Kya Kapre Par Lage Sukhe Pakhane ko Khurach Dene Se Kapra Pak Ho Jayega?

کیا کپڑوں پر لگے سوکھے پاخانے کو کھرچ دینے سے وہ کپڑا پاک ہوجائے گا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12988

تاریخ اجراء: 24صفر المظفر1445 ھ/11ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کپڑوں پر پاخانہ لگ کر سوکھ جائے، تو کیا صرف کھرچنے سے وہ کپڑا پاک ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ نجس کپڑے سے نجاست کو کُھرچ دینے سے پاکی حاصل ہونے کا حکم صرف خشک منی کے ساتھ خاص ہے ،  منی کے علاوہ دیگر نجاستیں (مذی، پیشاب، پاخانہ وغیرہ)  خشک ہوجائیں تب بھی انہیں کھرچ دینے سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔

   لہذا  پوچھی گئی صورت میں نجس کپڑے سے پاخانہ  کُھرچ دینے پر  کپڑا پاک نہیں ہوگا، بلکہ کپڑاپاک کرنے کے شرعی اصولوں کے مطابق اُس کپڑے کودھوناضروری ہے ۔

   نجاست کو کُھرچ کر پاک کرنے کا حکم صرف خشک منی کے ساتھ  خاص ہے جیساکہ رد المحتار میں ہے:”لو كانت النجاسة دما عبيطا فإنها لا تطهر إلا بالغسل على المشهور لتصريحهم بأن طهارة الثوب بالفرك إنما هو في المني لا في غيره بحر، فما في المجتبى لو أصاب الثوب دم عبيط فيبس فحته طهر كالمني فشاذ نهر، وكذا ما في القهستاني عن النوازل أن الثوب يطهر عن العذرة الغليظة بالفرك قياسا على المني۔ اهـ “ترجمہ: ” اگر نجاست جما ہوا خون ہو تو مشہور قول کے مطابق اسے دھوکر ہی پاکی حاصل ہوگی، جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق کپڑے کو کھرچنے سے پاکی کا حکم صرف منی کے ساتھ خاص ہے اس کے غیر میں یہ حکم نہیں "بحر"۔  پس وہ جو مجتبیٰ میں ہے کہ اگر کپڑے پر گاڑھا خون لگ  کر خشک ہوگیا تو اسے کھرچنے  پر کپڑا پاک ہوجائے گا تو وہ شاذ قول ہے"نہر"۔ اسی طرح وہ جو قہستانی میں نوازل سے منقول ہے کہ جس کپڑے پر غلیظ پاخانہ لگا ہو تو اسے بھی منی پر قیاس کرتے ہوئے کھرچ کر پاک کیا جاسکتا ہے (یہ شاذ قول ہے)۔“(رد المحتار مع الدرالمختار ، کتاب الطہارۃ، ج01،ص313،مطبوعہ بیروت)

   حاشیہ طحطاوی علی الدرمیں ہے:”کسائر النجاسات  اذا اصابت  الثوب او البدن و نحوھما فانھا لا تزول الا بالغسل سواء کانت رطبۃ او یابسۃ و سواء کانت سائلۃ او لھا جرم "بحر"۔ “ یعنی منی کے علاوہ جیسے دیگر نجاستیں جب کپڑے یا بدن وغیرہ پر لگ  جائیں تو انہیں دھونے کے ذریعے ہی پاکی حاصل کی جاتی ہے خواہ وہ نجاستیں تر ہوں یا خشک ہوں، خواہ وہ نجاستیں بہنے والی ہوں یا جرم دار ہوں "بحر"۔  (حاشیۃالطحطاوی علی الدر، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 158، مطبوعہ کوئٹہ)

   بحر الرائق میں اس حوالے سے مذکور ہے:في المجتبى أصاب الثوب دم عبيط فيبس فحته طهر الثوب كالمني ا هـ۔ وفيه نظر لتصريحهم بأن طهارة الثوب بالفرك إنما هو في المني لا في غيره وفي البدائع ، وأما سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل سواء كانت رطبة أو يابسة وسواء كانت سائلة أو لها جرم ولو أصاب ثوبه خمر فألقى عليها الملح ومضى عليه من المدة مقدار ما يتخلل فيها لم يحكم بطهارته حتى يغسلهیعنی مجتبیٰ میں ہے کہ اگر کپڑے پر گاڑھا خون لگ کر خشک ہو گیا پھر  اسے کھرچ دیا تو وہ کپڑا پاک ہوجائے گا جیسا کہ منی  کو پاک کرنے کا حکم ہے ، الخ۔ اس حکم میں غور و فکر کی حاجت  ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق کپڑے کا کھرچنے سے پاک ہونے جانے کا حکم صرف منی کے ساتھ خاص ہے اس کے غیر میں یہ حکم نہیں۔ بدائع میں ہے کہ تمام نجاستیں جب کپڑے یا بدن وغیرہ پر لگ  جائیں تو وہ ناپاکی دھونے سے ہی ختم ہو گی ، خواہ وہ نجاستیں تر ہوں یا خشک، وہ نجاستیں بہنے والی ہوں یا جرم دار ۔  اگر کپڑے پر شراب گرگئی پھر اس پر نمک ڈالا گیا اور اتنا عرصہ گزرگیا جس عرصے میں وہ شراب سرکہ بن جاتی ہے تب بھی  کپڑے کی پاکی کا حکم  نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس کپڑے کو دھو نہ لیا جائے۔(بحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الانجاس،  ج01، ص236، مطبوعہ بیروت)

   الاشباہ و النظائر میں ہے:” وفرك المني من الثوب“ یعنی منی کو کھرچ دینے (سے بھی پاکی حاصل ہوجائے گی۔   )

      مذکورہ بالا عبارت کے تحت غمز العیون میں ہے:”فیہ ایماء الی۔۔۔۔  ان غیر المنی لا یطھر بہ و ھو الصحیح کما فی القنیۃ۔ “ یعنی اس میں اس بات کی  طرف اشارہ ہے کہ منی کے علاوہ دیگر نجاستیں کھرچنے سے پاک نہیں ہوں گی اور یہی صحیح ہے جیسا کہ قنیہ میں مذکور ہے۔(غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر، ج 02، ص 10-9، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ملتقطا )

   بہارِ شریعت میں ہے: ” نَجاست اگر دَلدار ہو (جیسے پاخانہ، گوبر، خون وغیرہ) تو دھونے میں گنتی کی کوئی شرط نہیں بلکہ اس کو دور کرنا ضروری ہے ،اگر ایک بار دھونے سے دور ہو جائے تو ایک ہی مرتبہ دھونے سے پاک ہو جائے گا اور اگر چار پانچ مرتبہ دھونے سے دور ہو تو چار پانچ مرتبہ دھونا پڑے گا۔ “(بہار شریعت، ج 01، ص 397، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم