مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13146
تاریخ اجراء: 13جمادی الاولیٰ1445 ھ/28نومبر
2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے نمازِ
فجر کے بعد کچھ آرام کیا یعنی سو گیا اور پھر انہی
کپڑوں میں آفس چلا گیا۔
نمازِ ظہر سے پہلے اُس نے اپنے کپڑوں پر منی کے نشانات دیکھے۔ اب یہ نشانات کب کے لگے ہیں؟ زید کو
اس کا کچھ علم نہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ زید نے
انہی کپڑوں میں جو نمازِ فجر ادا کی ہے تو کیا اُس کی
وہ نمازِ فجر درست ادا ہوگئی یا اُس نماز کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر
کوئی شخص اپنے کپڑوں پر منی
کے نشانات دیکھے، لیکن یہ نشانات کب لگے ؟ اس بارے میں
اُسے یقینی معلومات نہ ہوں تو فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق
اُسے آخری نیند کی طرف لوٹایا جائے گا اور اُس کے بعد
کی نمازوں کا اعادہ ہوگا۔ لہذا پوچھی گئی صورت
میں زید کی نمازِ فجر درست ادا ہوئی ہے، اُسے لوٹانے کی حاجت نہیں۔
احتلام کب ہوا؟ اس کا
یقینی علم نہ ہونے کی صورت میں آخری
نیند سے نمازوں کو لوٹایا جائے گا۔ جیسا کہ درِ مختار،
بحر الرائق، تبیین الحقائق، محیطِ
برہانی اور غمز العیون وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے: ”و النظم للاول“ وجد في ثوبه منيا
أو بولا أو دما أعاد من آخر احتلام وبول ورعاف “یعنی جس نے اپنے کپڑوں میں منی
یا پیشاب یا خون پایا تو وہ آخری احتلام یا
پیشاب یا نکسیر پھوٹنے
کے بعد پڑھی گئی نمازوں کو لوٹائے۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتارمیں ہے:”( قوله أعاد من آخر احتلام إلخ ) لف
ونشر مرتب۔ وفي بعض النسخ من آخر نوم وهو المراد بالاحتلام ؛ لأن النوم
سببه كما نقله في البحر“یعنی یہ لف و نشر مرتب ہے ، یہاں بعض
نسخوں میں آخری نیند کا ذکر ہے اور اس نیند سے بھی احتلام ہی مراد ہے کیونکہ نیند
احتلام کا سبب ہے جیسا کہ بحر میں منقول ہے۔(رد المحتار مع
الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01،
ص 220، مطبوعہ بیروت)
حاشیہ طحطاوی علی الدر میں اسی
عبارت کے تحت مذکور ہے:”( قوله
أعاد من آخر احتلام) ای او جماع کذا فی البدائع و مرادہ بالاحتلام
النوم لانہ سببہ بدلیل ما نقلہ فی المحیط عن ابن رستم انہ
یعید من آخر نومۃ نامھا فیہ اھ بحر و فی الشرح لف
ونشر مرتب “یعنی
آخری احتلام یا جماع کے بعد سے نمازوں کو لوٹائے جیسا کہ بدائع
میں مذکور ہے ۔ یہاں
احتلام سے مراد نیند ہے کیونکہ وہی احتلام کا سبب ہے اس پر
دلیل محیط میں ابن رستم
علیہ الرحمہ سے منقول جزئیہ ہے
کہ وہ آخری نیند سے نمازوں کو لوٹائے"بحر" ۔“ اور شرح
میں لف و نشر مرتب ہے ۔ (حاشیۃالطحطاوی علیٰ الدر، کتاب الطھارۃ،
ج 01، ص 119، مطبوعہ کوئٹہ)
بنایہ شرح ہدایہ اور الجوہرۃ میں
ہے: ”و النظم للاول“ وذكر
ابن رستم في " نوادره " أن من وجد منیا في ثوبه أعاد من آخر نومة
نامها فيه للشك فيما قبله، ذكره في " المحيط "“یعنی ابنِ رستم علیہ
الرحمہ نے اپنی نوادر میں ذکر کیا کہ جس شخص نے اپنے کپڑوں پر
منی پائی تو وہ آخری نیند سے نمازوں کو لوٹائے کہ اس سے
پہلے احتلام ہونے میں شک ہے( اور شک
پر مسائل کی بنا نہیں رکھی جاتی)۔ محیط
میں اسے ذکر کیا۔(البنایۃ فی شرح الھدایۃ، کتاب الطھارۃ، ج
01، ص 463، مطبوعہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟