Gele Hathon Se Nal Ya Imama Ko Chona Phir In Hathon Se Masah Karna

گیلے ہاتھوں سے نل یا عمامہ کو چھونا پھر ان ہاتھوں سے مسح کرنا

مجیب: مفتی   محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: 7263 pin-

تاریخ اجراء: 24محرم الحرام1445ھ/12اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سر کے مسح کے لیے ہاتھوں کو پانی سے تر کرتے ہیں، تو مسح کرنے سے پہلے اگر کسی چیز کو ہاتھ لگا لیا، مثلاً: ٹونٹی (نَل) بند کیا یا دوپٹہ  کو سر سے پیچھے کیا، تو کیا پھر سے ہاتھوں کو دھونا پڑے گا یا اسی سے مسح کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب جاننے سے قبل مسح کے متعلق چند اصول ذہن نشین کر لیجئے، ان سے مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو گی:

٭ وضو میں مسح کا معنیٰ یہ ہے:’’ گیلے ہاتھ کو اس حصے پر پھیرنا جس پر مسح کا حکم ہے۔‘‘ مسح کے لیے ہاتھ تَر ہونا چاہئے، اب وہ تری اعضاء دھونے کے بعد ہاتھوں پر باقی رہ گئی ہو یا پھر نئے پانی سے ہاتھ تَر کیے ہوں، بہر صورت کافی ہے۔

٭ اگر وہ تَری استعمال کر لی ہو، مثلاً: ہاتھ گیلا کر کے کسی عضو کا مسح کر لیا، تو اب دوبارہ اسے مسح کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔

٭اگر تَری لےکر مسح نہیں کیا، ویسے کسی چیز (مثلاً: ٹونٹی، عمامے، دوپٹے) کو چھو لیا اور ہاتھ ابھی تک گیلا  ہے، تو اس سے مسح کیا جا سکتا ہے اور چیز کو چھونے سے تَری ختم ہو گئی، تو اب نیا پانی لےکر مسح کرنا ہو گا۔ جیسا کہ کتبِ فقہ میں کانوں کے مسح کے متعلق ہے کہ ہاتھ تَر تھےاورعمامہ چھو لیا، اگر تَری باقی ہے، تو مسح کیا جا سکتا ہے، ورنہ نیا پانی لینا ہو گا۔

   اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا حکم واضح ہو گیا کہ مسح کے لیے ہاتھ گیلے کرنے کے بعد اگرٹونٹی، عمامہ، دوپٹہ وغیرہ کسی چیز کو چھونے سے ہاتھوں پرموجودتری ختم نہ ہو، تو اس سے مسح کیا جا سکتا ہے (اور عام طورپر اس طرح ٹونٹی وغیرہ چھو لینے سے تری  ختم نہیں ہوتی، لہٰذا مسح ہوجائے گا)، البتہ اگر عمامے، دوپٹے وغیرہ کو چھونے سے تَری ختم ہو جائے، تو مسح کےلیے دوبارہ سے ہاتھ تَر کرنے ہوں گے۔

   مسح کی تعریف حلبی کبیری میں یہ ہے: ’’(وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ) المسح فی اللغۃ امرار الشئی علی الشئی بطریق المماسۃ وفی الشرع اصابۃ الید المبتلۃ ما امر بمسحہ ھذا فی الوضو واما فی التیمم فارید المعنی اللغوی‘‘ ترجمہ: (ارشادِ باری تعالیٰ) اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ مسح کا لغوی معنیٰ ایک چیز کو دوسری پر اتصال کے ساتھ پھیرنا ہے اور اصطلاحی معنیٰ گیلے ہاتھ کو اس حصے پر پھیرنا جس پر مسح کا حکم ہے اور ایسا وضو میں کرنا ہوتا ہے، جبکہ تیمم میں مسح سے مراد اس کی لغوی تعریف لی جاتی ہے۔(حلبی کبیری، کتاب الطھارۃ، صفحہ 15، مطبوعہ  کوئٹہ)

    اب ہاتھ برتن کے پانی سے تر کیا ہو یا اعضاء دھونے کی وجہ سے گیلا ہو، کافی ہے۔فتاوی عالمگیری میں ہے:’’لوکان فی کفہ بلل فمسح بہ اجزاہ سواء کان اخذالماء من الاناءاو غسل ذراعیہ وبقی بلل فی کفہ ھو الصحیح‘‘ترجمہ:اگرہاتھوں میں تری موجود ہو،تو اس سےمسح ہوجائےگا،برابرہےکہ کسی برتن سےپانی لینے کے بعدوہ تری بچی ہو یاکلائیاں دھونےکےبعد ہاتھوں پرتری  باقی بچ گئی ہو،یہی صحیح ہے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ7، مطبوعہ کراچی)

   تَری سے کب مسح کیا جا سکتا ہے اور کب نہیں؟ اس کی تفصیل فتاوی قاضی خان میں کچھ یوں ہے: ’’ اذا توضا ثم مسح الخف ببلة بقيت على كفه بعد الغسل جاز ولو مسح براسه ثم مسح الخف ببلة بقيت على الكف بعد المسح لا يجوز، لانه مسح الخف ببلة مستعملة بخلاف الاول ‘‘ ترجمہ: جب کسی نے وضو کیا اور اعضائے وضو دھونے کے بعد اس کی ہتھیلی پر تَری بچ گئی، تو اس تری سے موزے پر مسح کرنا، جائز ہے اور اگر کسی نے سر کا مسح کیا، پھر مسح کے بعد ہتھیلی پر بچ جانے والی تَری سے موزے پر مسح کیا، تو جائز نہیں، کیونکہ اس مثال میں موزے پر جس تری سے مسح کیا جا رہا ہے، وہ استعمال شدہ ہے ، برخلاف پہلی صورت کے۔(فتاوی قاضی خان، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 48، مطبوعہ  کراچی)

      علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ قاضی خان کا یہ جزئیہ نقل کرنے کے بعد حاصل کلام ذکر کرتے ہیں: ’’والحاصل ان البلل اذا بقي في كفيه بعد غسل عضو من المغسولات جاز المسح به، لانه بمنزلة ما لو اخذه من الاناء واذا بقي في يده بعد مسح عضو ممسوح او اخذه من عضو من اعضائه لا يجوز المسح به مغسولا كان ذلك العضو او ممسوحا، لانه مسح ببلة مستعملة ويستثنى من هذا الاطلاق مسح الاذنين، فإنه جائز ببلة بقيت بعد مسح الراس بل سنة عندنا ‘‘ ترجمہ: حاصل کلام یہ ہے کہ جو تری اعضائے وضو کو دھونے کے بعد ہتھیلیوں پر باقی رہ جائے، تو اس سے مسح کرنا درست ہے، کیونکہ اب یہ برتن سے لی جانے والی  تَری کی منزلت میں ہے اور اگر ہاتھ میں ایسی تری موجود ہو، جو کسی مسح کیے جانے والے حصے پر مسح کرنے کے بعد بچی ہو یا اعضائے وضو  سے اتاری گئی ہو، چاہے وہ دھونے والے اعضاء ہوں یا مسح والے، تو اب اس سے مسح کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس نے مستعمل تری کے ساتھ مسح کیا ہے اور اس حکم سے کانوں کا مسح مستثنیٰ ہے، کیونکہ وہ سر کے مسح کے بعد بچ جانے والی تری سے کرنا، جائز ہے، بلکہ اَحناف کے نزدیک سنت ہے۔(البحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، جلد 1، صفحہ 183، مطبوعہ بیروت)

      کانوں کے مسح کے متعلق در مختار میں ہے: ’’ (ومسح كل راسه مرة واذنيه بمائه) لكن لو مس عمامته فلا بد من ماء جديد‘‘ ترجمہ:پورے سر کا ایک بار اور سر کے پانی کے ساتھ دونوں کانوں کا مسح کرنا (سنت ہے)، لیکن اگر (کانوں کے مسح کرنے سے قبل) عمامہ کو چھو لیا، تو اب نیا پانی لینا ہوگا۔

      لیکن یہ شرط تبھی ہے، جب عمامہ کو چھونے سے تَری باقی نہ رہے۔ چنانچہ اسی مسئلہ کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’(لکن۔۔ الخ) ذکرہ فی شرح المنیۃ ولعلہ محمول علی ما اذا انعدمت البلۃ بمس العمامۃ۔قال فی الفتح: واذا انعدمت البلۃ لم یکن بد من الاخذ‘‘ ترجمہ:یہ مسئلہ شرح منیہ میں بھی ہے، شاید نیا پانی لینےکاحکم اُس صورت پر محمول ہوگا،جب عمامہ چھونےسےہاتھوں پرموجود تری ختم ہوجائے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نےفتح القدیر میں فرمایا:اورجب تری ختم ہوجائے،تونئےپانی سےہاتھ ترکرناضروری ہوگا۔(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 264، مطبوعہ پشاور)

      یونہی ایک روایت کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کانوں پر مسح کے لیے نیا پانی لیا،  تو اس کا محمل بھی یہی بیان کیاگیا ہے۔ چنانچہ اللباب فی شرح الکتاب میں ہے: ’’ وان ما روي أنه صلى اللہ عليه وسلم:اخذ لاذنيه ماء جديداً۔ فيجب حمله على انه لفناء البلة قبل الاستيعاب‘‘ ترجمہ:اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ انہوں نے کانوں کے لیے نیا پانی لیا۔ تو اس روایت کو مسح کی تکمیل سے قبل تَری کے ختم ہو جانے پر محمول کرنا لازم ہے۔(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 9، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم