Doodh Pite Bache Ka Peshab Pak Hai Ya Napak? Hadees Pak Ki Wazhat

دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے یا ناپاک ؟ایک حدیث پاک کی وضاحت

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8489

تاریخ اجراء:17صفر المظفر1445ھ/04 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ آج کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے ، جس میں یہ حدیثِ پاک  مذکور ہے  : ’’بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے اور بچی کا پیشاب لگ جائے ، تو اسے دھویا جائے گا ۔‘‘     لہٰذا بچے کا پیشاب  بچی کے پیشاب کی طرح ناپاک نہیں ہوتا ، ورنہ اسے بھی دھونے کا حکم دیا جاتا  ۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا واقعی ایسی کوئی حدیثِ پاک موجود ہے ؟ اور کیا  شیرخوار  بچے کا پیشاب  ناپاک نہیں  ہوتا  ؟ اگر کپڑے پر لگ جائے  ، تو کیا اسے دھونا ضروری نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دودھ پیتے بچے کا پیشاب بھی اسی طرح ناپاک ہے،جس طرح چھوٹی   بچی اور  بڑے افراد کا پیشاب ناپاک ہے  کہ حدیثِ پاک میں مطلقاً پیشاب سے بچنے کی تعلیم فرمائی ہے،چنانچہ فرمایا:استنزهوا من البول ،  فان عامة عذاب القبر منه  یعنی پیشاب کے چھینٹوں سے بچو کہ عموماً عذاب ِ قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے ۔     (دار قطنی ، کتاب الطھارۃ ، باب نجاسۃ البول ، جلد 1 ، صفحہ 232 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )

    حدیثِ پاک میں   پیشاب سے بچنے کا حکم اس کے نجس ہونے کی وجہ سے ہے   او ر یہاں بچی ، بچے یا بڑے افراد کے پیشاب  کے درمیان کوئی فرق بیان نہیں کیا گیا۔لہٰذا  بچے کے پیشاب کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کپڑوں یا بدن پر لگ جائے،تو بقدرِ درہم ہونے کی صورت میں  باقاعدہ دھو کر پاک کرناواجب ہے،بغیر   پاک کیے  نمازپڑھ لی، تو  واجب الاعادہ  ہوگی اور اگر درہم کی مقدار سے زیادہ لگ جائے ، تو پاک کر کے نماز پڑھنا فرض ہے،بغیر پاک کیے سرے سے نماز  ہی  نہیں ہوگی  ۔

    چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :كل ما يخرج من بدن الانسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي... وكذلك بول الصغير والصغيرة اكلا أو لا ترجمہ:ہر وہ چیز جو انسانی بدن سے نکلے  اور اس کا خروج وضو یا غسل کو واجب کرنے والا ہو،تو وہ نجاستِ غلیظہ ہے،جیسے پاخانہ ، پیشاب،منی ،مذی ،اسی طرح چھوٹے بچے اور بچی کا پیشاب،خواہ یہ کھانا کھاتے ہوں یا نہ کھاتے ہوں ۔( فتاوی عالمگیری ، کتاب الطھارۃ ، الباب السابع ، جلد 1 ،صفحہ 46 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ” دودھ پیتے لڑکے اورلڑکی کا پیشاب نَجاستِ غلیظہ ہے۔یہ جو اکثر عوام میں مشہور ہے کہ دودھ پیتے بچوں کا پیشاب پاک ہے،محض غلط ہے۔“

      دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ”دودھ پیتے لڑکے اور لڑکی کا ایک ہی حکم ہے کہ ان کا پیشاب کپڑے یا بدن میں لگا ہے،تو تین بار دھونا اور نچوڑنا  پڑے گا۔“(بهار شریعت، جلد1، صفحہ390، 399، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    جہاں تک  اس بات کا تعلق ہے کہ حدیثِ پاک میں چھوٹے بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنے کی اور بچی کے پیشاب کو دھونے کی تعلیم ہے،تو اس حوالے سے چند طرح کی  روایات بیان کی جاتی ہیں :

   (1)’’يغسل بول الجارية وينضح بول الغلام‘‘یعنی بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے گا  ۔

   (2) ’’يغسل من بول الجارية ويرش من بول الغلام‘‘یعنی بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا اوربچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے گا۔

   (3) ’’ أنه يصب من الغلام ويغسل من الجارية‘‘ یعنی بچے کے پیشاب پر پانی بہا یا جائے گا  اور بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا ۔

   (4) ’’ فبال على ثوبه، فدعا بماء، فنضحه ولم يغسله ‘‘ یعنی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک بچے کو لایا گیا اس نے آپ  كے کپڑوں پر پیشا ب کر دیا ،تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پانی منگوایا  اور پیشاب پر بہا  دیا اور  اس کو ( مل کر ) نہیں دھویا ۔

    ان کے علاوہ  بالفاظِ دیگر کچھ روایا ت بیان کی جاتی ہیں ، لیکن  ان  روایات کا  بنیادی مفہوم بھی یہی ہے ۔

    ان تمام روایات کا مطالعہ کیا جائے ، تو کسی میں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ بچے کا پیشاب  بچی یا بڑے افراد کے پیشاب کی طرح ناپاک نہیں ہوتا ، بلکہ ان روایات کا زیادہ سے زیادہ  یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی پاک   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بچے کے پیشاب کو دھونے میں مبالغے  اور  خوب مَل کر  دھونے کی تعلیم نہیں  فرمائی  ۔

    اس موضوع پر جتنی بھی روایات بیان کی جاتی ہیں،ان میں تین طرح کے صیغے استعمال ہوئے ہیں : (1) صبّ،یصبّ یعنی بہانا  (2) رش،  یرش  یعنی چھڑکنا (3) نضح ،  ینضح  یعنی چھڑکنا ۔ ان سب کی تفصیل درج ذیل ہے۔

   (1) بعض روایات  میں  " صبّ " کے الفاظ ہیں،جس کا معنیٰ ہے :بہانا  ۔ اور یہ لفظ دھونے کے معنیٰ میں ہی استعمال ہوتا ہے ، اس لحاظ سے معنیٰ یہ بنے گا کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیشاب کی جگہ پر پانی بہا کر  دھونے کی تعلیم فرمائی اور   اس  معنیٰ کے لحاظ سے اس کلمہ کے ساتھ آنے والی  روایات دھونے کے معنیٰ میں صریح  ہیں ، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس طرح دیگر افراد کے پیشاب کو دھویا جائے گا،یونہی بچے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے ۔

    چنانچہ مسند احمد ، سنن کبریٰ ، معجم کبیر ، جمع الجوامع  ، شرح معانی الآثار اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے،واللفظ للاوّل:عن عائشة قالت:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يؤتى بالصبيان فيدعو لهم، وإنه أتي بصبي، فبال عليه، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:صبوا عليه الماء صبا ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بیان  کرتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  بچوں کو لایا جاتا ، تو آپ ان کے لیے دعا کیا کرتے،اسی طرح ایک بچے کو لایا گیا ،تو اس نے آپ پر پیشاب کر دیا ، تو نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے   فرمایا : اس پر  پانی بہا دو ۔ ( مسند احمد ، مسند الصدیقہ عائشہ ، جزء  40 ، صفحہ 225 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )

   (2، 3 )  اور دیگر  بعض  روایات میں " یرشّ ،  ینضح  " کے صیغے آئے ہیں،لغوی اعتبار سے   یرشّ ،  ینضح  اور یغسل کے معنیٰ میں  اگرچہ کچھ فرق ہے،لیکن لغتِ عرب کو جاننے والا اور احادیثِ طیبہ کا بغور مطالعہ کرنے والا شخص اس بات سے واقف ہوگا کہ  بعض اوقات  نضح ، ینضح  اور  رشّ ، یرشّ کا صیغہ ذکر کر کے "غسل "  یعنی  دھونا مراد لیا جاتا ہے،چنانچہ عمدۃ القاری،نخب الافکار،اللباب وغیرہا دیگر کتبِ  شروح احادیث و فقہ میں ہے،واللفظ للاوّل:وأجابوا عن ذلك بأن النضح هو صب الماء لأن العرب تسمي ذلك نضحا، وقد يذكر ويراد به الغسل، وكذلك الرش يذكر ويراد به الغسل ترجمہ :  ( وہ روایات جن میں " نضح " اور " رشّ  " کے الفاظ آئے ہیں  )ان کا جواب ہمارے علمائے کرام نے یہ دیا کہ " نضح " کا معنیٰ ہوگا ،پانی بہانا ، کیونکہ اہلِ عرب اسی  کو " نضح " کا نام  دے دیتے ہیں اور بعض اوقات "نضح  " کا صیغہ  ذکر کر کے ،ا س سے "غسل "  یعنی دھونا مراد لیتے ہیں ، یونہی بعض اوقات " رشّ  " کا صیغہ ذکر کرکے اس سے مراد غسل لیا جاتا ہے۔( عمدۃ القاری ، کتاب الوضوء ، جلد 3 ،صفحہ 130 ، مطبوعہ بیروت )

   " نضح "  بمعنی " غسل " کی امثلہ :

    (1)  سنن ابو داؤد میں ہے  :حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ مولیٰ علی کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم نے ان کو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کرنے کا حکم دیا کہ ایک شخص اپنی اہلیہ کے قریب جاتا ہے ، تو اس کو مذی اتر آتی ہے ،   اس پر کیا لازم ہوگا ؟  تو حضرت مقداد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں ،میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کے متعلق پوچھا ، تو  فرمایا : ’’إذا وجد أحدكم ذلك فلينضح فرجه وليتوضأ وضوءه للصلاة ‘‘  یعنی جب تم میں سے کوئی ایسی صورت پائے ،تو اسے چاہیے کہ اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور وضو کر کے نماز پڑھے ۔( سنن ابو داؤد ، کتاب الطھارۃ ، باب  المذی ، جلد 1 ، صفحہ 39 ، مطبوعہ لاھور )

    اس حدیثِ پاک میں " فلینضح "   کا لفظ   " فلیغسل " کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اور اس پر دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے ، جس میں "ینضح "  کی جگہ " یغسل " کا لفظ  ذکر کیا گیا  ، چنانچہ مسلم شریف کی روایت میں ہے : ’’ فقال: يغسل ذكره ويتوضأ‘‘ فرمایا : اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور وضو کرے ۔   ( صحیح المسلم ، کتاب الحیض ، باب المذی ،جلد 1 ، صفحہ 177  ، مطبوعہ لاھور )

   دونوں کتابوں میں ایک ہی واقعہ ہے اور دونوں میں راوی بھی ایک ہی ہیں ، لیکن ایک جگہ "ینضح "  کے الفاظ ہیں اور دوسری جگہ "یغسل "  کے الفاظ موجود ہیں ، معلوم ہوا کہ  بعض اوقات "نضح "  کا صیغہ  ذکر کر کے  " غسل "  مراد لیا جاتا ہے  ، چنانچہ امام نووی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اسی واقعہ  کے متعلق چند روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وأما قولہ: ’’وانضح فرجک‘‘ فمعناہ : ’’اغسلہ‘‘ فإن النضح یکون غَسلا ويکون رشّا وقد جاء في الروایۃ الأخریٰ : یغسل ذکرہ، فتعین حمل النضح علیہ یعنی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے اس فرمان " وانضح فرجک "  کا معنیٰ یہ ہے کہ اپنی شرمگاہ کو دھو لو  کہ " نضح " یہاں دھونے کے معنیٰ میں ہے  اور دوسری روایت میں " یغسل ذکرہ " کے الفاظ ہیں ، جس سے یہ متعین ہوگیا کہ "نضح " یہاں پر " غسل " کے معنیٰ پر ہی محمول کیا جائے گا ۔ ( شرح النووی علی المسلم ،  كتاب الحيض ، باب المذی ، جلد 3 ، صفحہ 213 ، مطبوعہ بیروت )

    (2) جامع ترمذی وغیرہ میں ایک صحابی  کا واقعہ مذکور ہے کہ انہوں  نے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے کثیر المذی ہونے کا  ذکر کر کے مسئلہ دریافت کیا اور عرض کی کہ بعض اوقا ت میرے کپڑوں کو بھی لگ جاتی ہے  میں کیا کروں ؟ تو نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  ارشاد فرمایا : ’’ أن تأخذ كفا من ماء فتنضح به من ثوبك حيث يرى أنه أصابه ‘‘  یعنی کپڑے پر جہاں نجاست دیکھو  ، ہتھیلی میں پانی لے کر اس پر بہا دو ۔

   امام ترمذی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اس حدیثِ پاک  کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :وقد اختلف أھل العلم في المذي یصیب الثوب، فقال بعضھم: لا یجزیٔ إلا الغَسل، وھو قول الشافعي و اسحاق‘‘ یعنی کپڑوں پر مذی لگ جانے کی صورت میں اہلِ علم کا اختلاف ہے،بعض کہتے ہیں کہ دھونا ہی ضروری ہے ، اور یہی امامِ شافعی و امام اسحاق  عَلَیْہِمَا الرَّحْمَۃ کا قول ہے ۔   ( سنن ترمذی ، ابواب الطھارۃ ، باب المذی یصیب الثوب  ، جلد 1 ، صفحہ 125 ، مطبوعہ لاھور )

   بچے کے پیشاب کا بچی اور بڑے افراد کے مقابلےمیں ہلکا حکم بیان کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کپڑے پر مذی لگ جائے ، تو اسے باقاعدہ دھو کر پاک کرنا ضروری ہے،خالی  پانی چھڑک دینا کافی نہیں،حالانکہ مذی کے متعلق اوپر ذکر کردہ حدیثِ پاک میں "فتنضح "  کے الفاظ ہیں،جس کے لغوی معنیٰ چھڑکنا ہیں ، لیکن پھر بھی یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ کپڑوں پر مذی لگ  جانے کی صورت میں پانی چھڑک دینا کافی ہے ، بلکہ اس حدیثِ پاک  کے لفظ "فتنضح "   کو  " فتغسل " یعنی دھونے کے معنیٰ میں ہی استعمال کرتے ہیں ، (جیسا کہ امام ترمذی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے تبصرہ سے واضح ہے )  تو   جس طرح اس حدیثِ پاک میں  " فتنضح " کا صیغہ   " فتغسل " یعنی دھونے کے معنیٰ  میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح بچے کے پیشاب کے متعلق  وارد احادیث  میں بھی "ینضح"   کا لفظ "یغسل " یعنی دھونے کے معنی پر محمول ہوگا۔ 

   "رش  " بمعنیٰ "غسل "  کی امثلہ :

    (1)  صحیح بخاری میں ہے :ایک دفعہ حضرت ابنِ عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے وضو کے طریقہ کو حکایت کیا: أخذ غرفة من ماء فرش على رجله اليمنى حتى غسلها    یعنی آپ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  نے پانی کا چلو لیا اور آہستہ آہستہ اپنے دائیں پاؤں پر بہایا  ،یہاں تک کہ پاؤں  کو دھو لیا  ۔( صحیح البخاری ، کتاب الوضوء ، جلد 1 ، صفحہ 87 ، مطبوعہ لاھور )

   اس روایت میں " رشّ"  کا معنیٰ ہے  : تھوڑا تھوڑا پانی بہانا ۔ اور غور کیا جائے ، تو دھونے کا بھی یہی معنیٰ ہے کہ تھوڑا تھوڑا پانی اس انداز سے بہایا جائے کہ عضو دُھل جائے ،لہٰذا جس طرح اس روایت میں  "رشّ "  کو "غسل "  پر محمول کیا گیا ہے ، یونہی بچےکے پیشاب کےمتعلق وارد روایات میں موجود لفظ "رشّ " کو "غسل " پر محمول کیا جائے گا ،  چنانچہ شارحِ بخاری علامہ بدرالدین عینی حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :855 ھ /1451 ء) لکھتےہیں:أن الرش يذكر ويراد به الغسل، فقد صح عن ابن عباس، رضي اللہ تعالى عنهما، أنه لما حكى وضوء رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أخذ غرفة من ماء فرش على رجله اليمنى حتى غسلها ، وأراد بالرش ههنا صب الماء قليلا قليلا، وهو الغسل بعينه یعنی بعض اوقات "رشّ " کا لفظ   ذکر کیا جاتا ہے اور مراد "غسل "  لیا جاتا ہے ، جیسا کہ حضرت ابنِ عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے  صحیح حدیث مروی ہے ۔۔۔الخ۔یہاں " رشّ " کا معنی ہے: تھوڑا تھوڑا پانی بہانا  اور اسی کو تو دھونا کہتے ہیں ۔ ( عمدۃ القاری ، کتاب الوضوء ، باب بول الصبیان ، جلد 3 ، صفحہ 131 ، مطبوعہ بیروت )

    (2) سنن ترمذی میں ہے :حضرت اسما رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک عورت نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی ،یارسول اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   بعض اوقات ہمارے کپڑوں پر حیض کا خون لگ جاتا ہے، ہم کیا کریں  ؟ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشا د فرمایا : ’’حتيه ثم اقرصيه ثم رشيه وصلي فيه ‘‘ یعنی  پہلے کھرچو ، پھر رگڑو ، پھر پانی سے دھوؤ اور اس میں نماز پڑھو۔اور بخاری و مسلم  کی روایت  میں " رشیہ  " کی جگہ " تنضحہ "  کے الفاظ ہیں  ۔ ( سنن ترمذی ، ابواب الطھارۃ ، ماجاء فی غسل دم الحیض من الثوب ، جلد 1 ، صفحہ 131  ، مطبوعہ لاھور )( صحیح المسلم ، كتاب الطھارۃ ، باب نجاسۃ الدم ، جلد 1 ، صفحہ 174 ، مطبوعہ لاھور )

   " رشیہ  " اور  " تنضحہ "  دونوں کا لغوی معنیٰ : پانی چھڑکنا ہے ، لیکن یہاں حدیثِ پاک  میں دونوں  صیغے دھونے کے معنیٰ پر محمول ہیں اور جو حضرات  شیر خوار بچے کے پیشاب کے متعلق ہلکا حکم بیان کرتے ہیں، وہ بھی حیض کے خون آلودہ کپڑوں پر خالی پانی چھڑک دینے کو کافی قرار نہیں دیتے،بلکہ دھونے کا ہی حکم دیتے ہیں اور حدیثِ پاک کے لفظ " رشیہ  "اور" تنضحہ "کو غسل پر محمول کرنا ضروری سمجھتے ہیں،چنانچہ امام ترمذی  عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ   مذکورہ بالا حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’وقال الشافعی:یجب علیہ الغَسل وإن کان أقل من قدر الدرھم وشدد في ذلک ترجمہ :  امام شافعی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ  فرماتے ہیں : اگرچہ حیض کا خون درہم کی مقدار سے بھی کم ہو ، تب بھی اس کو دھونا ضروری ہے  (پانی چھڑک دینا کافی نہیں )  اور امام شافعی  عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے اس معاملے میں شدت فرمائی ہے۔ ( سنن ترمذی ، ابواب الطھارۃ ، ماجاء فی غسل دم الحیض من الثوب ، جلد 1 ، صفحہ 131  ، مطبوعہ لاھور )

   اور امام شرف الدین نَوَوِی شافعی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:ومعنى تنضحه تغسله وهو بكسر الضاد كذا قاله الجوهري وغيره وفي هذا الحديث وجوب غسل النجاسة بالماء ترجمہ : " تنضحہ " کا معنیٰ " تغسلہ " ہے اور یہ کلمہ ض کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے گا ،  یونہی علامہ جوہری وغیرہ  کا قول ہے   اور اس حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ حیض کی نجاست کو پانی کے ساتھ دھونا واجب و ضروری ہے  ( پانی چھڑک دینا کافی نہیں )۔

 ( شرح النووی  علی المسلم ، کتاب الطھارۃ ، جلد  3 ، صفحہ 199 ، مطبوعہ بیروت )

   لہٰذا جب ان روایات میں یہ مراد لی جا سکتی ہے،تو  ضروری ہے کہ بچے کے پیشاب کے متعلق وارد ہونے والے الفاظ  کو بھی دھونے پر محمول کیا جائے اور مراد یوں بیان کی جائے  کہ    بچے کے پیشاب کو  بھی پانی  سے  دھویا جائے گا ،  صرف پانی چھڑک دینا کافی نہیں ، ہاں ! رگڑ کر مبالغۃً دھونا ضروری نہیں ۔

   چنانچہ علامہ بدر الدین عینی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ   نتیجہ و خلاصۂ حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:فلما ثبت أن النضح والرش يذكران ويراد بهما الغسل، وجب حمل ما جاء في هذا الباب من النضح والرش على الغسل بمعنى إسالة الماء عليه من غير عرك، لأنه متى صب الماء عليه قليلا قليلا حتى تقاطر وسال حصل الغسل، لأن الغسل هو الاسالة، فافهم ترجمہ : جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ "نضح " اور " رشّ " کو ذکر کر کے " غسل " یعنی دھونا مراد لیا جاتا ہے ، تو  بچے کے پیشاب کے متعلق بیان کردہ احادیث میں موجود   "نضح " اور " رشّ " کے الفاظ کو "غسل "یعنی دھونے پر محمول کرنا واجب ہے   اور معنیٰ یہ ہوگا کہ کپڑے کو    ملے بغیر  اس پر پانی بہانا  ۔اس لیے کہ جب کپڑے پر تھوڑا تھوڑا پانی بہایا جائے گا ، یہاں تک اس سے قطرے بہنا شروع ہو جائیں ، تواسی سے غَسل یعنی دھونے کا مفہوم حاصل ہو جائے گا ، کیونکہ اس طرح پانی  کا بہہ جانا ہی ، غَسل یعنی دھونا ہے ، تو اس کو اچھی طرح سمجھ لو ۔(عمدۃ القاری ، کتاب الوضوء ، جلد 3 ، صفحہ 131  ، مطبوعہ بیروت )

   اشکال : آپ نے کہا احادیثِ طیبہ میں مذکور  " نضح "  اور " رشّ " کے الفاظ  کا معنیٰ چھینٹے مارنا یا پانی چھڑک دینا نہیں ہوگا ، بلکہ ان  دونوں کلمات کو غَسل یعنی دھونے کے معنیٰ پر محمول کیا جائے گا  اور اس پر آپ  نے دیگر نظائر و قرائن  پیش کیے،لیکن   ان كو دھونے كے معنیٰ پر محمول کرنا اس وقت درست ہے،جب کوئی مانع موجود نہ ہو ، اگر کوئی مانع موجود ہو،تو  اس صورت میں ان کو دھونے کے معنیٰ پر محمول نہیں کر سکتے ،ہم آپ کو صحیح بخاری کی ایسی روایت پیش کرتے ہیں،جس میں واضح قرینہ و دلیل موجود ہے کہ لفظِ"نضح"کو دھونے  کے معنیٰ پر محمول نہیں کر سکتے،چنانچہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’ عن أم قيس بنت محصن، أنها أتت بابن لها صغير، لم يأكل الطعام، إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فأجلسه رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في حجره فبال على ثوبه، فدعا بماء، ‌فنضحه ‌ولم ‌يغسله یعنی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک بچے کو لایا گیا ،  اس نے آپ کے کپڑوں  پر پیشا ب کر دیا ،تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پانی منگوایا  اور پیشاب پر بہا دیا اور  اس کو  دھویا نہیں ۔حدیثِ پاک کے الفاظ "  ولم يغسله "  واضح قرینہ ہے کہ " نضح " کے صیغہ کو " غسل " یعنی دھونے کے معنیٰ پر محمول نہیں کر سکتے ، کیونکہ " لم یغسلہ " خود اس کی نفی کر رہا ہے ۔

   جواب  :صحیح بخاری کی حدیثِ پاک میں بھی " فنضحہ " کے صیغہ کو غسل یعنی دھونے کے معنیٰ پر ہی محمول کیا جائے گا  اور  "لم یغسلہ "  کا  معنیٰ یہ ہوگا کہ خوب مَل کر اور رگڑ کر نہیں دھویا   ۔ اس طرح تطبیق دینے سے تمام روایات قابلِ عمل  قرار پائیں گی،  ورنہ روایات میں تعارض باقی رہے گا،حالانکہ محدثین کرام احادیث میں بظاہر واقع ہونے والے تعارض کو رفع کرنے کا پہلا اور بنیادی حل یہی بیان فرماتے ہیں  کہ ان میں حتی الامکان تطبیق کی جائے اور یہاں بھی احادیث کے درمیان تطبیق کرنا،ممکن ہے، لہٰذا اسی پر محمول کیا جائے گا ۔ 

   چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے :فإن قلت: قد صرح في رواية مسلم وغيره: (فاتبعه بوله ولم يغسله) ، فكيف يحمل النضح والرش على الغسل؟ قلت: معناه ولم يغسله بالعرك كما يغسل الثياب إذا أصابتها النجاسة، ونحن نقول به ترجمہ : اگر یہ کہا جائے کہ مسلم وغیرہ کی روایت میں " لم یغسلہ " کےصریح الفاظ موجود ہیں ،تو پھر کس طرح "نضح " اور " رشّ " کے الفاظ کو دھونے پر محمول کیا جا سکتا ہے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ حدیثِ پاک کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے رگڑ کر نہیں دھویا ، جس طرح کپڑوں کو نجاست لگ جائے  ،تو  ان کو دھویا جاتا ہے ۔   اور ہم اسی کے قائل ہیں ۔          (عمدۃ القاری ، کتاب الوضوء ، جلد 3 ، صفحہ 131  ، مطبوعہ بیروت )

   اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے : قلنا: " لم يغسله "  محمول على نفي المبالغة فيه، وما ورد في الأحاديث من النضح المراد به الصب  ترجمہ : ہم کہتے ہیں کہ حدیثِ پاک میں مذکور  کلمہ" لم یغسلہ " کو مبالغہ کی نفی پرمحمول کریں گے  اور احادیث میں جو " نضح"  کا  کلمہ مذکور ہے ، تو اس کی مراد "  بہانا  " ہے ۔( بنایہ ، کتاب الطھارۃ ، جلد 1 ،صفحہ 728 ، مطبوعہ بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم