Gadhe Aur Khachar Ka Jootha Pani Mashkook Kyun?

 

گدھے اور خچر کا جوٹھا پانی مشکوک کیوں؟

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3091

تاریخ اجراء: 18ربیع الاول1446 ھ/23ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       گدھے اور خچر کا جوٹھا پانی مشکوک کیوں ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولایہ ذہن نشین رہے کہ خچرکے حصول کے دوطریقے ہوتے ہیں :ایک یہ کہ گدھے کی گھوڑی سے جفتی کرائی جاتی ہے ،جس کے نتیجے میں خچرپیداہوتاہے ،ایسے خچرکاجوٹھامشکوک نہیں ہے ،بلکہ گھوڑی کی طرح پاک ہے کہ جانوروں میں ماں کے اعتبارسے احکام لگتے ہیں۔

   اوردوسراطریقہ یہ ہے کہ گھوڑے کی گدھی سے جفتی کرائی جاتی ہے ،جس کے نتیجے میں خچرپیداہوتاہے ،ایسے خچرکاجوٹھا گدھی  کے جوٹھےکی طرح مشکوک ہے ۔

   اب گدھے کے جوٹھے کے مشکوک ہونے کی وجہ ملاحظہ فرمائیے:

   گدھے کےجوٹھےپانی کےمشکوک  ہونے کی  وجہ یہ ہے کہ اس  کے پاک اورناپاک ہونے کے دلائل آپس میں ٹکراتے ہیں  کہ بعض روایات میں اس کے جوٹھے کوپاک جبکہ بعض روایات میں اسے ناپاک قرار دیا گیا ہے،اور دونوں میں سے کسی ایک قول کو دوسرے پرترجیح  دینا  ممکن  بھی نہیں  ۔نیز جس طرح بلی  کےگھروں میں آنے جانے کی وجہ سے اس کے جوٹھے پانی کو حرج کے سبب ناپاک قرار نہیں دیا گیا، تو   گدھے کے جوٹھے  پانی کے معاملے میں بھی یہی ضرورت موجود ہے کہ  وہ بھی گھر وں   میں گھومتاہےاور برتنوں   میں منہ ڈالتا ہے،لہذا اس ضرورت کے پیشِ نظر اس کے جوٹھے پانی کی  طہارت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن گدھے  کے معاملے میں بلی کی نسبت ضرورت کم ہے، کیونکہ گدھے کا گھر کی مختلف جگہوں بالخصوص گھرکی تنگ جگہوں میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے،لہذا بلی کی طرح اس کی ضرورت کے متحقق  نہ ہونے کی وجہ سےاس کے جوٹھے پانی کا نجس  ہونا ثابت ہوتا ہے۔اورجب دلائل میں تعارض واقع ہو تو  حکم میں توقف کرنا واجب  ہے، اسی وجہ سے گدھے کےجوٹھے پانی کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ اور اچھے پانی کی عدم موجودگی میں مشکوک پانی کے ساتھ احتیاطاً تیمم  کرنا بھی لازم  قرار دیا کہ اگر تو اس  پانی سے وضو جائز ہو، تو تیمم کرنے میں کوئی نقصان نہیں اور اگر اس سے وضو جائز نہ  ہوتو تیمم کے ساتھ نماز درست ہو جائے گی ۔

   گدھے اور خچر کے جوٹھے پانی کو مشکوک کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بدائع الصنائع میں تحریر فرماتے ہیں : "واما السؤر المشکوک فیہ فھو سؤر الحمار والبغل ، فی جواب ظاھر الرواية ۔۔۔ وجہ ظاھر الروايةأن الآثار تعارضت في طهارة سؤره ونجاسته عن ابن عباس رضی اللہ عنھما   انہ کان یقول : الحمار یعتلف القت والتبن فسؤرہ طاھر وعن ابن عمر رضی  اللہ عنھما  انہ کان یقول: انہ رجس وکذا تعارضت الاخبار فی اکل لحمہ ولبنہ ، روی فی بعضھا النھی ، وفی بعضھا الاطلاق، وکذا اعتبار عرقہ یوجب طھارۃ سؤرہ، واعتبار لحمہ ولبنہ یوجب نجاستہ، وکذا تحقق اصل الضرورۃ لدورانہ  فی صحن الدار وشربہ فی الاناء یوجب طھارتہ وتقاعدها عن ضرورۃ الھرۃ باعتبار انہ لایعلو الغرف ولایدخل  المضایق  یوجب نجاستہ والتوقف  فی الحکم عند تعارض الادلۃ واجب، فلذلک کان مشکوکا فیہ فاوجبنا الجمع بین التیمم وبین التوضؤ بہ احتیاطا لان التوضؤ بہ لو جازلا یضرہ التیمم، ولو لم یجزالتوضؤ بہ جازت صلاتہ بالتیمم، فلا یحصل الجواز بیقین الا بالجمع بینھماوایھماقدم جازعند اصحابناالثلاثۃ" ترجمہ: ظاہر الروایہ کے  جواب کے مطابق مشکوک جوٹھے پانی میں گدھے اور خچر کا جوٹھا پانی شامل ہے ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  انکے جوٹھے کےپاک یا ناپاک  ہونے کے متعلق روایات  میں تعارض ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے  کہ گدھا ایک  جنگلی دانہ(جوکوٹ کر پکانے کے کام آتا ہے)اور بھوسہ کھاتا ہے پس اس کا جوٹھا پاک ہے ،جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے   کہ گدھے کا جوٹھا ناپاک ہے،اسی طرح اس کا گوشت کھانے اور دودھ سے متعلق روایات میں بھی تعارض پایا جاتا ہے  ، بعض روایات میں دودھ و گوشت   کی ممانعت وارد اور بعض روایات میں اسے روا رکھا گیا ہے، اسی طرح اگر اس کے پسینے کا  اعتبار کیا جائے تو اس کے جوٹھے کی طہارت  اوراگر اس کے گوشت اور دودھ کا اعتبار کیا جائے تو اس کے جوٹھے کی نجاست  واجب ہوتی ہے ۔ اسی طرح گدھے کے معاملے میں ضرورت بھی ہے   کہ یہ گھر کے صحن میں گھومتا اور برتنوں   میں منہ ڈالتا ہے ، جس سے اس کی طہارت ثابت ہوتی ہے لیکن اس کی ضرورت بلی سے کم ہے  کیونکہ وہ بالائی کمروں میں نہیں چڑھ سکتا  اور نہ تنگ جگہوں میں داخل ہوسکتا ہے ، جس سے اس  کی نجاست ثابت ہوتی ہے  اورجب دلائل میں تعارض واقع ہو تو  حکم میں توقف کرنا واجب ہے اسی وجہ سے گدھے اور خچر کے جوٹھے  پانی کو مشکوک قرار دیا گیا ہے ، پس ہم نے احتیاط کے پیش نظر مشکوک پانی کے ساتھ تیمم  کو جمع کرتے ہوئے دونوں کو واجب کردیااس لیے کہ اگر تو اس  پانی سے وضو جائز ہو، تو اسے تیمم نقصان نہ پہنچائے گا اور اگر اس سے وضو جائز نہ  ہوا تو تیمم کے ساتھ نماز درست ہو جائے گی ۔پس یقین کے ساتھ جواز کا حصول اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وضو وتیمم دونوں کو جمع نہ کرلیا جائے  اور ان  دونوں میں سے جس کو چاہے  پہلے کرلے ، ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 65،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   محیط برھانی میں ہے"وأما المشكل فهو سؤر الحمار واختلف المشايخ المتأخرون في أن الإشكال في طهارته أو في طهوريته، وعامتهم على أن الإشكال في طهوريته، وإنما وقع الإشكال في طهارته. إما لأن الصحابة اختلفوا في نجاستهِ وطهارته، روي عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه أنه نجس، وعن عبد الله بن العباس رضي الله عنهما أنه طاهر، وليس أحد القولين بأولى من الآخر فبقي مشكلاً، أو لأن الحمار يربط في الدور والأخبية فيشرب من الأواني كالهرة، إلا أن الضرورة في الحمار ليست نظير الضرورة في الهرة لأن الهرة تدخل مضايق البيوت والحمار لا يدخل مضايق البيوت. ولو لم تكن الضرورة ثابتة أصلاً كما في سؤر الكلب وسؤر سباع البهائم وجب الحكم بنجاسة سؤره بلا إشكال. ولو كانت الضرورة في الحمار نظير الضرورة في الهرة لوجب الحكم بإسقاط نجاسته وبقائه على الطهارة بلا إشكال. فإذا ثبتت الضرورة من وجه دون وجه عملنا بهما، ولوجود أصلها لم يحكم بنجاستهِ، ولانعدام ما يمنعها لم يحكم بالطهارة فبقي مشكوكاً فيه.والأصح ما نقل عن عامة المشايخ أن الإشكال في طهوريته لا في طهارته۔۔۔. أخرجناه من أن يكون طهوراً فلا يطهر ما كان نجساً، ولا ينجس ما كان طاهراً.والحكم في سؤر البغل مثل الحكم في سؤر الحمار لأن البغل متولد من الحمار ومخلوق من مائه" ترجمہ:بہرحال مشکل پس وہ گدھے کا جوٹھا ہے اور متاخرین مشائخ کے مابین اختلاف ہے کہ اس کے پاک ہونے  میں اشکال ہےیا اسکے پاک کرنے میں  اشکال ہے۔ زیادہ تر علماء کے نزدیک اس کے پاک کرنے میں اشکال ہے، حالانکہ اسکے پاک ہونے میں اشکال واقع ہوا ہے ،یا تو اس لیے کہ  صحابہ کرام   سےاس کے پاک اور ناپاک ہونے سے متعلق    اختلاف منقول ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ ناپاک ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ وہ پاک ہے، ان دونوں اقوال  میں سے ایک قول دوسرے سے اولی نہیں ہے ، پس اشکال باقی رہا ۔یا اس لیے کہ  گدھا گھروں اور خیموں میں باندھا جاتا ہے ،اوروہ گھر کے  برتنوں سے پانی بھی پیتا ہے جیساکہ بلی ۔ مگر گدھے میں جو ضرورت ہے وہ بلی میں ضرورت کی طرح نہیں ہے  اس لئے کہ بلی گھروں کی تنگ جگہوں میں بھی داخل ہوجاتی ہے جبکہ گدھا ایسی جگہوں میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر ضرورت بالکل ثابت نہ  ہوتی جیسا کہ کتے اور درندے کے جوٹھے میں، تو گدھے کے جوٹھے میں بغیر کسی اشکال کے  نجاست کا حکم ثابت ہوتا اور اگر گدھے  کے معاملے میں   بلی کی مثل ضرورت  موجود ہوتی تو  حکمِ نجاست کا سقوط ثابت ہوتااور وہ بغیر کسی اشکال کے اپنی طہارت  پر باقی رہتا۔ پس جب ایک وجہ سےضرورت ثابت ہو اور ایک  وجہ سے نہ  ہوتو ہم دونوں پر عمل کریں گے اور اسکی اصل کے پائےجانے کی وجہ سے اسکی نجاست کا حکم نہیں لگایا جائےگااور اسکے مانع کے نہ پائےجانے کی وجہ سےاسکی طہارت کا حکم نہیں لگایا جائےگا پس  یہ  مشکوک رہے گااور جو عام مشائخ سے نقل کیا گیا ہے وہی زیادہ   صحیح ہے  کہ اس کے پاک کرنے میں اشکال ہے نہ کہ پاک ہونے میں ۔۔۔ ہم نے اسے پاک کرنے والا ہونے سے خارج کیاتو یہ ناپاک  چیز کو پاک نہیں کرے گا ،اور پاک چیز کو ناپاک نہیں کرے گا۔اور  خچر کے جوٹھے کا حکم گدھے کے جوٹھے کے حکم کی طرح ہے اس لیے کہ خچر گدھے کی اولاد ہے اوراسکے پانی سے پیدا ہوتا ہے۔(المحیط البرھانی،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 129،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   ایسے پانی سے وضو کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے ” گدھے کا جھُوٹا پانی موجود ہے،اور نہیں ،اُس سےوضو بھی کرے اورتیمم بھی۔ ان دونوں نمبروں میں اختیار ہے چاہے وضو پہلے کرے خواہ تیمم اور بہتر یہ ہے کہ وضو پہلے کرے اوران دونوں میں وضو بلانیت جائز نہ ہوگاتیمم کی طرح اس وضو میں بھی نیت شرط ہے۔ تنبیہ: یہی حکم خچّرکے جھُوٹے کا ہے اگر گدھی پر گھوڑا پڑنے سے پیدا ہوا ہو، ہمارے ملك میں عام خچر وہ ہیں کہ گھوڑی پر گدھا ڈال کر لیے جاتے ہیں ان خچّروں کا جھُوٹا مشکوك نہیں طاہر ہے ان کا حکم گھوڑے کی مثل ہے کہ جانوروں میں اعتبار ماں کا ہے۔(فتاوی رضویہ،ج 3،ص 503،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم