Kya Garam Pani Se Wazu Karne Se Sardi Me Wazu Karne Ki Fazilat Mile Gi ?

سردی میں وضو کرنے کی فضیلت کیا گرم پانی سے وضو کرنےسےحاصل ہوگی ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Nor-12073

تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1444ھ12اکتوبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ سردی میں وضو کرنے پر دوہرا اجر ملنے کی بشارت ہے، تو کیا فضیلت  ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے ساتھ خاص ہے یا گرم پانی سےوضو کرنے پر بھی یہ فضیلت حاصل ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حدیث پاک میں سخت سردی میں کامل (سنن و مستحبات کے ساتھ)وضو کرنے پر ثواب کے دو حصے ملنے کی بشارت موجود ہے اور یہ فضیلت ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے ساتھ خاص نہیں، لہذا اگر کوئی  عمومی حالات میں سخت سردی میں گرم پانی سے کامل وضو کرے گا، اسے بھی یہ فضیلت ملے گی، البتہ گرم پانی کے مقابلے میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا ان شاء اللہ  زیادہ ثواب کا باعث ہو گا۔

   تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ شروحاتِ حدیث کے مطابق سردی میں وضو کرنے پر زیادہ اجر ملنے کی وجہ ’’مشقت بردشت کرنا‘‘ ہے اور عمومی حالات میں سردی میں وضو کرنا اگرچہ گرم پانی سے ہو، بنیادی طور پر باعثِ مشقت ضرور ہے(البتہ مشقت کی کیفیت میں کمی بیشی ممکن ہے)، کیونکہ عام رہن سہن کے اعتبار سے سخت سردی میں فی نفسہ وضو کرنا ہی نفس پر گراں ہوتا ہے اور طبیعت پانی کے استعمال پر آمادہ نہیں ہوتی، لہذا جو کوئی حدیث میں بیان کردہ طریقہ پر عمل کرتے ہوئے (یعنی سخت سردی میں کامل وضو) کر لے، تو دوہرے اجر کا مستحق ہو گا۔  البتہ اگر کسی خاص صورت میں مشقت بالکل نہ ہو، مثلاً کمرے اور اٹیچ باتھ کا درجہ حرارت مناسب ہو، پانی بھی گرم میسر ہو، تو تندرست شخص کے لیے وضو کرنے میں مشقت نہیں ہو گی، تو علت کے مفقود ہونے پر شاید اسے فضیلت حاصل نہ ہو، لیکن یہ صورت بہت کم پائی جاتی ہے۔ نیز سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا گرم پانی کے مقابلے میں نفس پر زیادہ شاق  ہے، تو اللہ عزوجل کی رحمت سے یہ مزید باعثِ اجر ہو گا، کیونکہ زیادہ مشقت والے عمل کو حدیث پاک میں افضل قرار دیا گیا ہے۔

سخت سردی میں وضو کرنے پر دوہرا اجر ملتا ہے۔ چنانچہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من اسبغ الوضوء في البرد الشديد،كان له من الاجر كفلان‘‘ ترجمہ: جس نے سخت سردی میں کامل وضو کیا ،اس کے لیے ثواب کے دو حصے ہیں۔(المعجم الاوسط،جلد 5، صفحہ 298، مطبوعہ القاھرہ)

   اسباغ کی وضاحت ایک حدیث میں کچھ یوں ہے: ’’جاء رجل الى النبی صلى اللہ عليه وسلم فقال: ما اسباغ الوضوء؟ فسكت عنه رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم حتى حضرت الصلاة، قال: فدعا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بماء، فغسل يديه، ثم استنثر ومضمض وغسل وجهه ثلاثا ويديه ثلاثا ثلاثا ومسح براسه وغسل رجليه ثلاثا ثلاثا، ثم نضح تحت ثوبه فقال: هذا اسباغ الوضوء‘‘ ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: کامل وضو کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، حتی کہ نماز کا وقت ہو گیا، تو آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پانی منگوایا، پھر اپنے ہاتھ دھوئے، ناک میں پانی چڑھایا، کلی کی اور چہرے اور ہاتھوں کو تین تین بار دھویا، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو تین بار دھویا، پھر کپڑے کے نیچے پانی چھڑکا، پھر فرمایا: یہ کامل وضو کرنا ہے۔(مجمع الزوائد،  کتاب الطھارۃ، باب فی اسباغ الوضو، جلد 1، صفحہ 237، مطبوعہ قاھرہ)

   فیض القدیر میں ہے: ’’ای اتمہ واکملہ بشروطہ وفروضہ وسننہ وآدابہ‘‘ ترجمہ: یعنی وضو اپنی شرائط، فرائض، سنن و مستحبات کے ساتھ مکمل کرے۔(فیض القدیر، جلد 6، صفحہ 52، مطبوعہ مصر)

   دوہرا اجر ملنے کی وجہ سردی کی مشقت برداشت کر کے وضو کرنا ہے۔ چنانچہ التیسیر شرح جامع صغیر میں ہے: ’’کفل علی الوضوء وکفل علی الصبر علی الم البرد‘‘ ترجمہ: ایک اجر وضو کا اور ایک اجر سردی برداشت کرنے کا۔(التیسیر شرح جامع صغیر، جلد 2، صفحہ 394، مطبوعہ ریاض)

   ایک اور حدیث میں مشقت برداشت کر کے وضو کرنے کی مزید فضیلت کچھ یوں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الا ادلكم على ما يمحو اللہ به الخطايا ويرفع به الدرجات؟قالوا: بلى يا رسول اللہ! قال:اسباغ الوضوء على المكاره وكثرة الخطا الى المساجد وانتظار الصلاة بعد الصلاة،فذلكم الرباط‘‘ترجمہ:کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں کہ جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند فرماتا ہے؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض  کی:کیوں نہیں ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!فرمایا:(سردی وغیرہ کی)مشقت برداشت کر کے اچھے طریقے سے وضو کرنا،مساجد کی طرف زیادہ قدم چلنا اورایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔پس یہ اعمال تمہارے لیے(نفس و شیطان سے )حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ ( صحیح المسلم، کتاب الطھارۃ، باب فضل اسباغ الوضو علی مکارہ، جلد 1، صفحہ 127، مطبوعہ  کراچی)

   المكاره کے تحت شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’یعنی مشقت و تکلیف کے وقت جبکہ طبیعت پانی کے استعمال پر آمادہ نہ ہو، جیسے بیماری اور شدید سردی کی حالت۔‘‘                (اشعۃ اللمعات، جلد 14، صفحہ 535، فرید بک اسٹال، لاھور)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’مشقت سے مراد سردی یا بیماری یا پانی کی گرانی کا زمانہ ہے، یعنی جب وضو مکمل کرنا بھاری ہو، تب مکمل کرنا۔‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 233، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   ایک اور مقام پر فرمایا:’’سردیوں میں خصوصاً جبکہ پانی بھی ٹھنڈا ہو، صحیح وضو کرنا بہت ثواب ہے۔‘‘(مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 461، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   زیادہ مشقت والا عمل افضل ہے۔ چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے: ’’افضل العبادات احمزھا‘‘ ترجمہ: عبادات میں سے افضل وہ ہے، جس میں زحمت زیادہ ہو۔(المقاصد الحسنہ، جلد 1، صفحہ 130، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم