Kya Na Baligh Bache Ke Wazu Karne Se Pani Mustamal Ho Jata Hai?

کیا نابالغ بچے کے وضو کرنے سے پانی مستعمل ہوجائے گا ؟

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-508

تاریخ اجراء:23ربیع الاول1444ھ/20 اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ  نابالغ بچےکے وضو کرنے سے پانی مستعمل ہوتاہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ بچہ اگر سمجھ دار ہو اور قربت یعنی ثواب کی نیت سے وضو کرے ، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل ہوگا،البتہ اگر بچہ نا سمجھ  ہو یا سمجھ دار ہو ، مگر ثواب کی نیت کے بغیر وضو کرے ، تو پانی مستعمل نہیں ہوگا ۔

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:" (ولا یجوز) بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ(أو) لأجل (إسقاط فرض اذا انفصل عن عضو وان لم یستقر) فی شیء علی المذھب۔ملخصا" اور اس پانی سےوضو کرنا ، جائز نہیں ہے جسے قربت یعنی ثواب کےلیے استعمال کیا گیا  اگرچہ حدث دور کرنے کے ساتھ ہو یا سمجھ دار بچے سے( ایسا استعمال پایا جائے)  یا حدث دور کرنے کےلیے اگرچہ قربت کے ساتھ ہو یا فرض ساقط کرنے کےلیے جبکہ عضو سے جدا ہوجائے اگرچہ کسی شے میں قرار پذیر نہ ہوا ہو،اصل مذہب  کے مطابق۔(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار، ج1،ص385۔۔388،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے: قوله: ( أو من مميز) أي إذا توضأ يريد به التطهير كما في الخانية وهو معلوم من سياق الكلام، وظاهره أنه لو لم يرد به ذلك لم يصر مستعملًا، تأمل، ملخصا"ماتن علیہ الرحمۃ کا قول (سمجھ دار بچے سے ایسا استعمال پایا جائے  )یعنی اس وقت جب وہ طہارت حاصل کرنے کے ارادے سے وضو کرے جیسا کہ خانیہ میں ہے  اور یہی سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر طہارت حاصل کرنے کے ارادے کےبغیر استعمال کرے ، تو مستعمل نہیں ہوگا  ،غور کرو۔(رد المحتار، ج1،ص386،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمن جد الممتار میں نابالغ بچے کے وضو کے پانی   کےمستعمل ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"اما صیرورتہ مستعملا فلیس لرفعہ حدثاوالا صار مستعملا  من کل صبی ولو لم یعقل  وھو خلاف المنصوص بل لکونہ قربۃ اذا نواھا ولذا قیدہ بالعاقل لان غیرہ لا نیۃ لہ   وقد  قال فی الغنیۃ " فان توضا بہ ناویا اختلف فیہ المتاخرون والمختار انہ یصیر مستعملا اذا کان عاقلا لانہ نوی قربۃ معتبرۃ ، ملخصا"( نابالغ بچے کے وضو کا پانی   ) حدث دور کرنے کی وجہ سے مستعمل نہیں ہوا، ورنہ تو ہر بچے کا استعمال کیا ہوا پانی مستعمل ہوجائے اگرچہ نا سمجھ ہو اور یہ منصوص کے خلاف ہے  بلکہ مستعمل ہونے کی وجہ یہ ہے  کہ  یہ قربت ہے جبکہ بچہ قربت  کی نیت کرے اسی لیے فقہاء نے سمجھ دار کی قید لگائی  ، کیونکہ ناسمجھ    کی نیت  نہیں ہوتی،اور غنیہ میں فرمایا اگر (بچے )نے نیت کے ساتھ وضو کیا تو اس کے مستعمل ہونے کے بارے میں متاخرین  کا اختلاف ہے اور مختار  یہ ہے کہ  پانی مستعمل ہوجائے گا  جبکہ بچہ سمجھ دار ہو کیونکہ اس نے معتبر قربت کی نیت کی ہے۔ (جد الممتار، ج2، ص84،85،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :" وإذا أدخل الصبي يده في الإناء على قصد القربة فالأشبه أن يكون الماء مستعملًا إذا كان الصبي عاقلًا؛ لأنه من أهل القربة"اور جب بچہ قربت کے ارادے سے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالے تو اَشبہ یہ ہے کہ پانی مستعمل ہوجائے گا جبکہ بچہ سمجھ دار ہو کیونکہ وہ اہل قربت میں سے ہے۔       (بنایہ شرح ھدایہ، ج1،ص298،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  پانی مستعمل ہونے کی صورتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :"سمجھ وال نابالغ نے وضو بقصدِ وضو کیا ۔"(فتاوی رضویہ،ج2 ،ص44 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم