Farz Ghusal Kar Ke Namaz Parh Li Ab Naak Mein Pani Dalne Me Shak Hua

فرض غسل کرکےنماز پڑھ لی ،اب ناک  میں پانی ڈالنے میں شک  ہوا ،تو حکم

مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق: مفتی ابومحمد  علی اصغر عطاری  مدنی

فتوی نمبر: Gul-2454

تاریخ اجراء:       06 شعبان المعظم 1443 ھ/ 10 مارچ 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید پرغسل فرض تھا ،اس نے غسل کرکے نماز فجر ادا کرلی ،نماز ادا کرنے کے بعد اسے شک ہوا کہ معلوم نہیں ، ناک میں پانی ڈالا تھا یا نہیں۔کوئی غالب رائے بھی نہیں بن رہی ،ایسی صورت میں زید کے لیے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید اس شک کو وسوسہ ہی سمجھے اور اپنے غسل اور اپنی نماز کو کامل سمجھے۔دوبارہ غسل کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے یا نماز دوبارہ پڑھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے،کیونکہ  وضو یا غسل مکمل ہونےکے بعد اگروضو یا غسل کے کسی فرض میں محض شک ہو ،کوئی غالب گمان نہ ہو، تو اس فرض کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ،اگرچہ یہ شک زندگی میں پہلی مرتبہ واقع ہو، لہٰذا یہاں بھی دوبارہ ناک میں پانی ڈالنے یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔شک کا مطلب یہ ہے کہ ناک میں پانی ڈالنے یا نہ ڈالنے کی دونوں جانب برابرہیں ،کسی جانب کو بھی ترجیح نہیں ہو رہی اور غالب گمان کا مطلب یہ ہے کہ ناک میں پانی ڈالنے یا نہ ڈالنے میں سے کسی ایک جانب زیادہ رجحان ہورہا ہے۔

   حاشیہ شلبی علی التبیین میں علامہ شہاب الدین احمد بن محمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:” لو شك فی  الوضوء كأن شك فی مسح رأسه ان كان قبل الفراغ يمسح، وان كان بعده لا يجب عليه “ ترجمہ:اگروضو میں شک ہوا ،مثلا: سر کا مسح کرنے میں شک ہوا ،تو اگر وضو سے فارغ ہونے سے پہلے شک ہوا، تو دوبارہ مسح کرلے ،اور اگربعد میں شک ہوا ،تو دوبارہ مسح کرنا ضروری نہیں ہے۔(حاشیہ شلبی علی التبیین ،جلد1،صفحہ 485،مطبوعہ کراچی)

   محیط برہانی میں فرمایا:” قال محمد رحمه اللہ فی الأصل : ومن شك فی بعض وضوئه وهو أول ما شك ،غسل الموضع الذی شك فيه، لأن غسله لا يريبه وتركه يريبه، وقد قال عليه السلام:دع ما يريبك إلى ما لا يريبك ولأنه على يقين من الحدث فی ذلك الموضع، وفی شك من غسله، واليقين لا يزال بالشك، فأما اذا كان يرى ذلك كثيراً لم يلتفت ومضى ،لأنه من الوساوس، والسبيل فی الوساوس قطعها، وترك الالتفات اليها، لأنه لو التفت اليها تقع فی مثل ذلك ثانياً وثالثاً، فبقی فی أكثر عمره فی  ذلك۔قالوا: وهذا اذا كان الشك فی خلال الوضوء، فأما اذا كان هذا الشك بعد الفراغ من الوضوء لا يلتفت اليه ومضى، وهو نظير ما اذا شك فی صلاته أنه صلاها ثالثاً أو أربعاً إن كان هذا الشك فی خلال الصلاة كان معتبراً، وان كان بعد الفراغ من الصلاة لا يعتبر“ ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ نے اصل میں فرمایا:جسے اپنے وضو میں شک ہو اور یہ شک زندگی میں پہلی مرتبہ کا ہو، تو  اس جگہ کو دھو لے جس میں شک ہوا،کیونکہ اس جگہ کا دھونا شک کو دورکردے گا اور اس کو بغیردھوئے چھوڑ دینا اسے شک میں مبتلا رکھے گا، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :”جس میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور ایسی چیز اختیارکروجس میں شک نہ ہو۔“دوسری وجہ یہ ہے کہ اس جگہ کا حدث والا ہونا یقینی تھا ،اور اب دھونے میں شک ہوگیا  اوریقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔اگریہ زندگی کا پہلا واقعہ نہ ہو، بلکہ کثرت سے اس کو ایسا ہی شک ہوتا رہتا ہو،تو اس شک کی طرف توجہ نہ کرے، بلکہ وضو کا ہوجانا سمجھے،کیونکہ یہ وسوسہ ہے اوروسوسے کا علاج یہ ہے کہ اس کوجڑ سے ختم کیا جائے اور اس کی طرف توجہ نہ دی جائے ،اس لیے کہ اگراس کی طرف توجہ دے گا ،تو دوسری اورتیسری مرتبہ بھی پھراسی طرح شک واقع ہوگا ،تو ساری عمر یہ شک میں ہی رہے گا۔مشائخ نے فرمایا کہ یہ ساری تفصیل اس وقت ہے کہ جب وضو کے دوران ہی اسے شک واقع ہوا۔اگر وضو سے فارغ ہونے کے بعد اسے شک واقع ہوا ،تو وضو ہوجانا ہی سمجھے اور اس شک کی طرف توجہ نہ کرے۔ یہ مسئلہ  اس نماز کے مسئلے کی نظیر ہے کہ جب نماز کے دوران شک واقع ہوا کہ تین رکعتیں ہوئی ہیں یا چار؟تو اس شک کا اعتبارکیا جائے گا ،مگرنماز کے بعد اگرشک واقع ہوا ،تو اس کا اعتبارنہیں کیا جائے گا۔      (محیط برھانی، جلد1،صفحہ75،مطبوعہ کوئٹہ)

   درمختار میں فرمایا:”شک فی بعض وضوئہ أعاد من شک فیہ لو فی خلالہ ولم یکن الشک عادۃ لہ ،والا لا “ ترجمہ: اگروضو کے دوران ہی بعض اعضاء کے دھونے میں شک پڑااور یہ شک اس کی عادت میں نہیں ہے(یعنی پہلی مرتبہ کا شک ہے) تو جس عضو میں شک  پڑاہے ،اس کو دوبارہ دھولے،ورنہ دوبارہ دھونے کی حاجت نہیں ہے۔(درمختار متن ردالمحتار،جلد1،صفحہ309،مطبوعہ کوئٹہ)

   درمختار کے قول” والا لا“ کی وضاحت کرتے ہوئے ردالمحتار میں ارشاد فرمایا:”أی وان لم یکن فی خلالہ بل کان بعد الفراغ وان کان اول ما عرض لہ الشک او کان الشک عادۃ لہ وان کان فی خلالہ ،فلا یعید شیئا قطعا للوسوسۃ عنہ کما فی التاترخانیۃ وغیرھا “یعنی اگروضو کے دوران شک نہیں ہوا ،بلکہ وضو سے فراغت کے بعد شک ہوا ،اگرچہ پہلی مرتبہ کا ہی شک ہے یا شک ہونا اس کی عادت ہے ،تو اگرچہ وضو کے دوران بھی شک ہو،ان دونوں صورتوں میں کسی چیز کا بھی اعادہ نہیں کرے گا ،وسوسے کی کاٹ کے لیے ۔تاتارخانیہ اور اس کے علاوہ کتب میں ایسا ہی ہے۔(ردالمحتار مع درمختار ،جلد1،صفحہ309،مطبوعہ کوئٹہ)

   شک کی تعریف کرتے ہوئے حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار میں فرمایا:”الشک استواء الطرفین“ ترجمہ: شک کہتے ہیں کہ دونوں جانب برابر ہوں،کسی کو بھی ترجیح حاصل نہ ہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ،جلد1،صفحہ86،مطبوعہ کوئٹہ)

   غالب گمان کی تعریف کرتے ہوئے حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار میں فرمایا:”یعبرعنہ باکبرالرای ترجمہ:غالب گمان کو تعبیرکیا جاتا ہے ،زیادہ رائے سے ۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار ،جلد1،صفحہ316،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:’’ اگر درمیانِ وُضو میں کسی عُضْوْ کے دھونے میں شک واقع ہوا او ر یہ زندگی کا پہلا واقعہ ہے، تو اس کو دھولے اور اگر اکثر شک پڑا کرتا ہے، تو اس کی طرف اِلتفات نہ کرے۔ یوہیں اگر بعد وُضو کے شک ہو، تو اس کا کچھ خیال نہ کرے۔“(بھارشریعت، جلد1،حصہ2،صفحہ310،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم