Kya Lait Kar Neend Ke Jhonke Aane Se Wazu Toot Jata Hai

کیا لیٹ کر نیند کے جھونکے آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-11856

تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1443 ھ/05نومبر 2021   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا لیٹے لیٹے جھونکے لینے سے وضو ٹوٹ جائے گا، جبکہ گہری نیند نہ آئی ہو،اور آس پاس کی آوازیں بھی آرہی ہوں؟رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں لیٹے لیٹے جھونکے لینے کی دو صورتیں بنیں گی، دونوں صورتوں کا جواب بالتفصیل درج ذیل ہے:

   (1) پہلی صورت یہ ہےکہ یہ فقط اونگھ ہو، تو اس صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔اونگھ کی پہچان فقہاء نے یہ بیان کی ہے کہ وہ شخص ایسا ہوشیار رہے کہ پاس کے لوگ جو باتیں کرتے ہوں ان میں سے  اکثر باتوں پر یہ مطلع ہو۔ البتہ  یہاں اونگھ ہے یا نہیں؟  اس میں خوب غور کرنے کی حاجت ہے کہ بسا اوقات انسان پر غفلت طاری ہوچکی ہوتی ہے ،مگر وہ یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں تو اونگھ رہا تھا، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

   (2) دوسری صورت یہ ہے کہ یہ اونگھ نہ ہو، تو پھر صورتِ مسئولہ میں وضو ٹوٹ جائے گا ،اگرچہ گہری نیند نہ آئی ہو، کیونکہ سونے سے وضو ٹوٹنے کی بنیادی علت استرخائے مفاصل ( یعنی جوڑوں کا ڈھیلا پڑجانا)ہےاور لیٹے ہوئے سونے کی صورت میں یہ استرخاء کامل طور پر پایا جاتا ہے ،لہذا اس صورت میں مطلقاً نیند ہی ناقضِ وضو شمار ہوگی۔

   دونوں صورتوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:

   جامع الترمذی، سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل کی حدیثِ مبارک میں ہے۔والنظم للاول :’’قال ان الوضوء لایجب الا علی من نام مضطجعا فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ“یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ وضو واجب نہیں ہوتا، مگر اسی شخص پر جو کروٹ کے بل لیٹ کر سوئے ،کیونکہ جب وہ کروٹ کے بل لیٹے گا،تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجائیں گے ۔(جامع الترمذی، ابواب الطھارۃ ،باب الوضوء من النوم، ج 01، ص 24، مطبوعہ کراچی)

   ان احادیثِ مبارکہ کو نقل فرمانے کے بعد سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ”وانت علی علم ان الحکم لایختص بالمضطجع فقد اجمعنا علی النقض فی الاستلقاء والانبطاح لانا رأینا الحدیث ارشد الی المعنی فی ذلک وھو استرخاء المفاصل ولا یراد بہ مطلقہ لحصولہ فی کل نوم فیناقض اٰخرہ اولہ بل کمالہ کما تقدم عن الکافی فتحصل لنا من الحدیث ان المدار علی نھایۃ الاسترخاء فحیث وجد وجد النقض وحیث عدم عدم کما اشار الیہ المحققون “ ترجمہ: اور تجھے اس بات کا علم  ہے کہ یہ حکم کروٹ لیٹنے والے کے ساتھ ہی خاص نہیں ،چِت لیٹنے اور منہ کے بل لیٹنے کی صورت میں بھی وضو ٹوٹنے پر ہمارا اجماع ہے، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ حدیث مبارک نے اس بارے میں بنیادی علت کی طرف رہنمائی فرمادی ہےاور وہ ہے استر خائے مفاصل ( یعنی جوڑوں کا ڈھیلا پڑجانا) اور اس سے مطلق استر خاء مراد نہیں یہ تو ہر نیند میں ہی ہوتا ہے ،تو آخرحدیث ، ابتدائے حدیث کے بر خلاف ہوجائیگا بلکہ کامل استرخاء مراد ہے ،جیسا کہ’’  کافی‘‘کے حوالے سے ماقبل بیان ہوا، تو حدیث سے ہمیں نتیجہ یہ ملاکہ مدار کامل استر خاء پر ہے ،جہا ں یہ موجود ہوگا وہاں وضو ٹوٹ جائے گا اور جہاں یہ نہ ہوگا وہاں وضو نہیں ٹوٹے گا ، جیسا کہ محققین نے اس بات کی طر ف اشارہ فرمایا ہے ۔“(فتاوی رضویہ، ج01، حصہ الف، ص 550، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں:”وینتفی اصلا فی صورۃ الاضطجاع والاسترخاء ونحوھما ۔۔۔۔ ینقض من دون فصل“ یعنی کروٹ لیٹنے ، چِت لیٹنے اور ان دونوں کی مثل دیگر صورتوں میں جوڑوں کی بندش بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔۔۔۔ لہذا اس صورت میں بغیرکسی تفصیل کے (مطلقاً نیند سے ) وضو ٹوٹ جائے گا۔ ملتقطاً      (فتاوی رضویہ، ج01،حصہ الف، ص569، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :”(و)ینقضہ حکماً (نوم یزیل مسکتہ) ای قوتہ الماسکۃ بحیث تزول مقعدتہ من الارض وھو النوم علی احد جنبیہ او ورکیہ اوقفاہ او وجھہ“ یعنی وضو کو حکماً وہ نیند توڑدیتی ہے ،جو انسان کی چستی کو زائل کردے ، اس طرح کہ اس شخص کی مقعد زمین سے اٹھ جائے ، مثلاً کسی شخص کا اپنے کسی ایک پہلو یا سرین یا گدی یا پھرچہرے کے بل سوجانا۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، ج 01، ص 295-294، مطبوعہ کوئٹہ)

   اونگھ ناقضِ وضو نہیں۔ جیسا کہ بحر الرائق میں ہے :”النعاس مضطجعا لا ذكر له في المذهب والظاهر أنه ليس بحدث وقال أبو علي الدقاق وأبو علي الرازي : إن كان لا يفهم عامة ما قيل عنده كان حدثا كذا في شروح الهداية “یعنی کروٹ کے بل لیٹ کر اونگھنے کا حکم مذہب میں مذکور نہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ حدث نہیں، ابو علی دقاق اور ابو علی رازی علیہما الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص اپنے پاس ہونے والی اکثر باتوں پر مطلع نہ ہو، تو ایسی اونگھ حدث شمار ہوگی، جیسا کہ ہدایہ کی شروحات میں بھی یہی بات مذکور ہے۔

   (والظاهر أنه ليس بحدث) کے تحت منحۃ الخالق میں ہے :”قال في معراج الدراية: لأنه نوم قليل “یعنی اونگھ کے حدث نہ ہونے کی وجہ معراج الدرایہ میں یہ مذکور ہے کہ یہ معمولی نیند ہے۔ (البحر الرائق مع منحۃ الخالق، ج 01، ص 75، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاویٰ شامی میں اس حوالے سے منقول ہے :”فی الخانیۃ:النعاس لا ینقض الوضوء، وھو قلیل نوم لا یشتبہ علیہ اکثر ما یقال عندہ“یعنی اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اونگھ سے مراد تھوڑی نیند ہے ،ایسے شخص پر اکثر باتیں مشتبہ نہیں ہوتیں جو اس کے پاس کی جاتی ہیں۔ (ردالمحتار مع الدر المختار ، ج 01، ص 298، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے:” اونگھ ناقضِ وضو نہیں جبکہ ایسا ہوشیار رہے کہ پاس کے لوگ جو باتیں کرتے ہوں اکثر پر مطلع ہو، اگرچہ بعض سے غفلت بھی ہوجاتی ہو۔ (فتاوی رضویہ، ج01، ص491،حصہ الف، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم