مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12830
تاریخ اجراء:25شوال المکرم1444ھ/16مئی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کبھی زکام کی
حالت میں ناک سے سرخی مائل رطوبت نکل جاتی ہے، ایسا کسی مرض کی وجہ سے
نہیں ہوتا، تو کیا اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زکام کے ساتھ
نکلنے والی سرخی مائل رطوبت اگر بہہ کر ناک کے نتھنے میں نرم جگہ تک پہنچ
جاتی ہے تو اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔ ہاں! اگر وہ سرخی مائل رطوبت بہنے کی
مقدار میں نہ ہو یا پھر ناک سے جما ہوا خون نکلے تو اس صورت میں
وضو نہیں ٹوٹے گا۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ
بیماری یا زخم کی وجہ سے خون یا پیپ یا زردپانی جسم کے
کسی حصے سے بہہ کر ایسی جگہ پہنچ جائے جس جگہ کو وُضو یا غسل میں دھونا
فرض ہو تو اس صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی بیماری یا زخم
کے بغیر ہی سرخ رنگ یا سرخی مائل رطوبت بہنے کی
مقدار میں نکل آئے تو اس صورت میں بھی وضو ٹوٹنے کا حکم دیا
جائے گا کیونکہ رنگ میں ایسی تبدیلی اُس
رطوبت میں خون کی آمیزش کا شبہ ڈالتی ہے لہذا فقہائے کرام نے احتیاطاً اُس رطوبت
کو بھی ناپاک اور ناقضِ وضو شمار کیا ہے، جیسا کہ فقہائے کرام
کی تصریحات کے مطابق ناف سے بغیر کسی مرض کے پیلا
پانی بہے تو یہ پانی ناپاک اور ناقضِ وضو ہوگا۔
جسم سے بیماری یا
زخم کےسبب نکلنے والی رطوبت کے متعلق فتاوٰی
عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ کے وضو توڑنے والی چیزوں کے
بیان میں ہے:”ما يخرج من غير السبيلين ويسيل إلى
ما يظهر من الدم والقيح والصديد والماء لعلة وحد السيلان أن يعلو فينحدر عن رأس
الجرح ۔۔۔۔الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة والسرة
والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح كذا في الزاهدي“یعنی جو خون ،پیپ، کج لہو یا پانی
کسی بیماری کی و جہ سے سبیلین کے علاوہ جسم
کے کسی حصے سے خارج ہو کر ظاہر ی جسم کی طرف بہہ جائے (تو وضو
ٹوٹ جاتا ہے )بہنے کی حد یہ ہےکہ وہ اوپر جا کر زخم کی جگہ سے نیچے گر جائے ۔۔۔۔خون،
پیپ، کج لہو، زخم اور آبلہ کا پانی اور وہ پانی جو ناف ،پستان،
آنکھ اور کان میں سے کسی بیماری کی وجہ سے نکلے تواصح
قول کے مطابق ناقض وضو ہونے میں
یہ سب برابر ہیں ۔ ایسا ہی زاہدی میں
ہے ۔(فتاوٰی
عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01ص10،مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)
ہدایہ شریف میں ہے:”المعانی الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج
من السبیلین و الدم و القیح اذا خرجا من البدن فتجاوزا
الی موضع یلحقہ حکم التطھیر“یعنی وہ باتیں جن
سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، ہر وہ چیز ہے جو سبیلین سے نکلے ۔
خون اور پیپ جب یہ
دونوں بدن سے نکل کر ایسی جگہ پہنچیں جس جگہ کا وضو یا
غسل میں دھونے کا حکم ہے (تو وضو توڑ دیتی ہیں)۔ (ھدایہ ، کتاب الطھارات،ج1، ص17،مطبوعہ
بیروت)
علامہ عینی علیہ الرحمہ اس کی شرح
کرتے ہوئے"بنایہ"میں فرماتے ہیں:”والشرط الرابع ان یلحق ذلک
موضع التطھیر فی الجملۃ کما فی الجنابۃ حتی لو
سال الدم من الرأس الی قصبۃ الانف ینتقض الوضوء۔۔۔۔۔اذ
الاستنشاق فرض فی الجنابۃ“یعنی خون کے ناقض وضو ہونے کی
چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ خون بہہ کر ایسی جگہ پہنچے جس جگہ
کو فی الجملہ پاک کرنے کا حکم ہو
جیسا کہ حالتِ جنابت میں پورے ظاہری جسم کا دھونا فرض ہوتا ہے، پس
اگر کسی شخص کے سر سے خون بہہ کر ناک کے بانسہ تک اتر آیا تو اس کا
وضو ٹوٹ جائے گا کہ ناک کے بانسہ کو دھونا غسل میں فرض ہوتا ہے۔( البنایۃ شرح
الھدایۃ، کتاب الطھارات، ج 1،
ص 259، مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)
غسل کے فرائض بیان کرتے ہوئے سیدی
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”
استنشاق:ناک کے دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت
ہڈی کے شروع تک دھلنا۔“ (فتاوٰی رضویہ،ج01(ب)،ص595، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ناف سے بغیر
مرض کے پیلا پانی نکلے تو وہ ناقضِ وضو ہوگا۔ جیسا کہ غنیۃ
المستملی وغیرہ کتبِ
فقہیہ میں مذکور ہے:”لوخرج من سرتہ ماء اصفر وسال نقض لانہ دم قد نضج فاصفر وصار رقیقاً “یعنی اگر ناف
سے زرد پانی نکل کر بہے تو وضو جاتا رہے گا اس لئے کہ وہ خون ہے جو پک کر
زرد اور پتلا ہو گیا ہے ۔ (غنیۃ المستملی ، فصل فی
نواقض الوضوء، ص 116، مطبوعہ کوئٹہ)
فتح القدیر میں ہے:”فی عینہ رمد یسیل دمعھا
یؤمر بالوضوء لکل وقت لاحتمال کونہ صدیدا واقول ھذا التعلیل
یقتضی انہ امر استحباب فان الشک والاحتمال فی کونہ ناقضا لا
یوجب الحکم بالنقض اذا لیقین لایزول بالشک واللہ اعلم نعم
اذا علم من طریق غلبۃ الظن باخبار الاطباء اوعلامات تغلب ظن
المبتلی یجب“یعنی کسی کو آشوب چشم کا مرض ہو جس میں
آنسو بہتا ہو تو اسے ہر نماز کے وقت میں وضو کرنے کا حکم دیا جائے گا
کیونکہ اس آنسو کے کج لہو ہونے کا احتمال ہے ۔ میں کہتا ہوں
یہ علت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وضو کرنے کا حکم استحبابی ہے
کیونکہ آنسو کے ناقض وضو ہونے میں شک اور احتمال ہے جو کہ وضو کو
یقینی طور پر توڑنے کا فائدہ نہیں دیتا
کیونکہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا اور اللہ خوب جانتا ہے ۔ ہاں جب اطباء کے
خبر دینے یا علامات کے ذریعے اس آنسو کے کج لہو ہونے کا ظن غالب
ہو تو وضو کرنے کا حکم وجوبی ہو گا۔ (فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل فی
الاستحاضۃ، ج 01، ص 185، مطبوعہ بیروت)
فتاوٰی
رضویہ میں ہے: ” مدار اس رطوبت کے خون و ریم ہونے پر ہے قول
تحقیق میں احتیاطاً احتمال دم پر ایجاب
کیا۔۔۔۔۔ اقول: اور تحقیق وہی ہے کہ وجود مرض مظنہ
دم ہے اس کے ساتھ شہادت صورت کی حاجت نہیں جس طرح مسئلہ مذی
میں معلوم ہوا ۔ولہذا امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے
کتاب التجنیس والمزید میں ناف سے جو پانی نکلے اس کے زرد
رنگ ہونے کی شرط لگائی کہ احتمال دمویت ظاہر ہو کما قدمنا نقلہ اقول: اور یہ منافی
تحقیق نہیں کہ امام ممدوح کا یہاں کلام صورت وجودِ مرض
میں نہیں اور بلا مرض بلاشبہ حکمِ دمویت کے لئے شہادت صورت
کی حاجت۔۔۔۔۔۔۔جسے رعاف یعنی ناک سے خون جانے کا مرض ہے
اور اسی حالت میں اسے زکام ہوا اور خون نکلنے کے غیراوقات
میں جو ریزش زکام کی آتی ہے سرخی لیے
متغیر اللون آتی ہے جس سے آمیزش خون مظنون ہے تو اس صورت
میں نقضِ وضو کا حکم ظاہر ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ،ج01(الف)،ص365-362، رضا فاؤنڈیشن،لاہور، ملتقطاً)
بہارِ شریعت میں ہے:”خون یا پیپ
یا زردپانی کہیں سے نکل کر بہا اور اس بہنے میں
ایسی جگہ پہنچنے کی صلاحیت تھی جس کا وُضو یا
غسل میں دھونا فرض ہے تو وُضو جاتا رہا۔ ۔۔۔ ناک
صاف کی اس میں سے جما ہوا خون نکلا وُضو نہیں ٹوٹا۔ “ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 306-304،
مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟