Deh Dar Deh Hauz Ki Gehrai Ke Mutaliq Tafseel

دہ در دہ حوض کی گہرائی  کے متعلق تفصیل

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2944

تاریخ اجراء: 02صفر المظفر1446 ھ/08اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دہ در دہ حوض کی لمبائی چوڑائی دس دس ہاتھ ہوتی ہے، تو اس کی گہرائی کتنی ہو گی؟ جیسے بچوں کے swimming pool ہوتے ہیں ان کی گہرائی زیادہ نہیں ہوتی۔ بچہ اگر کھڑا ہو تو اس کی کمر تک آتی ہے۔ تو ایسے swimming pool کا کیا حکم ہو گا؟ کیا وہ دہ در دہ میں آئے گا؟ اس کی گہرائی جاننی تھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دہ دردہ حوض کی گہرائی کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے :

   (الف)دَہ در دَہ  حوض میں صرف اتنی گہرائی درکار ہے کہ اتنی مساحت (جتناحصہ دہ دردہ ہے،اس حصے)میں زمین کہیں سے کھلی نہ ہو۔

   اور یہ جوبہت کتابوں میں فرمایا ہے کہ :"لَپ یا چُلّو میں پانی لینے سے زمین نہ کُھلے" اس کی حاجت اس کے کثیر رہنے کے لیے ہے کہ استعمال کے وقت اگر پانی اُٹھانے سے زمین کُھل گئی تو اس وقت پانی سو ہاتھ کی مساحت(پیمائش) میں نہ رہے گا۔

   اوراس کے لیے خاص لپ یاچلوہی کی تخصیص نہیں بلکہ استعمال کے وقت کسی طرح (ہاتھ یابرتن یاکسی اور چیز سے)پانی اٹھانے سے زمین کھل گئی ،اوردونوں طرف کاحصہ دہ دردہ سے کم ہوگیاتواب وہ کسی طرف بھی دہ دردہ نہ رہا۔

   نیزاستعمال کے وقت کثیررہنے کے لیے سارے حصے میں اتنی گہرائی ضروری نہیں بلکہ جہاں سے پانی لیاجائے ، خاص اس جگہ اتنی گہرائی کافی ہے کہ پانی لینے سے زمین نہ  کھلے۔

   (ب)اوراگرپانی اتنازیادہ ہے کہ جہاں سے پانی لیاگیا،وہاں سے اگرزمین کھل بھی جائے توہرطرف کاٹکڑادہ دردہ رہے توکھلنانقصان نہ دے گاکہ اگرچہ پانی کے دوحصے ہوگئے لیکن دونوں کثیرہی ہیں ۔

   پس اوپرمذکورتفصیل کے مطابق اگر سوال میں مذکور swimming poolکے دہ دردہ تک کے حصے میں اتناپانی ہے کہ زمین کہیں سے کھلی نہیں ہوئی تو بڑاحوض بننے کے لیے اتناکافی ہے ،اب جس وقت اس میں سے ،جس مقام سے پانی لیناہے ،ہاتھ سے یابرتن سے ،اس وقت اس کے درہ دردہ باقی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ  اس مقام سے زمین کھل نہ جائے ۔جب اس swimming poolکی گہرائی اتنی ہے کہ  بچے کی کمرتک پانی آتاہے توظاہریہ ہے کہ اب وہ پانی اتناضرورہوگاکہ چلویابرتن سے پانی لینے میں زمین نہیں کھلے گی ،لہذااگرایساہی ہے تواگر استعمال سے پہلے وہ حوض  دہ دردہ ہے تواستعمال کے وقت بھی وہ دہ دردہ ہی رہے گا۔

   اسی طرح اگربالفرض تالاب وغیرہ ایساہے کہ اس سے پانی لینے سے زمین کھل جائے گی لیکن وہ اتنابڑاہے کہ جہاں سے زمین کھلی،اس کے دونوں طرف پانی دہ دردہ ہے تواب زمین کاکھلنانقصان نہیں دے گاکہ دونوں طرف کاپانی کثیر ہے ۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں   فرماتے ہیں : بالجملہ روشن ہوا کہ کثرت کیلئے صرف اس قدر درکار کہ مساحت بھر میں کوئی جگہ پانی سے کھلی نہ ہو یہی ظاہر الروایۃ وتصحیح اول ہے اسی بنا پر پانی لیتے وقت کثرت باقی رہنے کیلئے لازم کہ اُس سے زمین کھل نہ جائے ورنہ قلیل ہوجائے گایہی مطلب عامہ کتب وتصحیح دوم ہے۔

   ثم اقول یہ توفیق انیق بعض فیصلے اور کرے گی۔

   اوّل اغتراف(۱) مطلق رہے گا جس طرح متون وہدایہ وعامہ کتب میں ہے کہ پانی فی نفسہٖ ہر طرح کثیر ہے مقصود اُس وقت زمین کا بالفعل نہ کھُلنا ہے نہ کوئی صلاحیت عامہ تو چلّو ہو یا لپ جس طرح پانی لیا اُس سے نہ کھلنا چاہئے اگرچہ دوسری طرح انکشاف ہوسکے بلکہ ہاتھ کی بھی تخصیص نہیں برتن سے لیں خواہ کسی سے اُس وقت زمین کھُلے نہیں۔

دوم ساری(۲) مساحت میں اس عمق کی حاجت نہیں صرف وہیں کافی ہے جہاں سے پانی لیا گیا۔

   سوم یہ شرط دہ در دہ میں فرمائی ہے پانی اگر(۳) اس درجہ کثیر ہے کہ جہاں سے لیا گیا اگر زمین کھُل بھی جائے تو ہر طرف کا ٹکڑہ دہ در دہ رہے تو کھُلنا مضر نہ ہوگا کہ اگرچہ دو پانی ہوگئے مگر دونوں کثیر ہی ہیں۔"(فتاوی رضویہ،ج 2، ص 447،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم