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”ایک آدمی با وضو تھا لیکن ہوا دبر سے خارج ہوئی تو وضو ٹوٹ گیا لیکن پھر دوبارہ وضو جب کرتے ہیں تو وضو پورا کیا جاتا ہے اور استنجاء نہیں کیا جاتا، اس کی کیا وجہ؟۔“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”ہوا سے جسم آلودہ نہیں ہوتا لہذا استنجاء کی ضرورت نہیں اور شلوار دھونی بھی ضروری نہیں۔(فتاوٰی نوریہ، ج 01، ص 125-124، دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم