Janabat Ki Halat Mein Khana Peena Kaisa ?

جنابت کی حالت میں کھانا پینا کیسا ؟

مجیب: ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: 421Mul-

تاریخ اجراء: 14محرم الحرام1444 ھ/13 اگست22 20 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حالت جنابت میں کھانا پینا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جنبی کےلیےکھانے پینے سے پہلے افضل  یہ ہے کہ  غسل کرلے کہ حدیث پاک کے مطابق جس گھر میں جنبی ہو، اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ،اگر غسل نہ کر سکتا ہو، تو وضو کرلے  کہ یہ مستحب ہے ،ورنہ کم از کم   ہاتھ دھو لے اور کلی کرلےکہ اس کے بغیر جنبی کےلیےکھانا پینا  مکروہ  تنزیہی ہے یعنی گناہ تو نہیں ہے ،لیکن برا  عمل ہے  اور  محتاجی کا سبب ہے ۔

   تنویر الابصار میں ہے:’’(ولا باس) لحائض و جنب (باکل و شرب بعد مضمضۃ وغسل ید واما قبلھما فیکرہ لجنب) ملخصا ‘‘حائضہ اور جنبی کےلیے  کلی اور ہاتھ دھونے کے بعد کھانے پینے میں  کوئی حرج نہیں اور ان  سے پہلے جنبی کےلیے مکروہ ہے ۔‘‘(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار،ج1،ص536،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے :” قولہ (لا باس  ) يشير إلى أن وضوء الجنب لهذه الأشياء مستحب كوضوء المحدث وقد تقدم ح أي لأن ما لا بأس فيه يستحب خلافه، لكن استثني من ذلك ط الأكل والشرب بعد المضمضة والغسل، بدليل قول الشارح وأما قبلهما فيكره قولہ (فیکرہ لجنب  )لانہ یصیر شاربا للماء المستعمل ای وھو مکروہ تنزیھا ویدہ لا تخلو عن النجاسۃ فینبغی غسلھا  ثم یاکل ،بدائع‘‘ ملخصا۔ماتن علیہ الرحمۃ  کا قول (لا باس،کوئی حرج نہیں) اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کاموں کے لیے جنب کو وضو ئے محدث کی طرح وضو کرلینا مستحب ہے اور پیچھے  حلبی کے حوالے سے گزر چکا ہے  کہ جس کام کے متعلق ’’لاباس‘‘  کہا جائے، اس کا خلاف مستحب ہوتا ہے،لیکن طحطاوی  علیہ الرحمۃ نے کلی اور ہاتھ دھونے کے بعد کھانے پینے کو اس سے مستثنی کیا ماتن کے قول (وأما قبلهما فيكره) کی وجہ سے،  رہی جنبی کے ہاتھ دھوئے  اور کلی کے بغیر کھانے پینے میں  کراہت کی بات، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مستعمل پانی کو پینے والا ہوگا اور یہ مکروہ تنزیہی ہے اور جنبی کا ہاتھ نجاست سے خالی نہیں ہوتا ،لہذا اسے دھوکر کھانا مناسب ہے،بدائع۔(رد المحتار مع الدرالمختار،ج1،ص536،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا  خان علیہ رحمۃ الرحمن  سے سوال ہوا:” کہ حالتِ جنابت میں ہاتھ دھو کر کلی کر کے کھانا کھانا کراہت رکھتا ہے یا نہیں؟  تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:”نہ ،اور بغیر اس کے مکروہ۔ اور افضل تو یہ ہے کہ غسل ہی کرلے ورنہ وضو کہ جہاں جنب ہوتا ہے ،ملائکہ رحمت اُس مکان میں نہیں آتے۔ کما نطقت بہ الاحادیث  (جیسا کہ احادیث میں وارد ہے)،امام طحاوی شرح معانی الآثار میں مالک بن عبادہ غافقی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ انہوں نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ حاجتِ غسل میں کھانا تناول فرمایا، انہوں نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے اس کا ذکر کیا، فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اعتبار نہ آیا، انہیں کھینچے ہوئے بارگاہِ انور میں حاضر لائے اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! یہ کہتے ہیں کہ حضور نے بحال جنابت کھانا تناول کیا۔ فرمایا:نعم اذا توضأت اکلت وشربت ولکنی لااصلی ولا اقرء حتی اغتسل“ ہاں جب میں وضو فرمالوں ،توکھاتاپیتا ہوں، مگر نماز وقرآن بے نہائے نہیں پڑھتا۔ملخصا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج01 ،ص1072 ،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن  ،لاھور)

   جنبی کا ہاتھ  دھوئے اور کلی کیے بغیر کھاناپینا کراہت کے ساتھ ساتھ محتاجی کا سبب ہے۔ چنانچہ  غنیۃ المتملی میں ہے : ”ویکرہ من غیر غسل وقد قیل انہ یورث الفقر“جنبی کا ہاتھ دھوئے( اور کلی کیے) بغیر کھاناپینا مکروہ ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ  محتاجی کا سبب ہے(غنیۃ المتملی ،ص60،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں جنبی کے متعلق  ہے:”کھانا کھانا یا عورت سے جماع کرنا چاہتا ہے، تو وضو کرلے یا ہاتھ منہ دھولے، کلی کرلے  اور اگر ویسے ہی  کھا پی  لیا، تو  گناہ نہیں، مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔“(بھار شریعت،ج01 ،ص326 ،مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم