Hathon Par Shopper Chupak Jaye Tu Kya Wazu Ghusl Ho Jaye Ga ?

ہاتھوں پر شاپر چپک گیا، تو وضو و غسل کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13215

تاریخ اجراء: 23 جمادی الثانی 1445 ھ/06 جنوری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں آگ لگا رہا تھا، آگ لگانے کے لئے لکڑی کے اگلے حصے پر شاپر لگا کر اس کو تیلی لگائی، تو شاپر فوراً آگ پکڑ کر پگھلنا شروع ہوگیا اور اس کا کچھ حصہ پگھل کر میری ہتھیلی اور انگلیوں کے درمیان لگ گیا،جس کو اتارنے کی کوشش میں درد بھی ہورہا ہے اور زیادہ کوشش کی تو کھال بھی اتر سکتی ہے ، اس صورت میں وضو وغسل کا کیا حکم ہوگا؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وضو وغسل کے لئےحتی المقدور پگھل کر ہاتھ پرلگے ہوئے شاپر کو ہٹا کر اس کے نیچے پانی بہانا ضروری ہے ۔ اگر بلا ضرر و مشقت اتارنا ممکن ہو ،تو  اتارے بغیر وضو و غسل درست نہیں ہوں گے ۔ ہاں  اگر واقعی مذکورہ شاپر کو ہاتھ سے اتارنا ضرر و مشقت کے بغیر ممکن نہ ہو  بلکہ اتارنے میں دشواری یا  ہاتھ کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں شاپر چھڑائے بغیر وضو و غسل کرنے سے وضو و غسل درست ہوجائیں گے کہ  جب جسم پر کوئی ایسی جرم دار چیز لگ جائے  جو پانی کے جسم تک پہنچنے سے مانع ہو اوراس کو ہٹانے میں ضرر یا مشقت ہو ، توحرج کے پیشِ نظر شریعت نے  وضو و غسل کے لئے ان چیزوں کو زائل کرنے کا حکم نہیں دیا  ، لہٰذا جب تک یہی کیفیت رہتی ہے اس وقت تک ان کو زائل کئے بغیروضو وغسل درست ہوجائیں گے۔

   تنویر الابصارو درمختار میں ہے :”(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم) ۔۔۔ قاله الكمال وعلله بالحرج “یعنی جس حصہ کو دھونے میں حرج ہو ،اس کو دھونا واجب نہیں جیسے آنکھ اگرچہ اس میں ناپاک سرمہ ہی لگا ہو  اور (عورت کی ناک و کان کے) بند ہوجانے والے سوراخ  ۔۔۔۔ اس بات کو صاحبِ فتح القدیر نے بیان کیا اور اس کی علت حرج بیان کی۔ (درمختار مع رد المحتار  ، جلد1، صفحہ 313،314، مطبوعہ: کوئٹہ)

   اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان علۃ عدم وجوب غسلھا الحرج  ای ان الاصل وجوب الغسل الا انہ سقط للحرج“یعنی دھونا واجب نہ ہونے کی علت حرج ہے ، مراد یہ ہے کہ اصل تو وجوبِ غسل ہے مگر حرج کی وجہ سے وہ ساقط ہوگیا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد1،صفحہ 314، مطبوعہ:کوئٹہ)

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اگر کوئی سخت چیز کہ پانی کے بہنے کو روکے گی ، دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو تو لازم ہے کہ اُسے جُداکرکے كلی کرے ورنہ غسل نہ ہوگا۔ ہاں! اگر اُس کے جُدا کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کر متحجر ہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑ دے،  چھڑانے کے قابل نہیں ہوتا یاعورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑھوں کی مضرت کا اندیشہ ہے تو جب تک یہ حالت رہے گی اس قدر کی معافی ہوگی۔ فإنّ الحرج مدفوع بالنص(اس لئے کہ حرج کو دور کرنا  نص  سے ثابت ہے ۔ت)“(فتاوی رضویہ، جلد1۔ب، صفحہ 593،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر  فرماتے ہیں:”حرج کی تین صورتیں ہیں : ایک: یہ کہ وہاں پانی پہنچنے میں مضرت ہو ،جیسے آنکھ کے اندر۔دوم:مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم:بعدِ علم و اطلاع کوئی ضرر و مشقت تو نہیں ، مگر اس کی نگہداشت ،اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے،جیسے مکھی، مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا ، گرہ کھایا ہوا بال ۔قسمِ اول و دوم کی معافی تو ظاہر  اور قسمِ سوم میں بعدِ اطلاع ازالۂ مانع ضرور ہے “(فتاوی رضویہ، جلد1۔ب،صفحہ 610۔611، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم