Kya Barf Se Wazu Kar Sakte Hain ?

کیا برف سے وضو کرسکتے ہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12414

تاریخ اجراء:        22صفر المظفر1444 ھ/19ستمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ برف سے وضو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وضو کے چار فرائض میں سے تیسرے فرض یعنی چوتھائی سر کے مسح کے علاوہ بقیہ تینوں فرائض میں اعضائے وضو کو دھونا فرض  ہے، اور کسی عضو کو دھونے سے مراد  یہ ہے کہ اس عضو پر کم از کم دو قطرے پانی بہہ جائیں۔ لہذا برف  سے وضو صرف اسی صورت میں ہوگا  جب اعضائے وضو پر کم از کم دو قطرے بہہ جائیں، اعضائے وضو پر دوقطرے پانی نہ بہنے کی صورت میں برف سے وضونہیں ہوگا ۔

   اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕترجمہ کنزالایمان:”اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ۔ “(القرآن الکریم،پارہ06،سورۃ المائدۃ ،آیت:06)

   برف سے وضو کرنے کی صورت میں اگر دو قطرے پانی اعضائے وضو پر نہ بہے تو وضو نہیں ہوگا جیسا کہ بدائع الصنائع، بحر الرائق، رد المحتار، بنایہ وغیرہ   میں ہے:”و النظم للاول “ فالوضوء اسم للغسل والمسح ، لقوله تبارك ، وتعالى {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ۔۔۔۔الخ} أمر بغسل الأعضاء الثلاثة ، ومسح الرأس۔ فلا بد من معرفة معنى الغسل والمسح فالغسل هو إسالة المائع على المحل ، والمسح هو الإصابة ، حتى لو غسل أعضاء وضوئه ، ولم يسل الماء ، بأن استعمله مثل الدهن ، لم يجز في ظاهر الرواية۔ وروي عن أبي يوسف أنه يجوز وعلى هذا قالوا : لو توضأ بالثلج ، ولم يقطر منه شيء لا يجوز ، ولو قطر قطرتان ، أو ثلاث ، جاز لوجود الإسالة ، وسئل الفقيه أبو جعفر الهندواني عن التوضؤ بالثلج ، فقال : ذلك مسح ، وليس بغسلترجمہ: ”وضو دھونے اور مسح کا نام ہے، اللہ عزوجل کے اس فرمان کی وجہ سے ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ ۔۔۔۔الخ﴾ اس آیتِ مبارکہ میں تین اعضاء کو دھونے اور سر کے مسح کا حکم دیا گیا ہے، لہذا  دھونے اور مسح کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہ پہچان ہونا ضروری ہے۔ دھونے سے مراد کسی مائع چیز کو محلِ وضو  پر بہانا ہے جبکہ مسح سے مراد تری کا پہنچانا ہے، یہاں تک کہ کسی نے اعضائے وضو کو دھویا مگر ان اعضاء پر پانی نہ بہایا ،اس طرح کہ  پانی کو تیل کی طرح اعضائے وضو پر استعمال کیا تو ظاہر الروایہ کے مطابق ایسا کرنا، جائز نہیں ہوگا جبکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ ایسا کرنا، جائز ہے ۔ اسی اختلاف پر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ کسی شخص نے برف سے وضو کیا اور  برف سے ایک قطرہ بھی اعضائے وضو پر نہیں بہا تو وضو نہیں ہوگا۔ ہاں! اگر برف پگھل جائے اور اس کے پانی سے دو یا تین قطرے اعضائے وضو پر بہہ جائیں تو یہاں اعضائے وضو پر پانی بہہ جانے کی وجہ سے وضو درست ہوگا۔ فقیہ ابو جعفر ہندوانی علیہ الرحمہ سے برف سے وضو کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ مسح ہے ، دھونا  نہیں۔ “(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 15-14، دار الحدیث، القاہرۃ)

   نیز فتاوٰی عالمگیری میں اس  حوالے سے مذکور ہے:”وفي شرح الطحاوي أن تسييل الماء شرط في الوضوء في ظاهر الرواية فلا يجوز الوضوء ما لم يتقاطر الماء ، وعن أبي يوسف - رحمه الله - أن التقاطر ليس بشرط ففي مسألة الثلج إذا توضأ به إن قطر قطرتان فصاعدا يجوز إجماعا وإن كان بخلافه فهو على قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا يجوز ، وعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى يجوز كذا في الذخيرة والصحيح قولهما“یعنی شرح الطحاوی میں ہے کہ ظاہر الروایہ کے مطابق وضو میں پانی کا اعضائے وضو پر بہانا شرط ہے، لہذا  وضو اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اعضائے وضو پر پانی نہ بہے۔  امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے نزدیک پانی کے قطرے بہنا وضو میں شرط نہیں ۔  لہذا برف سے وضو کرنے والے نے دو  یا زائد قطرے اعضائے وضو پر بہا دئیے تو بالاتفاق وضو ہوجائے گا،  اگر اس کے برخلاف ہو یعنی  دو قطرے اعضائے وضو پر نہ بہیں تو امام اعظم اور امام محمد علیہما الرحمہ کے قول کے مطابق  وضو نہیں ہوگا، جبکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے قول پر  وضو ہوجائے گا جیسا کہ ذخیرہ میں ہے،جبکہ طرفین علیہما الرحمہ کا قول صحیح ہے۔(فتاوٰی عالمگیری،کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 03،  مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:”مُنہ، ہاتھ، پاؤں تینوں عضوؤں کے تمام مذکور ذرّوں پر پانی کا بہنا فرض ہے فقط بہے گا ہاتھ پھر جانا یا تیل کی طرح پانی چُپڑ لینا تو بالاجماع کافی نہیں اللھم الامامر فی الرجلین  اور صحیح مذہب میں ایک بوند ہرجگہ سے ٹپک جانا بھی کافی نہیں کم سے کم دو بوندیں ہر ذرہ ابدان مذکورہ پر سے بہیں۔(فتاوی رضویہ،ج01 (الف)، ص 287، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” کسی عُضْوْ کے دھونے کے یہ معنی ہیں کہ اس عُضْوْ کے ہرحصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہ جائے۔ بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چُپَڑلینے یا ایک آدھ بوند بہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے نہ اس سے وُضو یا غسل ادا ہو ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 288، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   برف کے پانی سے وضو جائز ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:” مینھ، ندی، نالے، چشمے، سمندر، دریا، کوئیں اور برف، اولے کے پانی سے وُضو جائز ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 329، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم