Napaki Ki Halat Mein Kapre Dhone Ka Hukum

ناپاکی کی حالت میں کپڑے دھونے کا حکم

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3188

تاریخ اجراء:18ربیع الثانی1446ھ/22اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   غسل فرض ہونے کی حالت میں  پاک کپڑے دھو سکتے ہیں یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غسل فرض ہو جائے، تو بلاوجہ غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئےکہ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب (بے غسل فرد )ہو،  اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، لہذا بہتر یہی ہے کہ جلد از جلد غسل کرلیا جائے یا کم ازکم وضو کرلیا جائے،کیونکہ جنبی اگر وضو کرلے، تواب رحمت کے فرشتوں کے آنے کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے۔ ہاں! یاد رہے کہ بغیر عذرِ شرعی غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز کا آخر وقت آگیا،تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کرےگا، گناہ گارہوگا۔

   البتہ حالتِ جنابت  میں کپڑے دھونا یا  گھر  کے دیگر کام کاج کرنا ،  جائز ہے۔  اور اگر یہ اشکال ہو کہ حالتِ جنابت میں تو بدن ناپاک ہوتا ہے، تو کسی چیز کو ہاتھ لگانے سے وہ چیز ناپاک تو نہیں ہو گی؟ تو عرض ہے کہ جنبی شخص (جس پر غسل فرض ہوا ہو) اگر کسی چیز کو چھو لے، تو اس کے محض چھونے سے وہ چیز ناپاک نہیں ہو تی، کیونکہ جنبی  پر نجاست حکمی طاری ہوتی ہے اور نجاستِ حکمی کسی چیز کو چھونے سے اس میں منتقل نہیں ہوتی۔ البتہ!اگر اس کے ہاتھ یا بدن پر نجاستِ حقیقیہ لگی ہو اور کسی چیز کو چھونے سےوہ نجاست بدن سے چھوٹ کر  اس چیز کو لگ جائے، تو جتنی جگہ پر نجاست لگے گی، وہ جگہ ناپاک ہو جائے گی۔

   جنبی کے پاس رحمت کے فرشتے نہیں آتے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم  نے ارشاد فرمایا:”إن الملائكة لا تحضر جنازة كافر بخير، ولا جنبا حتى يغتسل أو يتوضأ وضوءه للصلاة“ ترجمہ:بےشک فرشتے کافر مردے کے پاس بھلائی کے ساتھ حاضر نہیں ہوتے اور جنبی شخص کے پاس بھی نہیں آتے جب تک وہ غسل نہ کر لے یا نماز جیسا وضو نہ کر لے۔(مصنف عبد الرزاق، رقم الحدیث 1087، ج1، ص 281، المجلس العلمي، الهند)

   جنبی جب وضو کر لے،  تو رحمت کے فرشتوں کے آنے کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے ، اس کے متعلق علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ الرحمۃ  لکھتے ہیں:”(فيتوضأ)فإنه إذا فعل ذلك لم تنفر الملائكة عنه ولم تمتنع عن دخول بيت هو فيهترجمہ:(جنبی شخص جب غسل سے پہلے کھانایاسوناچاہے )تووہ وضوکرلے کہ جب وہ  یہ(یعنی وضو ) کر لیتاہے تو فرشتے اس سے دور نہیں جاتے اور جس گھر میں وہ ہو،وہاں داخل ہونے سے بھی نہیں رکتے۔(فیض القدیر، ج 3، ص 325،مطبوعہ مصر)

   بہارشریعت میں ہے’’جس پرغسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کریگا، گنہگار ہو گا اور کھانا کھانا یا عورت سے جِماع کرنا چاہتا ہے تو وضو کرلے یا ہاتھ مونھ دھولے، کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے۔(بہارشریعت،ج 1،حصہ 2،ص 325 ،326، مکتبۃ المدینہ)

   جنبی شخص اگر کسی چیز کو چھو لے، تو محض چھونے سے وہ چیز ناپاک نہیں ہو  گی،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ”انه لقيه النبي صلى الله عليه وسلم في طريق من طرق المدينة، وهو جنب، فانسل، فذهب فاغتسل، فتفقده النبي صلى الله عليه وسلم، فلما جاءه، قال: اين كنت يا ابا هريرة؟ قال: يا رسول الله، لقيتني وانا جنب، فكرهت ان اجالسك حتى اغتسل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سبحان الله، إن المؤمن لا ينجس“ترجمہ: آپ رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستے پر ملے اور آپ رضی اللہ عنہ حالتِ جنابت میں  تھے، لہٰذا  آپ وہاں سے  چپکے سے نکل گئے اور جا کر غسل کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کروایا۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے ،  توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ! تم کہاں تھے؟ انہوں نے عرض کی! یارسول اللہ  !جب آپ مجھے ملے،  تو میں جنابت کی حالت میں تھا، میں نے غسل کیے بغیر آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سبحان اللہ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔(صحیح مسلم،رقم الحدیث 371،ج 1،ص 282، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   شرح ابو داؤد للعینی میں ہے:”الإنسان إذا أصابته الجنابة لم ينجس وإن صافحه جنب أو مشرك لم ينجس“ ترجمہ: انسان پر جب جنابت طاری ہوجائے تو وہ نجس نہیں ہوگا، اگر جنبی یا مشرک کسی سے ہاتھ ملائیں تو وہ نجس نہیں ہوگا۔(شرح سنن أبي داود،   ج 01، ص205، مكتبة الرشد ،الرياض(

   اوپر بیان کردہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی شرح میں  مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ” یعنی جنابت نجاست حقیقیہ نہیں تاکہ جنبی سے مصافحہ وغیرہ منع ہو۔۔۔اس حدیث سے چند مسائل معلوم ہوئے: ایک یہ کہ جنبی کا پسینہ یا جھوٹا نجس نہیں۔دوسرے یہ کہ غسل جنابت میں دیر لگانا جائز ہے۔تیسرے یہ کہ جنابت کی حالت میں ضروری کام کاج کرنا جائز ہے۔چھوتھے یہ کہ جنبی سے مصافحہ،معانقہ بلکہ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا جائز۔“(مرآۃ المناجیح،ج 1،ص 307،308،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم