Elfy Lage Hone Ki Soorat Mein Wazu Aur Ghusl Ka Hukum

ایلفی لگے ہونے کی صورت میں وضو و غسل کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2590

تاریخ اجراء: 14رمضان المبارک1445 ھ/25مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص  رپئیرنگ کا کام کرتا ہو اور اپنے کام میں ایلفی  کا استعمال کرتا ہو ،ایلفی کے استعمال کے دوران  کچھ   ایلفی اس کے ہاتھوں پر بھی لگ جاتی ہو اوراس  سے بچنا بہت  مشکل ہو۔کیا  ایسے شخص کے لئے وضو و غسل کے معاملے میں  رخصت ہوگی  یعنی اسے اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ ہاتھوں سے ایلفی ہٹائے بغیر  ہی   وضو  وغسل کرلے  تو اس کا وضو  وغسل    درست ہوکر  نماز ہوجائے ،یا  پھر اسے بہر حال    ایلفی ہٹا کر ہی وضو  و غسل کرنا ہوگا؟شرعی رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رپئیرنگ وغیرہ کے کام میں ایلفی کے استعمال کے دوران، اگر  ایلفی انگلیوں کے ناخنوں  پر  لگ جائے  تو  وضو وغسل  کیلئے   اُس ایلفی   کا چھڑانا   ضروری ہوگا  کہ    ناخنوں   پر لگی ایلفی عام طور پر بآسانی  اتر جاتی ہے ، اُسے اتارنے میں زیادہ مشقت نہیں ہوتی۔اسی طرح جو  ایلفی  انگلیوں اور ہاتھوں  کی کھال  پر  لگی ہو تواس صورت میں  جتنی ایلفی آسانی سے اتاری جاسکتی ہو،اُتنی اتار کر اس کے نیچے پانی بہانا ضروری ہوگا،اُسے   ہٹائے بغیر وضوو  غسل کرلینے سے  وضو و   غسل  نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی  ۔البتہ جس ایلفی  کے اتارنے میں مشقت اور ضرر کا سامنا  ہو  اور اُسے  اتارنے میں کھال  اُدھڑنے  اور تکلیف پہنچنے کا   اندیشہ ہو تو  اب حرج و مشقت کی وجہ سے اُس ایلفی والی جگہ کےنچلے حصے کو دھونا معاف ہوجائے گا، اور  اس کے لگے ہونے کی حالت میں ہی وضو  و غسل درست ہوجائے گا  اور نماز  بھی ہوجائے گی۔

   نیز   جب ایسے لوگوں کو بار بار ایلفی سے واسطہ پڑتاہے تواگرکبھی ایساہوکہ   ہاتھوں پر ایلفی لگے ہونے کا علم نہ ہو اور وہ   اسی حالت میں وضو  یا غسل کرکے نماز ادا کرلیں،تو اب  دفع حرج کیلئے  بطور رخصت  ایسے لوگوں کا   وضو و غسل ہوجائے گا اورنماز ہوجائے گی،کیونکہ  جس چیز   کی آدمی کو عموماً یا خصوصاً ضرورت پڑتی ہو  اور اس کی دیکھ بھال کرنے، اس کے  لگے ہونے یا  نہ لگے ہونے پر مسلسل توجہ رکھنے، اس سے بچنے اور احتیاط کرنے میں حرج واقع ہو  تو ان کے متعلق  حکم یہ ہوتا  ہے کہ اگر  ایسی کوئی چیزجسم پر لگی رہ  جائے  اور آدمی کو معلوم  نہ ہو،تو  اُس کا وضو یا غسل ہو جائے گا اور نماز پڑھ لی ، تو وہ بھی ہوجائے گی۔

   البتہ!     اگر  نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوجائے ، تو اب  آئندہ کیلئے   کوشش بھر  اُسے چھڑانا واجب ہوگا، اور اُسے چھڑائے اور دھوئے بغیر اب وضو و غسل کریں گے ،تو وضو و غسل نہ ہوگا اور ایسے وضو و غسل کے بعد اگر نماز پڑھیں گے، تو وہ نماز  نہ ہو گی ، کیونکہ رخصت محض بچنے اور نگہداشت میں حرج کی وجہ سے تھی،لیکن جب اس کا لگا ہونا معلوم ہوگیا اور اسے چھڑانے میں ضرر و تکلیف بھی نہیں، تو اس کی رخصت نہ ہوگی ۔

   مشورہ:رپئیرنگ کے کام کرنے والوں کو چاہئے کہ  ایلفی  اور اس  جیسی چیزوں کے استعمال  سے  پہلےاپنے  ہاتھوں میں دستانے  پہن لیں ،تا کہ ہاتھوں پر ایلفی وغیرہ  نہ لگے اور وضو و غسل کے لیے انہیں کسی دشواری  کاسامنا نہ ہو۔

   ہاتھوں پر  ایلفی لگ جائے تو  جس کا چھڑانا ممکن ہو، اسے  وضو و غسل کیلئے چھڑانا ہوگا، بغیرچھڑائے  وضو و غسل نہ ہوگا،چنانچہ فتح القدیر  اور فتاوی عالمگیری میں ہے:واللفظ للاول:’’و لو لزق بأصل ظفرہ طین یابس و نحوہ أو بقی قدر رأس الإبرۃ من موضع الغسل لم یجز‘‘ترجمہ: اگر اس کے ناخن کے اوپر خشک مٹی یا اس کی مثل کوئی اور چیز چپک گئی یا دھونے والی جگہ ، سوئی کے ناکے کے برابر باقی رہ گئی تو جائز نہیں ہے( یعنی غسل اور وضو نہیں ہو گا۔) (فتح القدیر،کتاب الطھارات،ج 1،ص 16،دار الفکر،بیروت)

   منیۃ المصلی میں ہے:’’و ذکر فی المحیط إذا کان علی ظاھر بدنہ جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف و اغتسل أو توضأ و لم یصل الماء إلیٰ ما تحتہ لم یجز ‘‘ترجمہ:محیط میں ذکر کیا ہے کہ اگر کسی آدمی کے جسم پر مچھلی کی جلد یا چبائی ہوئی روٹی لگی ہے اور خشک ہو چکی ہے اس حالت میں اس نے غسل یا وضو کیا اور پانی اس کے نیچے جسم تک نہیں پہنچا تو غسل اور وضو نہیں ہو گا۔(منیۃ المصلی  مع غنیۃ المتملی ،جلد1، صفحہ103 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   جس ایلفی کے اتارنے میں مشقت و حرج ہو،تو اس کا  اتارنا معاف ہوگا،اوراسے اتارے بغیر بھی وضو وغسل ہوجائے گا ،جیسا کہ سیدی اعلی حضرت  امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن  فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:” حرج کی تین صورتیں ہیں:ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو جیسے آنکھ کے اندر۔دوم مشقت ہو جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرور ہے مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی،تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھڑالےکہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھا،بعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی’’ومن المعلوم ان ماکان لضرورة تقدر بقدرھا( اور یہ بات معلوم ہے کہ جو چیز ضرورت کی وجہ سے ثابت ہو،  وہ بقدرِ ضرورت ہی ثابت ہوتی ہے ۔)(فتاوی رضویہ،جلد1،حصہ دوم، صفحہ 611،610،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایسی چیز جس سے بچنا ممکن نہ ہو، اگر  جسم پر لگ جائے  اور علم نہ ہو تووضو و غسل ہو جائے گا،تنویر الابصار مع درمختار و ردالمحتار میں ہے:وبین الھلالین عبارۃ رد المحتار:’’ولا یمنع الطھارة ونیم أی خرءذباب وبرغوث لم یصل الماءتحتہ(لان الاحتراز عنہ غیر ممکن)‘‘ ترجمہ: مکھی یا پسّو کی بیٹ کہ جس کے نیچے پانی نہ پہنچے ، طہارت سے مانع نہیں ، کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 154،دار الفکر،بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  ارشاد فرماتے ہیں:’’جس چیز کی آدمی کو عموماً یا خصوصاً ضرورت  پڑتی رہتی ہے اور اس کے ملاحظہ و احتیاط میں حرج ہے،اس کا ناخنوں کے اندر یا اوپر یا اور کہیں لگا رہ جانا اگرچہ جرم دار ہو اگرچہ پانی اس کے نیچے نہ پہنچ سکےجیسے پکانے،گوندھنے والوں کے لئے آٹا،رنگریز کے لئے رنگ کا جرم،عورات کے لئے مہندی کا جرم، کاتب کے لئے روشنائی، مزدور کے لئے گارا، مٹی، عام لوگوں کے لئے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جرم، بدن کا میل، مٹی،غبار، مکھی، مچھر کی بیٹ وغیرہ، کہ ان کا رہ جانا فرض اعتقادی کی ادا کو مانع نہیں (یعنی وضو و غسل ہو جائے گا)۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج 1،حصہ 1،ص 269،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم