Kya Billi Ka Thook Pak Hai ?

کیا بلی کا تھوک پاک ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13008        

تاریخ اجراء:        08ربیع الاول1445 ھ/25ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ بلی کے لعاب کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہر جاندار کے لعاب کا وہی حکم ہے جو اُس کے جوٹھے کا حکم ہے۔  اصح قول کے مطابق بلی کا جوٹھا چونکہ مکروہِ تنزیہی ہے لہذا اس کے لعاب کا بھی یہی حکم ہے۔

   بلی  کے جوٹھے کے متعلق تنویر الابصار مع الدر المختار وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے :”(وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح“یعنی گھر  میں رہنے والے جانوروں کا جوٹھا ضرورتاً پاک ہے، اور اصح قول کے مطابق کراہت تنزیہی ہے۔

    (طاهر للضرورة) کے تحت رد المحتار میں ہے :”بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها؛ لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس، لكن سقط حكم النجاسة اتفاقا بعلة الطواف المنصوصة بقوله صلى الله عليه وسلم  إنها ليست بنجسة، إنها من الطوافين عليكم والطوافات " أخرجه أصحاب السنن الأربعة وغيرهم، وقال الترمذي حسن صحيح؛ يعني أنها تدخل المضايق ولازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، وفي معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة وبقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسةیعنی اس کی تفصیل یہ ہے کہ قیاس کے مطابق تو بلی کا جوٹھا ناپاک ہے کہ وہ اس کے لعاب سے ملا  ہوتا ہے اور بلی کا لعاب اس کے ناپاک گوشت سے بنتا ہے، لیکن  بلی کے بار بار گھر آنے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”یہ نجس نہیں ہے ، یہ تو تمہارے پاس بہت زیادہ آنے والوں میں سے ہے“ کی وجہ سے بالاتفاق نجاست کا حکم ساقط ہوگیا۔اس حدیث کو چاروں اصحاب سنن وغیرہ نے نقل کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ یعنی بلی تنگ جگہوں میں داخل ہو جاتی ہے جس کا لازم  یہ ہے کہ بلی سے برتنوں کو بچانا متعذر ہے۔ مذکورہ  علت کی وجہ سے بلی کے حکم میں تمام گھر میں رہنے والے جانور داخل ہیں ۔ تو ضرورت کی بنا پر نجاست کا حکم ساقط ہو گیا اور بلی کے نجاستوں سے نہ بچنے کی وجہ سے کراہت باقی ہے ۔(رد المحتارمع در المختار، کتاب الطھارۃ، ج01، صفحہ 224، مطبوعہ بیروت)

   ہر جاندار کے لعاب کا وہی حکم ہے کہ جو اُس کے جوٹھے کا حکم ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:” جس کا جوٹھا ناپاک ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی ناپاک ہے اور جس کا جوٹھا پاک اس کا پسینہ اور لعاب بھی پاک اور جس کا جوٹھا مکروہ اس کا لعاب اور پسینہ بھی مکروہ۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 344، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں:” گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلّی، چوہا، سانپ، چھپکلی کا جوٹھا مکروہ ہے۔اگر کسی کا ہاتھ بلّی نے چاٹنا شروع کیا تو چاہیے کہ فوراً کھینچ لے،  یوہیں چھوڑ دینا کہ چاٹتی رہے مکروہ ہے اور چاہیے کہ ہاتھ دھو ڈالے بے دھوئے اگر نماز پڑھ لی تو ہو گئی مگر خلافِ اَولیٰ ہوئی۔ “ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 343، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم