Ghusl ke Doran Baat Karna Ya Koi Cheez Mangna

غسل کے دوران کوئی بات کرنا یا کوئی چیز مانگنا

مجیب:مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3107

تاریخ اجراء:10ربیع الاوّل1446ھ/13ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا واش روم میں نہاتے ہوئے کچھ بولنا گناہ ہے اور اگر والدین کچھ پوچھیں جبکہ انہیں معلوم ہو کہ واش روم میں ہے،اسی طرح نہاتے ہوئے کوئی چیز مانگنا کیا گناہ ہے جیسے صابن وغیرہ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   واش روم میں نہاتے ہوئے بلا ضرورت بولنا گناہ نہیں بلکہ خلاف مستحب و مکروہ تنزیہی ہے ،البتہ اگر کوئی ضرورت ہوتو بولنا جائز ہے مثلا صابن نہیں ہے صابن مانگنے کے لئے بولنا یا پانی ختم ہوگیا ہے اور پانی  کے لئے بولنا وغیرہ   اوراس میں حتی الامکان یہ کیاجائے کہ اگرکوئی کپڑاوغیرہ پاس موجودہوتواس سے سترکرلے اورپھربولے۔

   چنانچہ علامہ ابن عابدین  شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" (قوله: و آدابه كآدابه) نص عليه في البدائع: قال الشرنبلالي: و يستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقا، أما كلام الناس فلكراهته حال الكشف، و أما الدعاء فلأنه في مصب المستعمل و محل الأقذار و الأوحال اھ۔۔۔و استشکل فی الحلیۃ  عموم ذلک بما فی صحیح مسلم عن «عائشة - رضي الله عنها - قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء بيني وبينه واحد، فيبادرني حتى أقول دع لي»۔۔۔ ثم أجاب بحمله على بيان الجواز أو أن المسنون تركه ما لا مصلحة فيه ظاهرة " ترجمہ: علامہ شرنبلالی نے فرمایا: اور(غسل کی حالت میں) مستحب یہ ہے کہ مطلقاً (یعنی دینی ، دنیوی کسی طرح کا ) کلام نہ کرے ۔ بہر حال لوگوں کا کلام ، ستر کھلا ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے  اور دعا تو اس وجہ سے کہ غسل خانہ  مستعمل پانی گرنے اور گندگی اور کیچڑ کی جگہ ہے ۔ اور حلیہ میں  اس عموم پر صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے ساتھ اشکال وارد کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  غسل کرتے ایک ہی برتن سے جو میرے اور حضور کے درمیان ہوتا تو حضور مجھ سے سبقت لے جاتے  حتی کہ میں عرض کرتی کہ  میرےلیے بھی چھوڑئیے ۔ پھر اس اشکال کا جواب یہ  دیا کہ  یہ بیان جواز پر محمول ہے  یا یہ کہ جس بات میں  ظاہری مصلحت  نہ ہو اسے ترک کرناسنت ہے ۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 156،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم