Ghusal Ki Cheenten Balti Me Gir Jae Tu Kiya Hukum Hai

غسل کے دوران کچھ چھینٹیں بالٹی میں چلی جائیں، تو کیا اس پانی سے غسل درست ہوگا؟؟

مجیب:  مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12295

تاریخ اجراء:     16 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/16جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   غسل کے دوران کچھ چھینٹیں بالٹی میں چلی جائیں، تو کیا اس پانی سے غسل درست ہوگا؟؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر تو جسم کے کسی حصے پر ناپاکی لگی ہوئی ہو (مثلاً مذی یا منی وغیرہ کے قطرے لگے تھے) اور اسے صاف کیے بغیر ہی غسل کرنا شروع کردیا جائے پھر  اس جگہ سے ناپاک چھینٹیں اڑ کر بالٹی میں گریں تو اس صورت میں وہ بالٹی والا  ساری پانی ناپاک ہوجائے گا  اور وضو اور غسل کے قابل نہیں رہے گا کیونکہ قلیل پانی میں نجاست کا ایک قطرہ بھی گرجائے تو وہ سارا پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ بہر حال اس معاملے میں سخت احتیاط کی حاجت ہے کہ غسل سے پہلے جسم پر لگی ناپاکی کو اچھی طرح دور کرلیا جائے تاکہ نجاست کے حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہاں تک کی ساری گفتگو اس تناظر میں تھی  کہ جسم پر کہیں ناپاکی لگی ہوئی ہو اور وہ ناپاک چھینٹیں اڑ کر بالٹی والے پانی میں گرجائیں تو کیا حکم ہے؟ البتہ  اگر جسم کے کسی حصے پر نجاست نہ  لگی ہو تو اس صورت میں اگر پانی کی کچھ چھینٹیں بدن سے اڑ کر بالٹی میں چلی جائیں تو وہ بالٹی والا پانی مستعمل نہیں ہوگااور اس پانی سے وضو اور غسل درست ہوگا، کیونکہ صاف  پانی میں مستعمل پانی  مل جائے تو وہ صاف پانی اسی وقت مستعمل کہلاتاہے جب مستعمل پانی زیادہ ہو، اور  یہاں یہ  بات بالکل واضح ہے کہ بالٹی میں موجود پانی گرنے والی چھینٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔

تفصیلی جزئیات درج ذیل ہیں:

   قلیل پانی میں اگر نجاست کا ایک قطرہ بھی گرجائے، تو وہ سارا پانی ہی ناپاک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:ان النجس اذا وقع فی الماء القلیل المذھب قطعا شیوع النجاسۃفینجس الکل وحینئذ یعنی جب نجاست تھوڑے پانی میں گر جائے تو قطعی مذہب یہ ہے کہ نجاست تمام کو شامل ہوگی اور اس وقت وہ کل پانی نجس شمار ہوگا۔ (فتاوٰی رضویہ،ج02،ص164،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد  فرماتے ہیں:ان ماء الغدیر یتنجس کلہ معاً بوقوع قطرۃ من نجس وما ھو الا لانہ شیئ واحد لقاء جزء منہ لقاء الکل کما بینا  یعنی تالاب کا کل پانی بیک وقت ناپاک ہوجاتا ہے جبکہ اس میں نجاست کا کوئی قطرہ گر جائے، اور یہ اسی لئے ہے کہ وہ شَے واحد کی طرح ہے، اُس کے ایک جُزء سے ملاقات کل سے ملاقات ہے، جیسا کہ ہم نے  بیان کیا۔ (فتاوٰی رضویہ،ج02،ص167، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی امجدیہ  میں ہے :”جب برتن میں نجاست پڑگئی تو پانی نجس ہوگیا نجاست کا غیر مرئی ہونا یا اوصاف میں تغیر نہ آنا اس کو نجاست سے نہیں روکتا۔ (فتاوٰی امجدیہ،ج01،ص19، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   مستعمل پانی صاف پانی میں مل جائے تو اجزاء کا اعتبار ہوگا۔ جیسا کہ بحر الرائق میں ہے:”اذا اختلط بالمطلق فالعبرۃ لاجزاءفان کان الماء المطلق اکثر جاز الوضوء بالکل وان کان مغلوبا لایجوز “یعنی  جب مستعمل پانی صاف پانی  کے ساتھ  مل جائےتو اس وقت اجزاء کا اعتبار ہوگا، لہذا اگرصاف غیر مستعمل پانی زیادہ ہےتو اس سارے پانی کے ساتھ وضو جائز ہوگا اور اگر صاف پانی مغلوب یعنی کم ہے تو وضو جائز نہیں ہوگا۔ (بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، ج01،ص128،مطبوعہ کوئٹہ)

   نور الایضاح میں ہے:”والغلبۃ فی المائع الذی  لا وصف لہ کالماء المستعمل وماء الورد المنقطع الرائحۃ تکون  بالوزن فان اختلط رطلان من الماء المستعمل برطل من  الماء المطلق لا یجوزبہ الوضوء وبعکسہ  جاز “یعنی پانی میں ایسی بہنے والی چیز کا غلبہ جس کا کوئی وصف نہ ہو جیساکہ مستعمل پانی اور پھولوں کاایسا  پانی جس کی خوشبو ختم ہوچکی ہوتو اس صورت میں غلبہ وزن کے ساتھ ہوگا لہذا اگر  مستعمل پانی کے دو رطل (ایک مخصوص پیمانہ )میں صاف پانی کا ایک رطل مل جائےتو اس  سے وضو جائز نہیں ہوگا اور اگر اس کا عکس ہو یعنی دو رطل صاف پانی کے ہوں اور ایک مستعمل پانی کا تو وضو جائز ہوگا ۔ (نور الایضاح مع امداد الفتاح، کتاب الطھارۃ، ص42،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:” جب غیر مستعمل پانی مستعمل سے زائد ہو تو پانی قابلِ وضو وغسل رہتا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج02 ، ص44 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

بہارِ شریعت میں ہے :”مستعمل پانی اگر اچھے پانی میں مل جائے مثلاًوضو یا غسل کرتے وقت قطرے لو ٹے یا گھڑے میں ٹپکے تو اگر اچھا پانی زیادہ ہے تو یہ وضو اور غسل کے کام کا ہے ورنہ سب بےکار ہوگیا ۔“ (بہار شریعت ،ج01، ص334،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   فتاوٰی امجدیہ  میں اس حوالے سے مذکور ہے :”ماء مستعمل جب غیر  مستعمل میں ملے، اور غیر مستعمل غالب ہو، تو مطہر رہے گا۔ ۔۔۔جب وضو کے قطرے لوٹے میں گرے، کہ جب تک یہ قطرات لوٹے کے پانی کے برابر نہ ہوں، اس سے وضو جائز ہے۔ (فتاوٰی امجدیہ،ج01،ص16، مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم